پنجاب اور سندھ کے سرحدی علاقے جسے کچے کا نام دیا جاتا ہے، طویل عرصے سے ڈاکوؤں کی محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔ دریائے سندھ کے آر پار کا یہ علاقہ خاصا وسیع ہے، ان علاقوں میں کئی دیہات آباد ہیں۔ گھنے جنگلات اور گھاٹیوں کی وجہ سے یہ علاقے مفروروں، ڈاکوؤں اور دہشت گردوں کے لیے جنت سے کم نہیں ہے۔
گزشتہ روز پنجاب پولیس کے 12 اہلکاروں کی شہادت ان ڈاکوؤں کی سفاکی، ان کی بے خوفی اور اثر ورسوخ کا کھلا ثبوت ہے۔ قیام پاکستان کے بعد شاید ہی کوئی ایسا واقعہ ہوا ہو، جس میں پنجاب پولیس کے اہلکاروں کی اتنی بڑی تعداد شہید ہوئی ہو۔ ماضی میں اس علاقے کو پرامن بنانے کے لیے کئی بار آپریشنز کیے گئے ہیں۔
میڈیا میں یہی تاثر دیا گیا کہ جیسے ڈاکوؤں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے لیکن پھر کچھ عرصے کے بعد پہلے سے بھی زیادہ دردناک اور بھیانک سانحہ رونما ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ کچے کے ڈاکو گینگز پوری طرح فعال ہیں اور انھیں کسی قسم کا کوئی نقصان بھی نہیں پہنچا ہے۔ اب شاید صورت حال پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ چکی ہے۔
جمعہ کی رات کو پنجاب پولیس نے کچے میں جوابی کارروائی کی ہے۔ اس حوالے سے جو خبر اخبارات میں شایع ہوئی ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ پولیس اہلکاروں پر حملے کا مرکزی کردار بشیر شر اپنے انجام کو پہنچ گیا جب کہ اس کے 5 ساتھی شدید زخمی ہوئے، پولیس نے چار لاپتہ اہلکار بھی ریسکیو کر لیے ہیں۔ ادھر پولیس اہلکاروں کی شہادت کے سانحے کے بعد کئی پولیس افسران کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔
آئی جی پنجاب کی طرف سے تقرر و تبادلے کے نوٹیفکیشن کے مطابق رحیم یار خان کے ڈی پی او، ایس پی اور ڈی ایس پی سی آئی اے کو او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔ آئی جی پنجاب نے کہاکہ پنجاب پولیس نے کچہ ایریا اور سرحدی چوکیوں پر دہشت گردوں، ڈاکوؤں اور شرپسند عناصر کے حملوں کے چیلنجز کا سامنا کیا ہے، انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ کچہ کے ڈاکوؤں کے خلاف پولیس آپریشن بھرپور طاقت سے جاری رہے گا، پولیس جوانوں کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے، پنجاب پولیس ڈاکوؤں کے خاتمے تک کارروائیاں جاری رکھے گی۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی ہدایت پر کچے کے خطرناک ترین ڈاکوؤں یعنی ہائی ویلیو ٹارگٹس کے سر کی قیمت 1 کروڑ روپے مقرر کر دی گئی ہے، خطرناک ڈاکوں کے سر کی قیمت 50 لاکھ جب کہ تیسری کیٹگری کے ڈاکوؤں کے سر کی قیمت 25 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔
یہ سارے اقدامات اپنی جگہ رہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پولیس افسروں کو او ایس ڈی بنانے اور نئے افسروں کو چارج دینے سے یہ معاملہ حل ہو سکتا ہے؟ رحیم یار خان میں کچے کے علاقے میں جو واقعہ ہوا ہے، اس پر غور کیا جائے تو حالات کی سنگینی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پنجاب پولیس نے کچے میں ڈاکوؤں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے ماچھکہ میں کیمپ قائم کیا ہوا تھا۔
