زباں فہمی نمبر248کشمیر اور اُردو (حصہ چہارُم)

زباں فہمی نمبر248کشمیر اور اُردو (حصہ چہارُم)


پچھلی قسط میں ذکر ہوا تھا پنڈِت چندربھان برہمنؔ لاہوری کی اردو غزل گوئی میں اوّلیت کا، لگے ہاتھوں ایک اور انکشاف بھی آپ کی نذر کردوں۔ ولیؔ گجراتی دکنی کی وفات 1138)ھ( کے فوری بعد 1139ھ مطابق 1776ء میں غلام محی الدین کشمیری نے ’’مثنوی گلزارِ فقر‘‘ لکھی جسے ناقدین نے سندِاعتبار بخشی (موصوف کے دیوان کا ذکر حافظ محمود شیرانی کی ’پنجاب میں اردو‘ میں بھی موجود ہے) اور حیرت کا مقام یہ ہے کہ شاعر موصوف اُس دور کے کسی بھی بڑے مرکزِاُردو سے متعلق تھے نہ وہاں جاتے آتے تھے، پھر بھی اُن کے کلام میں عصری اسلوب کا رنگ کم وبیش ویسا ہی ہے۔

اس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ اُردو زبان کے ہر دورتشکیل و تعمیر میں پورے خطّے کے عوام وخواص میں باہم ایسا ربط تھا کہ کسی کی زبان یا بولی یکسر اَلگ محسوس نہ ہوتی تھی۔ یہاں ایک بظاہر غیرمتعلق حوالہ سندھ کے قدیم اردو شعراء کا بھی یاد آتا ہے جن کی اردو غزل میں سندھی کے قدیم الفاظ کی آمیزش تو شاذ ہی ملتی ہے، البتہ اردو کی قدیم بولی (اور جدید دور میں بعض حضرات کے خیال میں جُدا گانہ زبان) دکنی ۔یا۔دکھنی کے ایسے الفاظ نظر آتے ہیں جو گوجری، پنجابی، سرائیکی اور ہندکو میں بھی کسی نہ کسی شکل میں آج تک شامل ہیں۔ اس اہم نکتے کی طرف ہمارے ماہرین کی نظر بہت کم جاتی ہے۔ یہ میرے اس مؤقف کی دلیل ہے کہ اردو بہ یک وقت پورے خطّہ ہند میں مختلف مقامی زبانوں اور علاقائی بولیوں کے اشتراک سے اپنی تشکیل کا سفر بخوبی ادا کررہی تھی۔

جمّوں وکشمیر میں غلامی اور آزادی کے موضوع پر بہت کچھ نظم ونثر میں لکھا جاچکا ہے۔ مدت پہلے ایک کشمیری شاعر غلام محمد میر طاؤسؔ نے اس خطے پر مسلط اقتدار کے خلاف مزاحمت کا اشارہ دیتے ہوئے کہا تھا:

گھات میں صیاد، پہلو میں ہے کھٹکا تیِر کا

ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا

اسی طرح طالبؔ انصاری کا شعر ہے :

کہو شبیر سے میدان میں پھر للکارتا نکلے

یزید عصر ہے تیار، خنجر آزمانے کو

کشمیری نژاد علامہ اقبال کو فروری 1896میں جب لاہور میں رہائش پذیر کشمیریوں نے ’’انجمن کشمیری مسلمانان‘‘ کی تأسیس کے وقت سیکرٹری بنایا تھا۔ علامہ کی اپنے آبائی وطن سے دلی محبت کا جابجا اظہار کسی سے ڈھکا چھُپا نہیں۔ انھوں نے اسی انجمن کے ایک اجلاس میں کہا تھا:’’مل کے دنیا میں رہو، مثل حروف کشمیر‘‘۔ علامہ انجمن کشمیری مسلمانان کے پلیٹ فارم سے کشمیریوں کے مسائل کی طرف، اہل نظر کی توجہ مبذول کراتے رہے۔ اقبال نے ملازادہ ضیغم لولابی کا فرضی کردار تراشا اور اس کے توسط سے تلخ نوائی کی: ’’تمام عارف و عامی خودی سے بیگانہ‘‘۔ اسی نظم میں اقبال نے یہ بھی کہا تھا:

