چوںکہ زندگی کا سفر جاری و ساری رہتا ہے سو اس رمضان بھی کچھ سفر درپیش رہے اور ہم بھوکے پیاسے در در کی خاک چھانتے رہے۔
اِن میں سے ایک سفر ایسا ہے جو میں آپ سب سے لازمی سانجھا کرنا چاہوں گا۔۔۔شانتی نگر کا سفر۔
خانیوال سے بین الاقوامی بائیکر اور ہمارے پیارے دوست ایان عامر کی طرف سے افظار ڈنر کا دعوت نامہ موصول ہوا تو سوچا اسی بہانے آس پاس کی کھوج بھی کرلی جائے۔ یہی سوچ کر ہم وقت سے پہلے جا پہنچے اور ہمارے میزبان دوست عزیز الدین عماد صاحب ہمیں لیے شانتی نگر جا پہنچے جو آج بھی ماضی کے شعلوں میں جل رہا ہے۔
خانیوال کے جنوب مشرق میں لوئر باری دوآب کنارے واقع شانتی نگر، جنوبی پنجاب کی سب سے بڑی مسیحی کالونیوں میں سے ایک ہے۔
1911 میں نکالی جانے والی لوئر باری دوآب نہر نے اس علاقے کی قسمت بدل کے رکھ دی جس کے نتیجے میں علاقے کی زمینیں گندم اور کپاس اگلنا شروع ہوگئیں۔
زمین کو گرڈ پیٹرن میں کئی دیہات میں تقسیم کر کے فوجیوں اور دیگر قبائل کو الاٹ کردیا گیا۔
ان بستیوں میں سے ایک چک 10/72 آر بھی تھا جس کی بنیاد سالویشن آرمی کے افسرولیم بوتھ نے رکھی تھی۔ زمین کا ایک بڑا حصہ خرید کر مسیحی خاندانوں میں تقسیم کیا گیا۔
یہیں کچھ نزدیکی دیہات میں بھی عیسائیوں کو آباد کیا گیا اوردسمبر 1916 میں سالویشن آرمی کی ممتاز یورپی خاتون بریگیڈیئر بینسٹر المعروف ’’شانتی بائی‘‘ کی خدمات کے اعتراف میں گاؤں کا نام ’’شانتی نگر‘‘ رکھا گیا۔ گاؤں کا سنگ بنیاد اس وقت کے کمشنر بمبئی ’’مسٹر فریڈرک ٹکر‘‘ نے رکھا تھا جب کہ اِس گاؤں کا نقشہ برطانیہ سے تیار ہوکر آیا تھا۔ فریڈرک ٹکر نے سالویشن آرمی کی خدمات سے متاثر ہوکر کمشنر کے عہدے سے استعفیٰ دیا اور اس تنظیم کے رکن بن گئے۔ انہوں نیاپنا نام ’’فقیر سنگھ‘‘ رکھ لیا تھا۔
لگ بھگ ایک سو ایکڑ رہائشی رقبے والے شانتی نگر کی آبادی چھبیس ہزار بتائی جاتی ہے جہاں کیتھولک عیسائی اکثریت میں ہیں۔
یہاں سالویشن آرمی کا تعارف بھی ضروری ہے جو ایک پروٹسٹنٹ عیسائی چرچ اور اس سے منسلک بین الاقوامی خیراتی ادارہ ہے جسے ولیم بوتھ (1912-1865 ) اور ان کی زوجہ کیتھرین بوتھ نے 2 جولائی 1865 کو قائم کیا تھا۔ اس تنظیم کے رکن اور پیروکار اجتماعی طور پر نجات دہندگان کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ یہ ادارہ برطانیہ اور دیگر کئی ممالک میں بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہیں، صحت بحالی مراکز اور غریبوں کے لیے چھوٹے کاروبار اور دکانیں چلا رہا ہے نیز یہ قدرتی آفات میں مدد بھی فراہم کرتا ہے۔
مقدس بائبل کو بنیاد بنا کر اس تنظیم کے اپنے گیارہ اصول ہیں۔ یہ تنظیم اپنا الگ جھنڈا اور مہر بھی رکھتی ہے۔