ڈاکوؤں نے پولیس موبائلز پر راکٹ لانچروں سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں 12 پولیس اہلکار شہید ہوئے جب کہ 5 زخمی اہلکار اسپتال میں زیرعلاج ہیں جب کہ چار لاپتہ پولیس اہلکاروں کو بازیاب کرانے کی خبر شایع ہوئی ہے۔ اس ساری واردات کا اہم پہلو یہ ہے کہ ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ موجود ہے، یہاں تک کہ راکٹ لانچرز جیسے خطرناک ہتھیار بھی ان کے پاس ہیں۔ ان راکٹ لانچروں کو کندھے پر رکھ کر ہدف پر فائر کیا جاتا ہے۔
افغانستان میں پہلے سوویت یونین کی فوج کو نشانہ بنانے کے لیے افغان مجاہدین گروپوں کو اس قسم کے ہتھیار امریکا نے فراہم کیے تھے۔ بعدازاں حامد کرزئی اور اشرف غنی حکومت کے دور میں افغان نیشنل آرمی کو بھی امریکا نے ایسے ہتھیار فراہم کیے تھے۔ افغان طالبان کے پاس بھی ایسے راکٹ لانچر، جدید مشین گنز اور جاسوسی کے آلات موجود ہیں۔ ان میں سے ہتھیاروں کی بڑی کھیپ وہ ہے جو افغان نیشنل آرمی کے کنٹرول میں تھی۔
طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو افغان نیشنل آرمی کمانڈ کی کمزوری اور بزدلی کے باعث مفلوج ہو گئی۔ یوں طالبان نے بغیر جنگ کیے کابل اور پورے افغانستان پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ سارا اسلحہ طالبان کے پاس چلا گیا۔ اس کے علاوہ نیٹو آرمی کے پاس جو لائٹ ویپنز تھے، وہ انھیں وہیں چھوڑ گئے۔ یوں طالبان ہی نہیں بلکہ افغانستان میں سرگرم دیگر مسلح دہشت گرد گروہوں کے پاس بھی جدید اسلحہ موجود ہے۔ اس تمہید کا مقصد اس پہلو کو نمایاں کرنا ہے کہ کچے کے ڈاکوؤں کا مسئلہ محض روایتی ڈاکوؤں کے گروہ نہیں ہیں بلکہ یہ آرگنائزڈ کریمنلز اور ٹیررسٹ گینگز کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
ان گینگز کے پاس جدید ترین اسلحہ ہے، ان گینگز کے ارکان جدید اسلحہ چلانے کی مہارت رکھتے ہیں، اس کا واضح مطلب ہے کہ ان کے تربیتی کیمپ بھی موجود ہیں جہاں وہ نئی فورس بھی تیار کرتے ہیں۔ ان گروہوں کے پاس دولت کی بھی فراوانی نظر آتی ہے۔ ان کی فنانشل لائف لائن کا انحصار اغوا برائے تاوان کے ذریعے اکٹھے ہونے والی رقومات بھی ہیں اور بھتہ وصولی سے بھی انھیں خاصے پیسے ملتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان گینگز کی سالانہ آمدنی ایک ارب روپے سے بھی زیادہ ہے۔ اس رقم سے وہ جدید اسلحہ خریدتے ہیں، اس سوال یہ ہے کہ یہ سارا کاروبار کس طرح چل رہا ہے؟ کیا صرف پنجاب پولیس اس ناسور کا خاتمہ کر سکے گی؟ سندھ حکومت اپنے کچے کے علاقوں میں کتنی کارروائی کرتی ہے، اور وہ کس قدر کامیاب ہے، اس کا پتہ ڈاکوؤں کی وارداتوں سے بخوبی ہو جاتا ہے۔
پاکستان کے اسٹیک ہولڈرز اور پالیسی سازوں نے دہشت گرد گروہوں کو بھی سنجیدہ نہیں لیا اور کریمنل مافیاز کی مختلف شکلوں پر بھی آنکھ بند کیے رکھی۔ ریاست اور حکومت انتہاپسند گروہوں اور تنظیموںکے خلاف سخت پالیسی اختیار کرنے کے معاملے میں ہچکچاہٹ، کنفیوژن اور دوعملی کا شکار رہی ہے اور یہ رویہ اب تک جاری ہے۔ اب صورت حال زیادہ سنگین، پیچیدہ اور خطرناک ہو چکی ہے۔ پاکستان کے شمال مغرب میں انتہاپسند نظریات کا غلبہ ہے۔
