دمشق: شام میں سیکیورٹی فورسز اور معزول صدر بشار الاسد کے حامیوں کے درمیان ہونے والی شدید جھڑپوں اور انتقامی قتل عام میں مرنے والوں کی تعداد 1000 سے زائد ہو گئی ہے، جن میں 750 عام شہری شامل ہیں۔
برطانیہ میں قائم شامی مبصر گروپ برائے انسانی حقوق کے مطابق زیادہ تر شہریوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا جبکہ سیکیورٹی فورسز کے 125 اہلکار اور بشار الاسد کے حامی 148 عسکریت پسند بھی مارے گئے۔
لاذقیہ اور دیگر متاثرہ علاقوں میں بجلی اور پانی کی فراہمی منقطع کر دی گئی ہے۔ یہ جھڑپیں اسد حکومت کے خاتمے کے تین ماہ بعد شروع ہوئیں اور دمشق میں نئی حکومت کے لیے بڑا چیلنج بن چکی ہیں۔
بنیاس اور دیگر علاقوں میں بشار الاسد کے اقلیتی علوی فرقے کے افراد کو گھروں میں گھس کر قتل کیا گیا۔ مقامی افراد نے بتایا کہ ہزاروں افراد جان بچانے کے لیے پہاڑوں کی طرف بھاگ گئے ہیں جبکہ بہت سے گھروں کو لوٹنے کے بعد جلا دیا گیا۔
57 سالہ علی شیحہ نامی شخص نے بتایا کہ بنیاس میں اس کے 20 پڑوسیوں کو گولی مار دی گئی، جن میں کچھ اپنی دکانوں میں اور کچھ گھروں میں تھے۔
شام کی وزارت دفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ سرکاری فورسز نے زیادہ تر علاقوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے اور امن و امان کی بحالی کے لیے تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں۔
مقامی افراد کے مطابق ہفتے کی صبح وسطی گاؤں تویم میں 31 افراد کی لاشوں کو اجتماعی قبر میں دفن کیا گیا، جن میں 9 بچے اور 4 خواتین شامل تھیں۔