جمّوں وکشمیر میں ڈرامے کا آغاز کم وبیش ہندوستان کے اُسی دور سے ہوا جب پارسی تھئیٹر کمپنیوں کا راج تھا۔ حبیبؔ کیفوی (مصنف ’کشمیر میں اردو‘) کے بیان کے مطابق، ہندوستان سے جمّوں وکشمیر آنے اور کام یابی حاصل کرنے والی تھئیٹر کمپنیوں کو دیکھ کر کشمیر کی حکومت کو خیال آیا کہ کیوں نہ سرکاری وسائل استعمال کرکے ریاست کا پیسہ ریاست ہی کے عوام پر خرچ کیا جائے۔ ’’اس سے دربارِ کشمیر کو یہ خیال ہوا کہ کیوں نہ ریاست میں ناٹک کمپنی قائم کی جائے، جس سے عوام کو تفریح مہیا کی جائے اور مُلک کا رُوپیہ مُلک ہی میں رہے، چنانچہ محکمہ دھرم اَرتھ نے ، جس کے پاس لاکھوں روپے کا بے کار پڑا ہوا فنڈ تھا، روگھناتھ مندِ ر، جمّوں میں ایک ناٹک کمپنی کی تشکیل کی ، جس کے اداکار کچھ تو
ہندوستان کی مشہور کمپنیوں سے لائے گئے اور کچھ مقامی طور پر جمّوں کے خوش ذوق اور خوش گلو نوجوانوں کو تیار کیا گیا۔ اس کمپنی نے آغا حشر ؔ کے مشہور ڈرامے ’ہیملٹ‘ (شیکسپئیر)، ’خوبصورت بلا‘ اور ’الہ دین کا چراغ‘ اسٹیج کرکے (گویا) شہر کو لُوٹ لیا‘‘۔ آغا حشرکاشمیری کے مشہور زمانہ ڈراموں نے بہ یک وقت کئی کام کیے۔ ایک طرف تو ڈراما دیکھنے اور اِس میں کام کرنے کا شوق، نوجوانوں میں سرایت کرگیا ;دوسری طرف اس کے ذریعے پوری ریاست میں اردو کی فطری پرداخت، نشونما اور فروغ کی راہ ہموار ہوئی۔ مہاراجہ خود بھی کبھی کبھی ڈرامے دیکھنے آتے تو اداکاروں کی موج ہوجاتی۔ وہ انھیں انعام واِکرام سے نوازتے تھے۔ اوّلین دور کے کامیاب اور نمایاں ڈراما نگاروں میں صاحبزادہ محمد عمر اور ماسٹر غلام حیدر کے نام بہت اہم تھے۔ صاحبزادہ کا شمار اُس دور کے بڑے نقادوں میں ہونے لگا تھا، جبکہ مؤخرالذکر نے مختلف مقامات پر اپنی ملازمت کے سلسلے میں تعیناتی کے عرصے میں عوام کے مسائل اُجاگر کرنے کے لیے ایسے مؤثر ڈرامے اسٹیج کیے کہ سرکار بھی فوری اقدامات کرنے پر مجبور ہوگئی۔ یہ سلسلہ آج بھی ممکن ہے، مگر یہاں لوگ ایسی باتیں سوچتے بھی نہیں!