ملا کی نظر نور فراست سے ہے خالی

بے سوز ہے میخانہ صوفی کی مئے ناب

اے وادی لولاب

بقول غلام نبی خیال، ممتاز حسن نے کہیں لکھا ہے کہ اقبال نے ایک نجی محفل میں خود بتایا تھا کہ انہوں نے 1921میں سری نگر کے نشاط باغ میں بیٹھ کر یہ کلام لکھا تھا:

کشیری کہ بابندگی خو گرفتہ

بتے می تراشد زسنگ مزارے

ضمیرش تہی از خیال بلندے

خودی ناشنا سے ز خود شرمسارے

قدیم کشمیری شعراء کے یہاں اردو زبان کی ارتقائی منازل واضح طور پر نظرآتی ہیں، مثلاًپنڈت پرمانند کا کلام صوفی رنگ لیے ہوئے ہے اور اس میں ’بھاکا‘ یعنی ہندوستانی اور پنجابی کی آمیزش ہے۔ بعض دیگر شعراء بشمول شمبر ناتھ کول عنادلؔ، پنڈت نرنجن ناتھ رینہؔ، اور پنڈت لچھمن نارائن بھانؔ کے اردو کلام میں بھی ’ایشور بھگتی‘ کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔

ہم جدید دور کی بات کریں تو معروف کشمیری اردو شعراء کی فہرست میں فرید پربتی، رفیق راز، رخسانہ جبین، شفق سوپور، عادل اشرف، مشتاق مہدی، نذیر آزاد، اشرف بابا، گلزار جعفر، عاصم اسدی، ریاض ربانی کشمیری، نسرین نقّاش، حاشراَفنان اور شفیع شاداب سمیت متعدد اَسماء شامل ہیں۔ کشمیری اردو ادباء میں ہمیں ڈاکٹر شکیل شفائی، پریم ناتھ پردیسی، واجدہ تبسم، غلام نبی شاہد، نیلوفر ناز نحوی، نور شاہ، راجہ یوسف، طارق شبنم، ڈاکٹرریاض توحیدی، نگہت نظر، شوکت وصال جیسے بہت سے نام نمایاں نظرآتے ہیں جبکہ کشمیر کے اُردو صحافیوں میں، خواجہ ثناء اللہ آفتاب (روزنامہ آفتاب)، صوفی غلام محمد (روزنامہ سرینگر ٹائمز)، ناظم نذیر (روزنامہ تعمیل ارشاد)، جاوید آذر (روزنامہ کشمیر عظمیٰ)، وجیہ اندرابی، حسن صاہو (اخبار جبروت) اور شاہ وسیم یوسف (کشمیر ریز:KASHMIR RAYS) سمیت بہت سے نام شامل ہیں۔ تنگی وقت وقرطاس مانع نہ ہوتو کشمیر میں اردوشاعری کے باب پر تفصیلی گفتگو کی جاسکتی ہے، بہرحال یہ غنیمت ہے کہ چند نام بہت نمایاں ہیں اور چراغ سے چراغ جل رہے ہیں۔ حاشر اَفنان میری واٹس ایپ بزم زباں فہمی کے رُکن ہیں اور اُن کے شاعری میں استاد حافظ عبدالرحمن واصفؔ کا تعلق کہوٹہ سے ہے۔ وہ بھی اس بزم میں شامل ہیں۔