سالویشن آرمی نے ہی اس گاؤں میں 1917 کو ایک ڈسپنسری اور چرچ کی بناد رکھی جو THE SALVATION ARMY CITADAL SHANTI NAGAR کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گاؤں میں سولہ چرچ اور بھی ہیں۔
1917 میں یہاں پرائمری اسکول بنا جو 1963 میں میجر ولیم ہنٹر کی کوششوں سے ہائی اسکول بن گیا۔ سرکاری ڈاک خانے کی سہولت 1922 جب کہ بجلی کی سہولت 1962 میں دی گئی۔
ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ ریاست پاکستان میں قانون کے تحت سرکاری املاک کی تعمیر کے لیے حکومت کسی کو بھی جگہ خالی کرنے کے لیے کہہ سکتی ہے، لیکن یہاں ایسا نہیں ہو سکتا کیوںکہ یہ گاؤں برطانوی حکومت سے براہ راست خریدا گیا تھا۔
اب چلتے ہیں اس اندوہ ناک سانحے کی طرف جس نے اس گاؤں کو عالمی سطح پر شہرت بخشی تھی مگر افسوس، وہ شہرت مثبت نہ تھی۔
ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق
’’کالونی کے ایک عمررسیدہ فرد کے گھر پر سٹے بازی کے الزام پر مقامی پولیس نے چھاپا مارا اور دورانِ تلاشی غلطی سے بائبل مقدس گر گئی، جسے اٹھایا نہ گیا۔ علاقے کے بڑوں نے پولیس اسٹیشن میں اکٹھے ہو کر مقدس کتاب کی گستاخی پر تلاشی لینے والوں کے خلاف مقدمے اور معافی کا مطالبہ کیا۔ ایک دو روز میں جنرل الیکشن متوقع تھے سو اس معاملے کو کچھ دنوں کے لیے ٹال دیا گیا۔ اِس علاقے میں کچھ مظاہرے ہوئے اور مسیحی کمیونٹی کے بڑوں پر عام معافی کے لیے دباؤ ڈالا گیا لیکن کچھ نہ بن سکا اور 5 فروری 1997 کا دن آن پہنچا۔
یہ رمضان کا مقدس مہینہ تھا اور 27 کی شب تھی جب اچانک ایک خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ یہاں ایک مسجد کے باہر قرآنِ کریم کے جلے ہوئے اوراق ملے ہیں جن پر اسی گھر کا پتا درج تھا جہاں پولیس نے چھاپا مارا تھا۔ اور اسی وقت خانیوال کے مضافات میں واقع آٹھ مسیحی دیہات کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ مساجد سے مسیحیوں کو سبق سکھانے کے اعلان ہوئے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ 6 فروری کے دن ایک ہجوم اٹھا جس نے شانتی نگر اور ٹبہ کو نذرِآتش کردیا۔ کئی گھر لوٹے اور 3 اسکولوں سمیت 13 چرچ اور 775 گھر بھی جلا دیے گئے۔‘‘
سالویشن آرمی چرچ، کیتھولک چرچ، اسکول، دوکانیں، گھر سب کچھ تباہ و برباد کردیا گیا لیکن یہ سب کرنے والے یہ بھول گئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعظیم اور اُن پر ایمان لانا ان کے مذہب کا لازمی جزو ہے۔
ہیومن رائٹس کونسل پاکستان کے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن، جس نے 10 فروری 1997 کو گاؤں کا دورہ کیا تھا، کے مطابق 1989 کے چک سکندر فسادات کے بعد مذہبی اقلیتی گروپ کے خلاف تشدد کا یہ بدترین واقعہ تھا۔ اس واقعے کی گونج عالمی میڈیا تک بھی گئی اور عرصے تک خانیوال کے قلب میں یہ خنجر پیوست رہا جس کا زخم وقت گزرتے ہی بھرنا تھا۔