یہ سلسلہ دراز ہوا تو کشمیر میں محمودہاشمی، محمدعمرنوراِلہٰی، پریم ناتھ پردیسی، علی محمد لون، راج ہنس کھنّہ اور صلاح الدین احمد جیسے لوگ منظرعام پر آئے۔ ظاہر ہے کہ یہ محض چند نام ہیں اور اس بارے میں بہت سی تفصیلات معلوم کیے بغیر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کشمیر میں ڈرامے کے فروغ میں کیا کچھ کیا گیا اور اَب کیا صورت حال ہے۔ اس ضمن میں کشمیر سے ہندوستان اور ہند سے کشمیر آنے جانے والے سیاحوں کے باہمی میل جول سے بھی زبان کی صورت نکھارنے میں مدد ملی۔ بہت سے کشمیری علی گڑھ یونیورسٹی سمیت بڑے اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد عمدہ اردو بولنے لگے۔
تحقیق وتنقید میں بھی اسی طرح سرسری جائزے میں یہ نام نمایاں ہوئے: محمدعمرنوراِلہٰی (’ناٹک ساگر‘)، عبدالاحد آزاد (’زبان اور شاعری‘)، نندلال کول طالبؔ (تنقیدی مضامین)، محمودہاشمی، خلیفہ عبدالحکیم، جعفر علی خان اور ایم۔ڈی تاثیر۔
جمّوں وکشمیر میں اُردو زبان وادب کے فروغ میں سب سے زیادہ اور بھرپور کردار اَدا کرنے والے شاعر، ادیب، نقاد، صحافی ومؤرخ منشی محمد الدین فوقؔ نے سو (100)سے زائد کتب لکھیں۔ اُنھیں علامہ اقبال نے ’مجددِ کشامرہ‘ کا لقب دیا تھا۔ ایک محقق محمد کلیم اختر کے الفاظ میں ’’وہ کشمیر کے سب سے مستند مؤرخ اور واقعہ نگار تصور کیے جاتے ہیں ‘‘ جن کی عظیم خدمات ناقابل فراموش ہیں اور نسلِ نو اُن کی نگارشات کے بغیر اپنی تاریخ سے بمشکل آگاہ ہوتی۔ (’’کشمیر میں صحافت کا ارتقاء ‘‘ مضمون مشمولہ ’ادبی دنیا‘ ’’کشمیر نمبر‘‘ از محمد عبداللہ قریشی)
جموں وکشمیر کے ادبی مواد کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر افسانے کی طرف آنا پڑ رہا ہے، کیونکہ ناول کی نسبت افسانہ زیادہ لکھا گیا ہے۔ ماقبل لکھے گئے اسماء کے ساتھ تیرتھ کاشمیری، غلام احمد فدا، غلام حیدر چشتی، اختر محی الدین، پشکر ناتھ، عمر مجید، ڈی کے کنول، راجیش کور، موتی لال کپور، کلدیپ رعنا اور شبنم قیوم زیادہ نمایاں ہیں۔
رپوتاژ ’’کشمیر اداس ہے‘‘ کے مصنف اور پہلے پاکستان پھر برطانیہ میں شہرت پانے والے صحافی (برطانیہ کے ’بابائے اردوصحافت‘) ومترجم جناب محمود ہاشمی (1920ء تا 2014ء) کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ اُن کی ادبی زندگی کی ابتداء بطور افسانہ نگار، ’’اور شہنائیاں بجتی رہی‘‘ کے عنوان سے دِلّی سے شایع ہونے والے افسانے سے ہوئی تھی۔ انھوں نے معتبر ادبی جرائد بشمول ’ادبِ لطیف‘، پریت لڑی اور ’کتاب‘ میں اپنے کالج کے دور میں افسانے لکھے۔ اُن کی پیدائش بلوچستان میں ہوئی، لیکن آبائی تعلق میرپور، آزاد کشمیر سے تھا۔