کشمیر میں اُردو کے فروغ میں خواص کا نمایاں حصہ بھی ایک اہم موضوع ہے جس کی بابت بارہا بات کی گئی۔ ادبی تنظیموں کی تاسیس میں بھی ڈوگرہ راجہ اور اُن کے مصاحبین پیش پیش رہے۔ شاعری کے علاوہ نثر میں اس علاقے کی کارکردگی اچھی رہی۔ مہاراجہ رَنبیر سنگھ (اگست1830ء تا12  ستمبر 1885ء) نے جنگ آزادی ہند 1857-ء میں انگریز کی بھرپور مدد کرکے خوب انعام واکرام حاصل کیا، مگر اُس کی وجہ شہرت پنڈِتوں اور مولویوں کو دربار میں جمع کرکے ہزاروں کتب تصنیف وتالیف وترجمہ کرانا تھی۔

اُس نے مذہبی ودینی کتب کے علاوہ طب سے متعلق اہم کتب کا اردو، ہندی اور ڈوگری میں ترجمہ کروایا تھا۔ وہ خود سنسکِرِت اور فارسی کی متعدد کتب کا مصنف ومترجم تھا۔ اُس نے 20 فروری 1856ء تا دم مرگ حکومت کی۔ اسی راجہ نے اپنے ایک مصاحب مہتہ شیر سنگھ کو ،1847ء میں وسطِ ایشیا کے ممالک سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے سمرقند وبخارا بھیجا تو اُس نے کابل، بلخ، سمرقند وبخارا کی سیاحت کے بعد، واپس آکر ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل رُوداد (Report) بزبان اردو، راجہ کی خدمت میں پیش کی جسے ’’سفرنامہ بُخارا‘‘ کا عنوان اور ریاست جمّوں وکشمیر میں اوّلین اردو نثری کتاب کا درجہ دیا گیا۔ اس کتاب میں ہر علاقے کی موجودہ وسابقہ حکومت کا احوال، فرماں روا کے متعلق معلومات اور دیگر ضروری معاملات کا بیان درج ہے۔

کشمیر میں اردو نثر کے ابتدائی دور میں سرکاری دستاویزات کے علاوہ فنون لطیفہ، تاریخ، سوانح نگاری، ریاست کے جغرافی (نہ کہ جغرافیائی) حالات کے موضوع پر لکھی گئی طبع زاد کتب اور فارسی و سنسکرت سے مترجمہ کتابیں شامل تھیں۔ ان کتب میں ’گلاب نامہ‘، تاریخ ِکشمیر، ہدایٰ التحقیق، تحقیق نارسخ از دیوان کِرپا رام، گلزارِ فوائد، گلدستہ کشمیر، گوپال نامہ، چہار گلزار، شگفتہ بہار اور سوانح عمری خستہؔ از پنڈت ہرگوپال خستہؔ، گنجینہ فطرت اور داستانِ جگت رُوپ از پنڈت سالک رام سالک اور میزان ِتحقیق از حسن بن علی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ایک مدت کے بعد جب اردو کا چلن عام ہوگیا تو کشمیر میں موضوعات کا دائرہ بھی وسیع ہوا اور مقامی ادیب افسانہ، ناول، انشائیہ، ڈراما، تنقید وتحقیق اور ادبِ لطیف (غالباً نثری نظم) پر کھُل کر اظہارِخیال کرنے لگے۔ ہم خطہ کشمیر میں اردو افسانے کی بات کریں تو گویا ’’کشمیر کا ہر باشندہ بذات خود ایک افسانہ ہے جس کی طرف آج تک کسی نے توجہ نہ دی۔ یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ غلامی ہے، افلاس ہے، شخصی راج ہے‘‘ (بقول پریم ناتھ پردیسی)۔

ڈاکٹرحامدی کاشمیری نے بھی کھُل کر کہا کہ ’’ریاست کے باشندے صدیوں کی محکومی، افلاس اور پس ماندگی سے تنگ آکر آزادی، فارغ البالی اور ترقی کے خواب دیکھنے اور اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے مطلق العنانیت سے ٹکرانے لگے تھے۔ 1931میں سنٹرل جیل کے آہنی دروازوں کے باہر لوگوں کا ایک مشتعل ہجوم حکام کی بالادستی اور تشدد کے خلاف غم و غصہ اور نفرت کے کھلم کھلا اظہار پر اتر آیا اور کتنے ہی مجاہدین کے بدن فوجیوں کی گولیوں سے چھلنی ہوگئے اور شہدا کا لہو سرزمین کشمیر کو سیراب کر گیا۔‘‘