دہشت گرد گروہ، مسلح قوم پرست تحریکیں اور کریمنل مافیاز کے درمیان مالیتی مفادات کا ایک رشتہ استوار ہو چکا ہے۔ یہ گروہ ایک دوسرے کے لیے فنانشل سہولت کاری کر رہے ہیں۔ اب ان گروہوں پر ارکان جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا ٹولز اور تھریڈز استعمال کرنے کے قابل ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی شمال مغربی سرحد کے پار انھیں ریاستی تحفظ حاصل ہو چکا ہے۔ پاکستان کے خیبرپختونخوا، بلوچستان سے لے کر دریائے سندھ کے دونوں کناروں تک ایک چین بن چکی ہے۔ پاکستان کے سسٹم میں بھی نقب لگ چکی ہے۔ سیاست میں بھی کرائمز اور دہشت گردی آپس میں گڈمڈ ہوئی ہیں۔ اس وجہ سے انتہاپسند نظریات کو کنٹرول کرنا حکومت کے لیے بھی مشکل بن چکا ہے۔ آئین اور قوانین میں ایسی تبدیلیاں کرائی جا چکی ہیں جن کی وجہ سے انتہاپسندی کا خاتمہ کرنا کسی بھی حکومت کے بس سے باہر نظر آ رہا ہے۔
پاکستان کے عوام کے مفادات اور ملک کی بقاء اور سلامتی کے لیے پاکستان کے ان اسٹیک ہولڈرز کو جو ملک کو اقوام عالم کے ساتھ چلانا چاہتے ہیں، انھیں گومگو اور چونکہ چنانچہ کی ڈھیلی اور کمزور پالیسی کو ترک کرنا ہو گا۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آج کی دنیا میں انتہاپسندی اور تنگ نظری کی بنیاد پر کوئی ملک سائنس وٹیکنالوجی میں ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی معاشی طاقت بن سکتا ہے۔ مسلم دنیا کا المیہ یہی ہے کہ وہ کسی اور سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے ہی برسرپیکار ہے۔ افغانستان، یمن، عراق، شام، صومالیہ، سوڈان، مالی، چاڈ اور موریطانیہ اس کی مثالیں ہیں۔ ایران اور پاکستان بھی خطرات میں گھرے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں بنگلہ دیش بھی اندرونی خلفشار اور انتشار کا شکار ہو کر معاشی پسماندگی کی طرف جا رہا ہے۔
پاکستان کے پاس اس کی سب سے بڑی قوت آرمی ہے۔ پاکستان کے پاس پارلیمانی ادارے بھی موجود ہیں۔ جمہوری اقدار بھی پوری طرح فعال ہیں۔ پاکستان کے پاس سائنس دانوں اور اہل علم کی ایک بڑی فورس بھی موجود ہے۔ پورا ریاستی نظام ابھی تک فعال ہے۔ انتہاپسندوں، دہشت گردوں اور وائٹ کالرز کریمنلز مافیا پاکستان کے نظام اور اداروں کو مفلوج کرنا چاہتا ہے۔ کچے کے ڈاکو انھی کے آف شاٹس ہیں۔ اس ناسور کو ختم کرنے کے لیے وفاقی حکومت اور پارلیمانی سیاسی قیادت کو جرأت مندی اور اعلیٰ پائے کے تدبر کا مظاہرہ کر کے پنجاب اور سندھ کے درمیان سارے کچے کے علاقے کو ڈاکوؤں، جرائم پیشہ گروہوں اور ان کے پشت پناہوں کے خلاف حکمت عملی تشکیل دینی ہو گی۔ اس سلسلے میں علاقائی وڈیروں، گدی نشینوں اور دیگر بااثر لوگوں کے ساتھ بھی کسی قسم کی رعایت نہ برتی جائے۔ ایسا کر کے ہی پاکستان میں دہشت گردوں کا راج اور ڈاکو راج کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