معروف ادیب ڈاکٹر پریمی رومانی کی کتاب ’’اظہار‘‘ میں شامل ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں جو ڈاکٹر ریاض توحیدی کے توسط سے ہم تک پہنچا ہے:’’کشمیر ہمیشہ پشکر ناتھ کے افسانوں کا مرکز رہا ہے۔ اس کی یہ وجہ ہے کہ وہ یہاں کی فضاؤں میں پلے بڑھے اور جوان ہوئے۔ انہوں نے یہاں کی غربت اور افلاس کو دیکھا۔ وہ یہاں کے سیدھے سادھے عوام سے پیار کرتے تھے اور ان کی سختیوں اور پریشانیوں کا ازالہ کرنے کے لیے ہردم کوشاں رہتے تھے۔ اس لیے ابتداء سے ہی اُن کے افسانوں میں کسانوں‘ مزدوروں‘ کاریگروں اور نچلے طبقے کے لوگوں کے مسائل کی بھرپور جھلکیاں ملتی ہیں۔‘‘ (مضمون ’’پشکر ناتھ: کچھ مطبوعہ، کچھ غیرمطبوعہ تحریروں کے آئینے میں‘‘)۔
ڈاکٹر پریمی رومانی ایک اہم سہ ماہی ادبی جریدے ’’عالمی میراث‘‘ کے مدیر ہیں جو ’منٹو شناس برج میموریل لٹریری سوسائٹی‘ کا ترجمان ہے۔ ’عالمی میراث‘ کے ’یادِرفتگاں نمبر‘ (بابت ماہ جون تا ستمبر2021ء) میں ان اہم مشاہیر کے فن وشخصیت سے متعلق مضامین بہت وقیع ہیں: شمس الرحمٰن فاروقی، شمیم حنفی، حامدی کاشمیری، برج پریمی، مشرف عالم ذوقی، افتخار امام صدیقی، ترنم ریاض، شمشاد جلیل شادؔ، شوکت حیات، مرغوب بانھالی، اکبر جَے پوری، عرش صہبائی، سلطان اختر، جوگندر پال، گلشن کھنہ، مناظر عاشق ہرگانوی، انل ٹھکر، اور حنیف ترین۔
ڈاکٹر پریمی رومانی کے والد ڈاکٹر برج پریمی اردو اور کشمیری زبان کے معروف ادیب تھے۔ انھیں جوعلمی وادبی میراث ملی، اُسے دوسروں تک پہنچانے کے لیے ہمہ تن کوشاں ہیں۔ انھوں نے اپنے والد کے متعلق لکھا:
’’برج پریمی نہ صرف ایک منفرد انداز کے افسانہ نگار تھے بلکہ وہ ایک ’منٹو شناس‘ ہونے کے ساتھ ساتھ’ کشمیر شناس‘ بھی تھے۔ انہیں ادب کے ساتھ ساتھ کشمیر کی تاریخ پر بھی گہری نگاہ تھی۔ کشمیر کے بعض اہم گوشوں پران کی دو تصانیف ’جلوہ صد رنگ‘ اور ’کشمیر کے مضامین‘ شائع ہوچکی ہیں، جن میں کشمیر کے بعض اہم اور مستور پہلوؤں پر معنیٰ خیز بحث ملتی ہے۔‘‘
ادب کے علاوہ صحافت میں بھی وادی کشمیر کا حصہ اچھا خاصا رہا ہے، گو اَب وہاں بھی اردو صحافت کو بہ یک وقت کئی قسم کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔1867ء میںجمّوں سے شائع ہونے والے ہفتہ وار اخبار ’’بدیابلاس‘‘ نے وادی میں اردوصحافت کا سنگِ بنیاد رکھا۔ یہ اخبار آٹھ صفحات پر مشتمل سرکاری گزٹ تھا جو مہاراجہ رنبیر سنگھ کی خصوصی دل چسپی سے، بہ یک وقت اردو اور دیوناگری رسم الخط میں شائع ہوتا تھا۔
