سلطان زید بن النہیان یو اے ای کے حکمران تھے‘ یہ 1960کی دہائی میں پاکستان آتے تھے تو انھیں ائیر پورٹ پر کمشنر راولپنڈی ریسیو کرتے تھے‘ سرخ قالین حبیب بینک کے منیجر اپنے گھر سے لاتے تھے‘ انھیں انٹرکانٹیننٹل ہوٹل میں ٹھہرایا جاتاتھا اور ایوب خان کی کابینہ کے وزراء بڑی مشکل سے ان سے ملاقات کے لیے راضی ہوتے تھے‘ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں دوبئی میں تعمیراتی سرگرمیاں شروع ہوئیں‘ النہیان فیملی نے بڑی مشکل سے پاکستانی حکومت کو اپنے کاری گر یو اے ای بھجوانے کے لیے رضا مند کیا‘ ہم کہا کرتے تھے ہمارے لوگ یورپ اور امریکا کے لیول کے ہیں۔
ہم انھیں مرنے کے لیے صحرا میں کیسے چھوڑ دیں اور 1985میں ایمریٹس ائیر لائین شروع ہوئی‘ اس وقت آج کی بڑی ائیر لائین کے پاس جہاز تھے‘ پائلٹس تھے اور نہ میزبان عملہ‘ پاکستان نے اس وقت پی آئی اے کے تین جہاز عملے سمیت ایمریٹس ائیر لائین کو کرائے پر دیے تھے‘ ایمریٹس کا کوڈ ای کے ہے‘ اس کوڈ میں ای ایمریٹس اور کے کراچی کی نمایندگی کرتا ہے لیکن آج کیا صورت حال ہے؟ آج ایمریٹس 271جہازوں اور ہفتے میں تین ہزار چھ سو فلائیٹس کے ساتھ دنیا کی 12ویںبڑی ائیر لائین ہے جب کہ 1985میں ایمریٹس کو جہاز دینے والی پی آئی اے یورپ اور امریکا کے اوپر سے نہیں گزر سکتی‘ دوسرا دوبئی اس وقت ترقی‘ امن اور لیونگ اسٹینڈرڈ میں یورپ اور امریکا کو پیچھے چھوڑ چکا ہے‘ آپ کو دوبئی میں پوری دنیا کے بزنس مین‘ سرمایہ کار اور سیلی برٹیز ملتے ہیں‘ ہم نے یو اے ای سے دو بلین ڈالر قرض لے رکھا ہے‘ ہمارے ہر وزیراعظم اس قرض میں توسیع کے لیے دوبئی جاتے ہیں‘ سلطان کی منت کرتے ہیں اور سلطان ہمیں مشورہ دیتے ہیں میرے بھائی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہاتھ پاؤں دے رکھے ہیں‘ کما کر کھاؤ‘ بھیک کیوں مانگتے ہو؟ اور ہم ہاتھ جوڑ کر وعدہ کرتے ہیں ہم آپ کو بہت جلد اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر دکھائیں گے لیکن پاکستان آ کر یہ وعدہ بھول جاتے ہیں۔
یہ بے عزتی اور ہزیمت کا ایک لیول تھا‘ ہمارا خیال تھا یہ لیول آخری ہو گا لیکن جب پچھلے سال سعودی عرب اور یو اے ای سے یہ خبریں آنے لگیں ہمارے بھکاریوں نے عرب ملکوں پر یلغار کر دی ہے تو پتا چلا بے عزتی کے ابھی مزید مواقع بھی موجود ہیں‘ پاکستانی بھکاری ایجنٹس کے ذریعے جعلی کاغذات پر ویزے لگواتے ہیں‘ یو اے ای اور سعودی عرب جاتے ہیں اور سال چھ مہینے کا سیزن لگا کر واپس آتے ہیں‘ خوب عیاشی کرتے ہیں اور پھر دوبارہ بھیک کے لیے جہاز پر سوار ہو جاتے ہیں‘ سعودی عرب اور یو اے ای میں گداگری جرم ہے۔
پولیس نے انھیں گرفتار کرنا شروع کیا تو پاکستانی بھکاریوں سے ان کی جیلیں بھر گئیں‘ سعودی عرب اور یو اے این نے یہ مسئلہ پاکستان کے سامنے اٹھایا‘ ہم اسے لے کر مختلف کمیٹیوں میں پھرتے رہے اور اس دوران بھکاریوں کی تعداد تین چار گنا ہو گئی یہاں تک کہ دوبئی نے پاکستان کے ویزوں پر پابندی لگا دی اور سعودی عرب نے ویزے سخت کر دیے‘ دوبئی پچھلے چھ ماہ سے کسی پاکستانی کو ویزے نہیں دے رہا‘ ہمارے فیڈرل سیکریٹریز تک کے ویزے ری جیکٹ ہو چکے ہیں‘ پوری دنیا ای ویزہ اور ویزہ آن ارائیول پر دوبئی جاتی ہے جب کہ پاکستانیوں کو ایمبیسی سے ویزہ ملتا ہے اور نہ دوبئی سے‘ ہمارے ارب پتی بزنس مینوں کو بھی انکار ہو رہا ہے۔