بطور باقاعدہ اردو افسانہ نگار کشمیر میں چراغ حسن حسرتؔ کی اوّلیت مسلّم ہے، مگر ایک محقق ڈاکٹر برج پریمی کے خیال میں، حسرتؔ سے بھی پہلے محمد دین فوقؔ نے اس جہت میں کچھ پیش رفت کی تھی جو گویا افسانے کی ابتدائی شکل تھی۔ ڈاکٹر پریمی نے کہا کہ ’’فوق نے روش زمانہ کے مطابق کئی تاریخی اور نیم تاریخی سے (احوال) قلمبند کیے ہیں جنہیں ہم کشمیر میں اردو افسانہ کے اولین نقوش کہہ سکتے ہیں‘‘۔

وادی کشمیرمیں اردو افسانے کی پہلی کتاب ’کیلے کا چھِلکا‘ 1927ء میں منصہ شہود پر آئی جس کے مصنف چراغ حسن حسرت ؔ کے نام سے ایک دنیا بخوبی واقف ہے۔ ان کے بعد پریم ناتھ سادھو عُرف پردیسی کا مجموعہ ’شام وسحر‘ بہت مقبول ہوا۔ پریم ناتھ پردیسی کے بارے میں ڈاکٹرحامدی کاشمیری کی کتاب ’ریاست جموں و کشمیر میں اردو ادب‘ میں ایک پورا باب شامل ہے ;انھوں نے لکھا کہ ’’پردیسی 1955میں مرنے تک اردو زبان و ادب سے وابستہ رہے افسانوں کے تین مجموعے دیے؛’شام و سحر‘،’دنیا ہماری‘ اور ’بہتے چراغ‘۔ انھوں نے سیاسی اتھل پتھل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور آزادی کے جذبوں کو اپنے دل پر محسوس کیا تھا‘‘۔

 پریم ناتھ پردیسی کے متعلق ڈاکٹر برج پریمی نے یہ لکھا کہ ’’پردیسی نے کشمیر کو اپنے افسانوں میں پہلی بار پیش کیا اور ہزاروں لاکھوں کشمیریوں کو زبان بخشی‘‘۔

جمّوں وکشمیر کے دیگر ممتاز افسانہ نگاروں میں پریم ناتھ دردؔ، رامانند ساگر، قدرت اللہ شہابؔ، کشمیری لال ساگر، کوثر سیمابی، کیف ؔ اسرائیلی اور محمود ہاشمی شامل ہیں۔ قدرت اللہ شہابؔ ہماری ادبیات اور افسرِشاہی کا ایک بڑا نام ہے جن کے بعض مقلدین نے محض اُن کی نقل کرکے شہرت پائی۔

انیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں پریم ناتھ دردؔ نے ظہور کیا۔ ہرچند کہ درد نے اپنی زندگی کا زیادہ عرصہ کشمیر سے باہر گزرا لیکن کشمیر کے دیگر افسانہ نگاروں کی طرح وہ بھی کشمیر کو نہیں بھولے اور مسلسل اپنے افسانوں میں کشمیر اور کشمیریوں کے متعلق اظہارِخیال کرتے رہے۔ پریم ناتھ درد ؔکے افسانے ’’کاغذکا واسدیو‘‘ اور ’’نیلی آنکھیں ‘‘ بہت مشہور ہوئے۔

پردیسیؔ اور دردؔ کے معاصر افسانہ نگاروں میں تیرتھ کاشمیری، کوثر سیمابی، محمود ہاشمی، محبوبہ حیدر یاسمین، غلام احمد فدا اور غلام حیدر چشتی کے اسماء نمایاں ہیں جنھوں نے اردو افسانے کے فروغ میں اہم کردار اَدا کیا۔