کشمیر سے تعلق رکھنے والے مشہور شاعر، نقاد، اِنشاء پرداز، اخبارنویس اور مؤرخ محمدالدین (عرف محمد دین) فوق ( 25فروری 1877ء – 14 ستمبر 1945ء) کو لاہور کی صحافت سے شہرت اور مقام ملا، جب انھوں نے مشہور اخبار ’پیسہ اخبار‘ سے لکھنے کا آغاز کیا۔ (شاعری میں وہ داغؔ اور اقبالؔ کے حلقۂ فیض میں شامل تھے)۔ وہ ماہنامہ کشمیری گزٹ اور ماہنامہ کشمیری مخزن سے بھی منسلک رہے ;فوق کو اَپنا ذاتی اخبار نکالنے کا بہت شوق تھا۔ انھیں ’کشمیر کا اوّلین نوجوان صحافی‘ قرار دیا گیا۔ انھوں نے 1901ء میں کشمیر کا پہلا مقامی اخبار ’پنجہ فولاد‘ جاری کیا جوبے باک صحافت کا نقیب تھا۔ فوق صاحب نے مہاراجہ کشمیر کے مطلق العنان اقتدار کے خلاف نعرہ حق بلند کیا اور کشمیر کے مسائل اور کشمیریوں کے حقوق کے لیے آواز اُٹھائی۔ یہ اخبار 1906ء میں بند ہونے سے پہلے صحافت کی دنیا میں اپنا مقام بناچکا تھا۔ اس کے بعد فوق نے ماہنامہ کشمیری میگزین جاری کیا جسے جموں، کشمیر، لدّاخ اور پونچھ میں یکساں مقبولیت حاصل ہوئی۔ 1913ء میں انھوں نے اس جریدے کو ’اخبارِ کشمیری‘ کا نام دیا۔ یہ جریدہ لاہور سے بھی جاری ہوا اور 1933ء تک نکلتا رہا۔ علامہ اقبال کے حلقہ بگوش ہونے کے ناتے، فوق نے 1914ء میں ایک اخبار ’طریقت‘ اور فروری 1919ء میں رسالہ ’نظام ‘ اور پھر ’رہنمائے کشمیر‘ جاری کیا۔ وہ ایک اور اخبار ’اخبارِکوہ نور‘ کے آخری مدیر بھی تھے۔ فوق نے مختلف موضوعات پر ایک سو بارہ (112)کتب تحریر کیں۔
1924ء تک جمّوں وکشمیر میں صحافت پر بہت پابندیاں عائد تھیں، پھر اِن میں بتدریج کمی آئی تو 24 جون 1924 ء کو لالہ ملک راج صراف نے جموں ہی سے ہفت روزہ ’’رنبیر‘‘ کا اجراء کیا۔ ’’اس دوران میں اگرچہ ایک درجن کے لگ بھگ ہفتہ روزہ اخبار، ماہنامے و سہ ماہی رسالے نکالے گئے لیکن ان کی حیثیت بھی سرکاری حکم ناموں، مذہبی رسالوں یا تعلیمی ماہناموں کے علاوہ کچھ نہ تھی‘‘۔ (’’اردو صحافت کے 200 سال: جموں و کشمیر میں اردو صحافت کے خدوخال‘‘ ازاظہر رفیقی، آنلائن اشاعت مارچ 2022ء)۔
پنڈت کشپ بندھو بلبل نے 1913ء میں ’’سناتن دھرم یودک سبھا‘‘ نامی تنظیم قائم کرکے کشمیر کا پہلا روزنامہ اخبار مارتنڈ جاری کیا، وہ ’’سماج سدھار‘‘ نامی اخبار کے بھی بانی تھے۔ وہ متعدد اخبارات کے بانی، مدیر یا آزاد حیثیت میں منسلک مندوب تھے، جن میں ’’کیسری‘‘ اور ’’دیش‘‘ جیسے معروف اخبار شامل تھے۔ پنڈت جی سیاست میں دخیل ہوئے، جیل کی سزا بھگتی اور بعد میں سرکاری منصب پر بھی فائز ہوئے۔
پنڈت پریم ناتھ بزاز نے 31 اکتوبر 1932 ء کو سرینگر سے ہفت روزہ ’’وتستا‘‘ جاری کیا۔ اس اخبار سے کشمیر میں باقاعدہ صحافت کا سلسلہ شروع ہوا۔ انھوں نے شیخ عبداللہ کے ساتھ مل کر ’ہمدرد‘ نکالا اور بعدازآں Voice of Kashmirجاری کیا۔ انھوں نے باقاعدہ صحافتی قارئین کی ’ذہن سازی‘ میں نمایاں کردار اَدا کیا۔ اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی پر یکساں عبور کے حامل پنڈت بزازؔ نے متعدد کتب تصنیف وتالیف کیں جن میں کشمیر کا گاندھی (شیخ عبداللہ کے سوانح حیات: مطبوعہ 1935ء )، شاعر انسانیت (عبدالاحد آزاد کی سوانح حیات)، گاندھی ازم، جناح ازم، اور سوشلزم اردو میں، جبکہ وتستا کی بٹیاں، اندرون کشمیر تحریک آزادی کی تواریخ، آزاد کشمیر، ہندوستانی تواریخ میں بھگوت گیتا کا حصّہ جیسی کتب انگریزی میں تحریر کیں۔ دیگر پنڈت صحافیوں میں پرتھوی ناتھ کول کا نام بھی شامل ہے جنھوں نے ’ادب لطیف‘ (مابعد نثری نظم کے نام سے موسوم) کے انداز میں فن پارے، مضامین اور انشائیے بھی لکھے۔