دوبئی اب صرف میاں بیوی کو ویزے دیتا ہے اور ان دونوں کو اکٹھا سفرکرنا پڑتا ہے‘ یہ اگر الگ الگ سفر کریں تو انھیں ’’ڈی پورٹ‘‘ اور جھوٹا ڈکلیئر کر دیا جاتا ہے جس کے بعد یہ اگلے ویزے کے لیے نااہل ہو جاتے ہیں‘ دوبئی حکومت کا خیال تھا پاکستان ان پابندیوں پر ان سے رابطہ کرے گا‘ نئے ایس او پیز بنائے گا اور بھکاریوں کے سفر پر پابندی لگائے گا جس کے بعد پاکستانیوں کے ویزے دوبارہ شروع ہو جائیں گے لیکن ہم 24 گھنٹے عمران خان کے ساتھ مصروف رہتے ہیں چناں چہ ہمارے پاس دوبئی اور سعودی عرب کے بھکاریوں کے لیے وقت نہیں تھا اور یوں یہ مسئلہ مزید الجھ گیا یہاں تک کہ 14 اکتوبر کو دوبئی نے پاکستان کے 24 شہروں کو بلیک لسٹ کر دیا‘ یہ اب ان 24شہروں کے لوگوں کو ویزے نہیں دے گا۔
ان شہروں میں ایبٹ آباد‘ اٹک‘ باجوڑ‘ چکوال‘ ڈیرہ غازی خان‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ہنگو‘ ہنزہ‘ قصور‘ خوشاب‘ کوٹلی‘ کوہاٹ‘ کرم ایجنسی‘ لاڑکانہ‘ نواب شاہ‘ مہمند ایجنسی‘ مظفر گڑھ‘ پارا چنار‘ کوئٹہ‘ ساہیوال‘ سرگودھا‘ شیخوپورہ‘ سکردو اور سکھر شامل ہیں‘ ان شہروں کو ایجنٹوں‘ ویزوں کے غلط استعمال اور جعل سازی کی وجہ سے بلیک لسٹ کیا گیا‘ اس طرح یو اے ای پہلا ملک بن گیا جس نے ہماے شہروں کو باقاعدہ بلیک لسٹ کر دیا ہے اور اب ان شہروں کے لوگوں کو دوبئی کا کسی بھی قسم کا ویزہ نہیں مل سکتا اور مجھے یقین ہے ہماری ریاست یہ زیادتی بھی چپ چاپ برداشت کر جائے گی‘ ہم میں سے کوئی شخص اس پر بھی یو اے ای سے بات نہیں کرے گا۔
ہمارے ائیرپورٹس پر روزانہ جعلی پااسپورٹس‘ جعلی ویزوں اور جعلی گرین کارڈ ہولڈرز گرفتار ہوتے ہیں‘ ائیرپورٹس پر روزانہ منشیات بھی پکڑی جاتی ہیں اور اب بھکاری بھی نکل آتے ہیں‘ ہمارا پاسپورٹ دنیا میں اس قدر بدنام ہو چکا ہے کہ ہم جس ائیرپورٹ پر بھی اترتے ہیں ہمیں سائیڈ پر کھڑا کر دیا جاتا ہے اورہمارے پاسپورٹ کا ایک‘ ایک صفحہ مل مل کر چیک کیا جاتا ہے‘ ہمارے سامان کی تلاشی بھی خصوصی طور پر لی جاتی ہے‘ مجھے ایک بار پی آئی اے کے ذریعے میلان جانے کا اتفاق ہوا‘ میں نے وہاں عجیب منظر دیکھا‘ ہم لوگ جوں ہی جہاز کے گیٹ سے نکلے سامنے پولیس کتوں کے ساتھ کھڑی تھی‘کتے پہلے مسافر کو سونگھ کر پوری تسلی کرتے تھے اور اس کے بعد مسافر کو لاؤنج اور امیگریشن ہال کی طرف جانے دیا جاتا تھا‘ میں نے دنیا کی کسی دوسری قوم کو اس ذلت سے گزرتے نہیں دیکھا‘ مجھے اسی طرح فجی جانے کا اتفاق ہوا‘ میں نیوزی لینڈ سے نادی گیا تھا‘ میں فلائیٹ میں واحد پاکستانی تھا‘ فجی امیگریشن نے کسی مسافر کو نہیں روکا‘ لوگ کاؤنٹر پر جاتے تھے۔
پاسپورٹ دکھاتے تھے اور تین سیکنڈ میں نکل جاتے تھے جب کہ مجھے روک لیا گیا اور دو گھنٹے انٹرویو کیا گیا‘ مجھے ماسکو میں بھی اڑھائی گھنٹے ائیرپورٹ پر بیٹھنا پڑا‘ تیونس میں بھی اور دو مرتبہ امریکا میں بھی‘ میرے ساتھ یہ واقعات اتنی مرتبہ ہو چکے ہیں کہ میں اب ان کا عادی ہو چکا ہوں‘ میں کاؤنٹر پر جاتا ہوں اور ان سے سیدھا پوچھ لیتا ہوں‘ مجھے آپ کے پاس کتنی دیر بیٹھنا ہے اور کہاں بیٹھنا ہے‘ میں بعض اوقات ان سے کافی بھی مانگ لیتا ہوں اور یہ سن کر عموماً امیگریشن آفیسرز کی ہنسی نکل جاتی ہے اور یہ اس شخص کی صورت حال ہے جو118 ملک گھوم چکا ہے اور اس کے پاسپورٹ پر مہر لگانے کی جگہ نہیں ہوتی‘ آپ باقی پاکستانیوں کی صورت حال کا اندازہ خود کر لیجیے۔
