اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ سروس ٹربیونلز محکمانہ کارروائی کے فیصلے کو کالعدم قرار دے سکتی ہے لیکن یہ اختیار انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے، کسی عدالت کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے وہ آئین و قانون کے تحت حاصل اختیارات کے بجائے اپنی مرضی سے ریلیف دے۔
جسٹس منصور علی شاہ کے تحریرکردہ 5صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا گیاہے، اس کیس پس منظر یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ پولیس لاہور میں دو ہزار سات میں ڈرائیور کانسٹیبلز بھرتی کیے گئے، بعد ازاں یہ شکایت آئی کہ جعلی ایل ٹی وی ڈرائیونگ لائسنس کی بنیاد بھرتیاں ہوئیں، دو ہزار اکیس میں محکمانہ کارروائی کے بعد ملازمین کو نوکری سے نکال دیا گیا۔
محکمنامہ کارروائی کیخلاف اپیل دائر کی گئی جسے مسترد کردیا گیا، پنجاب سروس ٹربیونل لاہور نے اپیل منظور کرتے ہوئے ملازمین کو بحال کردیا جس کیخلاف سپریٹنڈینٹ پولیس ہیڈ کوارٹر لاہور نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، اپیل کو جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس ملک شہزاد احمد خان پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس سنا۔
عدالتی فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ قانون کے تحت سزا دینے کیلئے ابتدائی کام محکمہ پولیس کا ہے، ٹربیونل یا عدالت کا کردار ثانوی ہے ، عدالت نے 21 ستمبر 2021کے سروس ٹربیونل کے فیصلے کو ختم کرتے ہوئے محکمانہ کارروائی کے فیصلے کو بحال کردیا اور اپیل منظور کرلی۔
سروس ٹربیونلز