سولر پینلز پر ٹیکس کی تجویز

سولر پینلز پر ٹیکس کی تجویز


ہم وہ لوگ ہیں جو اندھیرے کے عادی تھے، سرشام گھروں میں دیے جلائے جاتے تھے۔ پھر زمانے نے ترقی کی، انگریزوں نے مٹی کے تیل کے کنستر لا لا کر بیچے اور ہم خریدتے چلے گئے۔ اس کے لیے انگلینڈ کی بنی ہوئی لالٹینیں خریدتے رہے۔ پھر بجلی آئی، ہر طرف اس کی طلب پیدا ہوئی، عالمی بینک نے بڑے دو ڈیم بنا کردیے، کہا جلد ہی تیسرا بنا لینا پھر چوتھا اور پانچواں۔ سستی بجلی پیدا ہوگی، عوام کو کسانوں کو سستی ملے گی، کارخانے والوں کو بھی سستی ترین بجلی ملے گی۔ ان کی مصنوعات کا دنیا بھر میں راج ہوگا، لیکن پھر ایسا تو نہ ہوا البتہ بجلی بنانے والی کمپنیوں کا راج بڑھنے لگا اور بجلی مہنگی ہونے لگی۔ پھر لوڈ شیڈنگ بڑھنے لگی تو جنریٹرز کی گھڑ گھڑ سے جینا دوبھر ہونے لگا۔

اتنے میں دنیا نے ترقی کی ایک اور زقند بھری۔ سائنسدان سورج تک جا پہنچے، اپنا دکھڑا سنایا۔ سورج نے کہا مجھ سے روشنی مفت میں لے لو۔ اپنے اندھیروں کو خیرباد کہہ دو۔ سورج سے مفت بجلی لینے کا نام ’’ سولر انرجی سسٹم‘‘ رکھا گیا۔ یوں روشنی کی ایک نئی دنیا نے جنم لیا۔ جہاں کچھ چیزوں کے دام تھے لیکن سورج کی روشنی مفت اور عام تھی، اس کے ساتھ کئی پرزے بھی تھے۔

میری ناقص معلومات کے مطابق فوٹو وولٹیک سیل، ہائی برڈ انورٹرز، لیتھیم بیٹریز، مونو کرسٹیلائن پینلز وغیرہ۔ اب ان سب باتوں کو سورج سے روشنی لینے کے رازکی گرہیں بیرون ملک جدید ترقی یافتہ ممالک کھول رہے تھے۔ پاکستانی تاجر اس ضرورت کو محسوس کر رہے تھے، کیونکہ یہ سسٹم لوڈ شیڈنگ کے خلاف زبردست بغاوت تھی اور سورج کی طرف سے ایک پیغام تھا کہ اب واپڈا کے بلوں سے آزاد ہو جاؤ کیونکہ سورج تمہارا ہے، تمہارے ملک میں روز نکلتا ہے، خوب چمکتا ہے، روشنی بھی دیتا ہے، فصلیں بھی پکاتا ہے، آم بھی پکتے ہیں اور بہت کچھ۔

اب آئی ایم ایف نے کہہ دیا ہے کہ سولر انرجی پر ٹیکس لگایا جائے، اس کے درآمدی سامان پر ٹیکس لگایا جائے، یہ تاجر بیرون ملک جا کر وہ ٹیکنالوجی ساتھ لانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہم جدید دنیا کے ساتھ مل کر چل سکیں، کیا کیا ٹیکنالوجی آ رہی ہے، اسمارٹ انورٹرزکی۔ لیتھیم، فاسفیٹ کی، بی ایم ایس کی۔ مگر حکومتی پالیسی پرانی فائلوں میں گم ہے، سولر کے بیوپاری کنٹینرز منگواتے ہیں تو اس کے بعد کتنے جھمیلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ بالآخر ان کو کہنا پڑتا ہے میں تو سورج کو لے آیا تھا۔ مگر سرکار کو اندھیروں سے کام ہے۔