ریاست جمّوں وکشمیر کے افسانہ نگاروں میں دیپک بُدکی بہت سوں سے زیادہ نمایاں ہیں جن کے متعلق پاکستانی قارئین کو خاکسار کے انگریزی اور اُردو مضامین سے آگہی ملی;انگریزی برائے لائیور وسٹرم ڈاٹ کام [www.liverostrum.com] بحیثیت مُدیرِاعلیٰ لائیو روسٹرم نیوز ایجنسی اور اُردو برائے روزنامہ ایکسپریس۔ وہ میری فیس بُک ، واٹس ایپ اور ٹوئیٹر (X) پر فہرست دوستاں میں شامل ہیں۔ اُن کے ادبی کارناموں کی فہرست اچھی خاصی طویل ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنی مادری زبان کشمیری میں کوئی ادبی کام نہیں کیا۔ دیپک بُدکی کے ایک افسانے ’’ایک انقلابی کی سرگزشت ‘‘ سے ایک مختصر اقتباس بلا تبصرہ پیش کرتا ہوں:

’’ایک روز ایک قریبی دوست سومناتھ بسواس نے مجھ سے کہا، ’شاعر بابو! تم کیا سمجھتے ہو کہ اپنے نام کے ساتھ بھارتی جوڑنے سے تم بھارت واسی ہوگئے؟ تم نے بہت بڑی غلطی کرلی۔ تقسیم کے وقت پاکستان چلے گئے ہوتے ;اِس وقت نہ جانے کس بڑے عہدے پر فائز ہوتے۔ یہ لوگ تو تمھیں شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ آتنک وادی سمجھ بیٹھے ہیں۔ وحید بھارتی جی! یہ دھرتی اب تم لوگوں کو قبول نہیں کرتی۔ کمیونسٹ ہو تو کیا ہوا، ہو تو مسلمان ہی‘‘۔ (مشمولہ مجموعہ ’’اب مَیں وہاں نہیں رہتا‘‘)

دیپک کی سب سے نمایاں کتاب ’’اردو کے غیرمسلم افسانہ نگار ‘‘ ہے۔ اس تحقیقی کتاب میں 158غیرمسلم افسانہ نگاروں کا تعارف بڑی محنت سے جمع کیا گیا ہے اور کئی نام ایسے ہیں جن کی وجہ شہرت افسانہ نہیں!  اس فہرست کے کچھ نام پیش خدمت ہیں:

پریم چند، برج موہن دتاتریہ کیفیؔ (شاعر)، جگت موہن لال رَواں ؔ(شاعر)، کنہیّا لال کپور، اوپندرناتھ اَشکؔ، کرشن چندر، راجندرسنگھ بیدی، ہمّت رائے شرما (شاعر: اردو ماہیانگاری کے بانی)، بلونت سنگھ، بھگوان داس اعجازؔ (شاعر: دوہا میں اختصاص ;خاکسار کے جریدے ہائیکو اِنٹرنیشنل کے لیے خاص طور ہائیکو نگاری)، سریندرپرکاش، ڈاکٹر کیول دھیر، آنند لہر، بلراج بخشی، اِندرا شبنم اِندو (شاعرہ، میری فیس بک دوست)اور بہت سے دیگر محققین کہتے ہیں کہ ریاست جموں وکشمیر میں اردو ناول کی روایت کمزور ہے۔1947ء کے خونیں فسادات کے تناظر میں رامانند ساگر کا لکھا ہوا ناول ’’اور اِنسان مرگیا‘‘ مشہور ہے۔ 356 صفحات پر مشتمل یہ ناول اگست 1948ء میں نَوہند پبلشرز، بمبئی نے شایع کیا۔ ناول ’’اور انسان مرگیا‘‘ کا انتساب معروف اردو ادیب سہیلؔ عظیم آبادی کے نام یوں کیا گیا:

سہیلؔ عظیم آبادی کے نام

بِہار کے ہندوؤں نے جس کا سب کچھ لُوٹ لیا

لیکن جس کی انسانیت کو کوئی نہ لُوٹ سکا

اردو سے محبت کرنے والے ادیب رامانند ساگر کے کوائف ’آزاد دائرۃ المعارف‘ عرف وِکی پیڈیا اور ریختہ ڈاٹ آرگ پر کچھ اس طرح دستیاب ہیں:’’رامانند ساگر بالی ووڈ کے معروف فلمساز، ہدایت کار اور کہانی نویس تھے۔ رامانند ساگر کی شہرت ایک ادیب سے زیادہ فلم ساز کی ہے۔ انھوں نے کئی بہترین فلمیں بنائیں۔ انہیں بھارتی ٹی وی کی مشہور اساطیری سیریل ’رامائن‘ کی تخلیق پر بہت شہرت حاصل ہوئی تھی۔ بھارتی فلم انڈسٹری کے معروف فلمساز، ہدایت کار اور کہانی نویس۔ رامانند ساگر نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور فلم ٹیکنیشن کیا تھا اور ممبئی کی فلم نگری میں ترقی کرتے کرتے وہ ایک کہنہ مشق فلمساز بن گئے تھے۔ رامانند نے پچیس سے زیادہ فلمیں اور ایک درجن سے زیادہ ٹی وی ڈرامے بنائے۔ ان کی چند یادگار فلموں میں انسانیت، کوہ نور، پیغام، گھونگھٹ، زندگی، آنکھیں، للکار، آرزو، گیت اور بغاوت کے نام آتے ہیں۔ انہوں نے ساگر جی کے ساتھ فلم ’سلمٰی‘ میں کام کیا۔

جس میں ہیروئین پاکستانی اداکارہ سلمیٰ آغا اور ہیرو راج ببر تھے۔ اس فلم کے نغمے حسن کمال نے لکھے تھے۔ انھیں اردو زبان سے بہت لگاؤ تھا، نیز تقسیمِ ہند کے واقعات کے وہ چشم دید شاہد تھے۔ سو اس موضوع پر ان کا یہ ناول 1948 میں شائع ہوا، جس کا دیباچہ خواجہ احمد عباس نے لکھا۔ یہ کتاب چار حصوں کے سترہ ابواب میں منقسم ہے۔ یہ ناول مشرقی اور مغربی پنجاب، لاہور اور امرتسر کے فرقہ وارانہ فسادات کے حوالے سے اس دور کے سماج کی تصویرکشی پیش کرتا ہے جس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ تہذیب و تمدن، محبت و اخوت اور انسانیت کی بنیاد پر بنے ہوئے سارے رشتے انسانی درندگی کی نذر ہوگئے۔ ’اور انسان مر گیا‘ 1947 کے واقعات پر رامانند ساگر کا تحریر کردہ بہترین ناول ہے‘‘۔

اردو کے ساتھ ساتھ فارسی پر عبور کے حامل اور طلائی تمغے جیتنے والے راما نند ساگر کی دیگر اُردو کتب میں ’’جوار بھاٹا‘‘ (افسانے)، ’’آئینے (افسانے)، میرا ہمدم میرا دوست (طویل افسانے) اور ہندی کتب میں اسی ناول کا ہندی رُوپ اور طویل افسانوں کا مجموعہ ’’رادھا‘‘ شامل ہیں۔ اُن کے متعلق مزید معلوم ہوا کہ اُنھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور صحافی، لاہور کے مشہور اَخبار مِلاپ سے کیا اور پھر ایک وقت آیا کہ اُس کے مُدیر بھی بن گئے۔1941ء میں انھیں تپ دق کے موذی مرض میں مبتلا ہونے کے سبب، کشمیر کے ایک اسپتال میں داخل کیا گیا اور وہ معالجین کی رائے کے برعکس صحت یاب ہوگئے۔ (جاری)۔





Source link