تقسیم ِہند سے قبل کے دور میں وادی کشمیر سے متعدد اخبارات جاری ہوئے جن میں ہمدرد، خدمت اور مارتنڈ نمایاں ہیں۔ اُس دور کے مشاہیرِصحافت میں پنڈت پریم ناتھ بزاز، مولانا محمد سعید مسعودی اور پنڈت کشپ بندھو شامل تھے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس طرح بعض ہندوؤں میں فارسی سے علمی وادبی شغف ہماری تاریخ کا اہم باب ہے، اسی طرح وادی جموں وکشمیر کی ہندو پنڈت برادری کی ادب وصحافت میں خدمات بھی مفصل ذکر کی مقتضی ہیں۔ اپنے وقت کے معروف ادیب، شاعر وصحافی سالک رام سالکؔ نے 1880ء میں پہلے مقامی اخبار کی اجراء کی کوشش کی جو ناکام رہی ، پھر وہ لاہور چلے گئے جہاں انھوں نے 1884ء میں اپنے بھائی پنڈت ہر گوپال کول خستہ ؔکے ہمراہ ہفت روزہ اخبار ’’خیرخواہ کشمیر‘‘ شائع کرنا شروع کیا۔ انھوں نے عیسائی مبلغین کی اس خطے میں اپنے مذہب کے پرچار اور مغربیت کے پھیلاؤ کے خلاف ’’مورتی منڈن‘‘،’’دھرم اُپدیش‘‘ اور شاستراَرتھ جیسی کتابیں تحریر کیں۔
سالکؔ کی دیگر کتب میں وادی کے حسنِ فطرت کی عکاسی کے لیے سادہ وآسان اسلوب میں لکھے گئے انشائیوں کا مجموعہ ’گنجینہ فطرت‘ اور ’مناظرِفطرت‘ مختلف ممالک کی سیاحت پر مبنی ’تحفہ سالک‘ اور ’’سوانح عمری مہاراجہ گلاب سنگھ‘‘ شامل ہیں۔ مؤخرالذکر کتاب 1910ء میں انگریزی میں منصہ شہود پرآئی اور پھر 1917ء میں موصوف اس کی افادیت کے پیش نظر اسے اردو میں منتقل کرکے شائع کیا۔
ابھی تک خاکسار نے آزاد جموں وکشمیر کا ذکر بوجوہ نہیں کیا جو اگلی قسط میں آئے گا۔
ریاست جموں وکشمیر (مقبوضہ) کے جدید دورِصحافت میں روزنامہ ’’آفتاب‘‘ اور ’سرینگر ٹائمز‘‘ کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ انھوں نے ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرکے صحافتی سفر جاری رکھا اور عوامی مقبولیت بھی حاصل کی۔ جون 1957 میں ہفت روزہ ’’آفتاب‘‘ کا پہلا شمارہ، سرینگر سے منصہ شہود پر آیا۔ اوّلین شمارے ہی کی ایسی آؤ بھگت ہوئی کہ بخشی غلام محمد نے مدیر ثناء اللہ بٹ سے ملاقات میں کہا کہ ’’تقسیم ہند کے بعد مجھے پہلی بار ایک حقیقی اردو اخبار دیکھنے کا موقع ملا ہے‘‘۔ 16 جون 1969 کو سرینگر ہی سے دوسرے بڑے اخبار، سرینگر ٹائمز‘‘ نے اپنی اشاعت شروع کی اور جلد اپنے مخصوص انداز سے اپنا مقام بنالیا۔ جدید صحافت کے تمام چیلنجز سے نبردآزما ہوتے ہوئے کشمیر میں اردوصحافت کا سفر ابھی جاری ہے۔ (جاری)