میں ایسے تاجروں کی کہانی سن چکا ہوں جو بیرون ملک سولرکی منڈیوں میں جا کر وہاں کے سولر نمائش گاہوں میں جا کر کمپنی سے بھاؤ تاؤ کرتے ہیں، انھیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان میں غریب ہیں، غریب کسان ہیں، ان کے لیے سستا پیکیج بنا کردو، پاکستان میں سورج خوب چمکتا ہے اور یوں ایک تاجر جو دل کا مریض بھی ہے لیکن پاکستانیوں کو سستے سولرزکی فراہمی کے لیے جان کو ہتھیلی پر لیے دیار غیر میں پھرتا ہے کہ میں غریب کسانوں کے دامن سورج کی روشنی سے بھردوں، اور جب اس روشنی سے فائدہ اٹھانے والی ٹیکنالوجی کو ڈبوں میں بند کرکے کنٹینرز میں لاد کر لاتا ہے تو بندرگاہ پرکہا جاتا ہے کہ بھائی! روشنی مفت بانٹ رہے ہو تو پھر ٹیکس ادا کرو۔

اب اور زیادہ ٹیکس دینا ہوگا، پھر وہ کہتا ہے بھائی! یہ سولر پینلز ہیں جوکہ سورج کی مفت کرنوں کو روشنی میں بدلنے کا بنیادی آلہ ہے اور یہ انورٹر ہے، اور یہ بیٹری ہے دھوپ جمع کرنے کا ڈبہ، تاکہ راتیں روشن کی جا سکیں۔ اور یہ چارجر،کنٹرولر ہے، اب آئی ایم ایف کہتا ہے۔

ان سب پر ٹیکس لگا دو تاکہ سورج کی مفت روشنی مہنگی ہو کر رہ جائے۔ سولر پینلز بیچنے کے علاوہ صنعتی ملکوں سے خرید کر لانے والے تاجر نے تو یہ چاہا کہ میرا ملک اندھیرے سے نکلے، بجلی کے بھاری بھرکم بلوں سے آزاد ہو۔ اب ان کو پریشان کرنا، جرمانے بھی عائد ہوتے ہیں، ایک بزنس مین نے بتایا ۔ اب کیا کہوں کل کو شاعر پر بھی جرمانہ ہوگا کہ اپنی غزل میں چاند کی چاندنی اس کی ٹھنڈک کو کیوں مفت میں کھینچ لائے ہو۔ یہ صرف سولر پر ٹیکس نہیں، روشنی پر قدغن ہے۔ بجلی کی پیداوار میں خود کفالت کی منزل کو گم کرنا ہے۔

کراچی کی بندرگاہ سے لے کر گوانگژو میں سولر پینلز کمپنیوں کی نمائش گاہ تک دل تھام کر جانے والا دل کا مریض تاجر، مگر عوام کو اندھیروں سے نکالنے کے جذبے سے سرشار تھا۔ جب ہر بار ڈالر ریٹ بڑھتا اس کی سانسیں گھٹتی تھیں۔ اس نے سولر پینلز کے ہاتھوں عوام کو سورج کا یہ پیغام دیا۔ اندھیرے دور کردو، کیوں کہ یہ سورج تمہارا ہے۔ لیکن اب اس پر ٹیکس لگے گا۔ اب یہ مہنگا سسٹم کون خریدے گا، یہ تاجر جو دنیا کی منڈیوں سے سولر سسٹم خرید کر لایا تھا اب بجٹ نے اس پر اندھیرا سایہ ڈال دیا ہے۔ ہمیں بجلی کی ضرورت تھی، جدید ٹیکنالوجی نے سورج کی مفت روشنی سے اندھیرا دور کرنے کا ہنر سکھا دیا تھا لیکن اب ٹیکس اس پر رکاوٹیں ڈال دے گا۔





Source link