عرصے بعد میں شانتی نگر کے مرکزی چوک میں واقع اسی صلیب کے سامنے ٹھہرا تھا جس کے اطراف میں عرصہ پہلے خون کی ہولی کھیلی گئی تھی۔ یہ اس وقت پاکستان کا دوسرا بڑا کراس ہے۔
ہمیں دیکھ کے ایک مقامی شخص ہیبرون گِل ہمیں ملنے آیا اور اس نے بتایا کہ یہ جگہ متنازعہ تھی جسے کیلون گل نے خریدا اور اس کے بھائی ہارون گِل صاحب نے یہاں ایک صلیب بنانے کا منصوبہ بنایا۔ کراچی کراس بننے سے پہلے تک یہ پاکستان میں سب سے بڑی صلیب تھی جسے مقامی آبادی کے تعاون سے تعمیر کیا گیا تھا۔ 54 فیٹ بلند یہ کراس شانتی نگر کے امن اور جِدت پسندی کا عکاس ہے۔
اس پر لگی یادگاری تختی اب کچھ جگہوں سے مٹ چکی ہے لیکن بیشتر الفاظ پڑھے جا سکتے ہیں۔ اس کے مطابق یادگارِ کلوری کا سنگِ بنیاد 24 دسمبر 2012 کو ہارون گل نے رکھا تھا۔ صلیب کی بنیاد میں چاروں جانب تختیاں پیوست ہیں جن پر علاقے کی تاریخ اور بائبل کے فرمودات لکھے گئے ہیں۔
شانتی نگر کے داخلی دروازے کو بھی جناب ہارون گل نے 2008 میں بنوایا تھا اور اس پر ایک صلیب نصب کروائی۔
اسی صلیب کے ایک طرف سالویشن آرمی چرچ واقع ہے جو گوا کے کسی پرتگالی چرچ کی طرح لگتا ہے۔
پیلے رنگ کے پتھر سے بنی اس عمارت کے مینار پر ایک گھنٹی اور صلیب دور سے ہی نظر آ جاتی ہے ہیبرون گِل صاحب نے خصوصی طور پر یہ چرچ کھلوایا اور ہم اندر داخل ہوئے۔ قالینوں سے مُزین ایک لمبا ہال، جگمگاتے جھومر، جگہ جگہ لگی صلیبیں، سامنے عبادت کا چبوترہ اور ایک جانب دیوار پر لگی ولیم بوتھ کی تصویر۔ یہ تھا شانتی نگر کا سالویشن آرمی چرچ جسے 1994 میں دوبارہ بنایا گیا تھا۔ چھوٹے سے احاطے میں موجود سرسبز لان سے گھری یہ عمارت اتنی صاف تھی جیسے کل ہی تعمیر کی گئی ہو۔
ہیبرون گِل نے بتایا کہ شانتی نگر ایک سماجی مذہبی تنظیم کا خریدا ہوا اثاثہ تھا، اسی لیے اس کے سیاسی اور انتظامی معاملات دوسرے علاقوں سے کچھ مختلف تھے۔ یہاں بیشتر سماجی کام ہارون گل اور علاقے کے لوگوں نے مل کر کیے ہیں جیسے پانی کا فلٹریشن پلانٹ لگوانا، کرسمس پر سب سے بڑا کرسمس ٹری سجانا، علاقے کی صفائی اور خوب صورتی بڑھانا وغیرہ۔
لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس وقت شانتی نگر کی اتنی بڑی آبادی کے لیے ایک بھی سرکاری اسپتال یا ڈسپنسری موجود نہیں ہے، حالاںکہ یہاں ایک بنیادی مرکز صحت تو لازمی ہونا چاہیے تھا۔
افطار کا وقت قریب تھا سو ہم نے ایک ہی چرچ دیکھنے پر اکتفا کیا۔ ہیبرون گل کے ساتھ تصاویر بنوائیں اور شانتی نگر کے داخلی دروازے کے پار چل دیے جہاں خانیوال کے ایک لان میں میرا دوست ایان ہمارا منتظر تھا۔
جاتے وقت میری ایک ہی دعا تھی کہ شانتی نگر کی شانتی پھر کبھی نہ ختم ہو۔