ہمارے دو ایشوز ہیں‘ ایک‘ دنیا بھر میں ہمارے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے اور دوسرا ہمیں اس پر شرم بھی نہیں آتی‘ یہ دوسرا ایشو پہلے ایشو سے زیادہ خوف ناک ہے‘ ہم اگر واقعی ملک کو بدلنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں شرم سے اسٹارٹ لینا ہو گا‘ ہمیں پہلے شرم آنی چاہیے‘ آپ یقین کریں ہمیں جس دن شرم آ جائے گی ہم اس دن چیزوں کو ٹھیک کرنا شروع کر دیں گے مثلاً ہم ویزوں کا مسئلہ بڑی آسانی سے حل کر سکتے ہیں‘ حکومت کو چاہیے یہ نادرا میں ایک ویزہ کوالی فکیشن سیکشن بنا دے‘ نادرا کے پاس پورے ملک کا ڈیٹا موجود ہے‘ یہ اس ڈیٹا کی بنیاد پر بیرون ملک سفر کی پانچ کیٹگریز بنا دے‘ یہ کیٹگریز تعلیم‘ عمر‘ فنانشل اسٹیٹس‘ ٹیکس‘ پراپرٹی اور ٹریول کی بنیاد پر بنائی جائیں اور مسافروں کو ون سے لے کر فائیو تک اسٹار دے دیے جائیں۔
پاکستان کا جو بھی شہری کسی ملک کا ویزہ اپلائی کرے اس کے لیے لازم ہو وہ پاسپورٹ‘ شناختی کارڈ اور فیملی سرٹیفکیٹ کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل ٹریول کوالی فکیشن سرٹیفکیٹ بھی جمع کرائے‘ سفارت خانے دوسرے ڈاکومنٹس کے ساتھ نادرا سے یہ سر ٹیفکیٹ بھی تصدیق کرالیں اوراس کے بعد پاکستانیوں کو ویزے جاری کر دیں ‘ اس سے ویزہ ری جیکشن کے کیسز میں بھی کمی آ جائے گی اور پاکستان کی بدنامی بھی نہیں ہو گی‘ ملازمت کے لیے بیرون ملک جانے والے ہنر مندوں کے لیے بھی یہ سرٹیفکیٹ لازم ہونا چاہیے‘ نوجوان نے تعلیم کہاں سے حاصل کی؟ پروفیشنل تربیت یا تعلیم کہاں سے لی اور اپنے شعبے یا پیشے میں اس کی اہلیت کا معیار کیا ہے؟ یہ تصدیق بھی نادرا کے ذریعے ہونی چاہیے۔
میڈیکل سرٹیفکیٹ اور پولیس ویری فکیشن سرٹیفکیٹ بھی نادرا سے جاری ہونے چاہئیں‘ اس سے دو فائدے ہوں گے‘ مسافروں کو ایک ونڈو پر سب کچھ مل جائے گا‘ انھیں مختلف دفتروں میں دھکے نہیں کھانے پڑیں گے اور دوسرا سفارت خانوں کو بھی کاغذات کی تصدیق کے لیے دس بیس دفتروں سے رابطہ نہیں کرنا پڑے گا یوں مسافر اور سفارت خانے دونوں کا وقت اور وسائل بچ جائیں گے‘ میری درخواست ہے حکومت پہلی مرتبہ سفر کرنے والے مسافروں کے لیے چھوٹی چھوٹی وڈیوز بھی بنوائے‘ ان وڈیوز میں پاسپورٹ سے لے کر ٹکٹ تک‘ ائیرپورٹ میں داخلے سے لے کر جہاز کے ٹوائلٹ کے استعمال تک اور دوسرے ملک کی امیگریشن سے لے کر سامان لینے تک ساری معلومات ہوں۔
یہ وڈیوز بیرون ملک سفر کرنے والے تمام مسافروں کے لیے لازم ہوں‘ اس سے سفر میں بھی سہولت ہو گی اور پاکستان کا امیج بھی پوری دنیا میں بہتر ہو جائے گا‘ پاکستان حقیقتاً ایک شان دار ملک ہے لیکن ہم نے بدقسمتی سے اس کا امیج برباد کر دیا ہے‘ ہم اب بھی چند قدم اٹھا کر اس کا امیج بہتر بنا سکتے ہیں‘ میرا خیال ہے احسن اقبال یہ کام آسانی سے کر سکتے ہیں‘ اﷲ تعالیٰ نے انھیں وژن بھی دے رکھا ہے اور اختیار بھی بس ان کے دس پندرہ منٹ چاہئیں اور یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