خود فریبی کی نفسیات – ایکسپریس اردو

خود فریبی کی نفسیات – ایکسپریس اردو


دوستو! ہم پاکستانیوں کے لیے ایک سمسیا یہ ہے کہ جب بھی افغان پناہ گزینوں کوان کے وطن واپس بھیجنے کاکام شروع ہوتا ہے، افغان مہاجرین کا واویلہ تو سمجھ میںآتا ہے لیکن پاکستانیوں کا ایک مخصوص گروپ پتہ نہیں کیوں بین ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔

بندہ پوچھے! پناہ گزینوں کو ان کے اپنے وطن واپس بھیجا جا رہا ہے،کالے پانی کی سزا تو نہیں دی جا رہی۔ اب جب کہ طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں‘اور افغانستان کے لوگ حقیقی آزادی کی برکات سمیٹ رہے ہیں‘ایسے میںافغان پناہ گزینوں کا پاکستان میںٹکے رہنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ویسے بھی پاکستانیوں کا ایک مخصوص گروپ ہمیں یہی خوشخبریاں سناتا آ رہا ہے کہ افغانستان میں ڈالر پاکستان کی نسبت سستا ہے‘ افغانستان کی کرنسی روپے کے مقابلے میں طاقتور ہے۔

امن و امان ایساکہ چور چکے کہیں غائب ہو گئے ہیں‘کوئی خاتون ایک کلو سونے کے زیورات پہن کر پورے افغانستان کا تنہا سفر کر لے ‘کسی کی جرات نہیں کہ خاتون یا سونے کو ہاتھ لگا سکے۔ناجانے کیوں افغان پناہ گزین اپنے پرامن‘ خوشحال اورخوبصورت ملک میںواپس جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

پاکستان میں دائیں بازوکے سیاستدان اور دانشور پتہ نہیں کس مٹی کے بنے ہوئے ہیںکہ انھیں دنیا جہاںکی برائیاں اور خامیاںہم پاکستانیوں خصوصاً پنجاب کے رہنے والوں میں ہی کیوں نظر آتی ہیں۔ بلوچستان میں پنجاب کے مزدوروں کو قتل کر دیا جائے یا ایران میں پنجابی ہنرمندوں کو بیدردی سے کچل دیا جائے ‘تب بھی ان دانشوروں اور سیاستدانوںکے چہرے پر افسوس کی پرچھائی تک نظر نہیں آتی۔خود فریبی‘خود اذیتی اورخود فراموشی کی ایسی مثال شاید ہی کسی اور ملک کے باسیوں میں نظر آتی ہو۔

ایک صاحب تو آج کل غزہ کی تباہی کا ذمے دار بھی انگریز دور کی فوج میں شامل پنجابی سپاہیوں کو قرار دے رہے ہیں۔میں نے ایک نام نہاد قوم پرست سیاستدان کے یہ الفاظ بھی سنے ہیںکہ افغان اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو نہیں بھولتے۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ لالہ جی!کرزئی ‘عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے دور حکومت میں طالبان گوریلوں نے جولوگ قتل کیے ‘وہ کس کھاتے میں گئے۔ افغان نیشنل آرمی نے جو لوگ قتل کیے ‘وہ کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کریں۔نجیب اللہ حکومت کے خاتمے کے بعد کابل اور افغانستان کے شہروں میں جو لوٹ مار ہوئی اور جو قتل عام ہوا وہ لٹیرے اور قاتل کون ہیں؟میرا خیال ہے کہ مزید آگے جانے کی ضرورت نہیں ہے تھوڑے کو ہی بہت سمجھا جاناچاہیے۔

امریکا‘یورپ اور عرب ممالک غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کرتے رہتے ہیں، اس پر تو کوئی احتجاج نہیں کرتا،اب تو امریکا کے ہوم ڈیپارٹمنٹ نے باقاعدہ طور پر مراسلہ جاری کر دیا ہے کہ 14سال سے زائد عمر کے تمام لوگ اپنے شناختی کاغذات اور دستاویزات ہر وقت اپنے ساتھ رکھیں‘ یہ اقدام غیر ملکیوں کو امریکا سے نکالنے کے لیے کیا گیا ہے۔اس پر تو کسی نے کوئی واویلا نہیں کیا ہے۔ امریکا نے میکسیکو ‘کولمبیا اور بھارت کے شہریوں کو ہتھکڑیوں میں جکڑ کر ان کے ملکوں میں واپس بھیجا ہے۔سب خاموش رہے ہیں۔پاکستان تو افغان مہاجرین کو عزت کے ساتھ بھیج رہا ہے۔اس پر بھی پاکستانیوں کا شور سمجھ سے باہر ہے۔

پاکستان سے غیرملکیوں کو نکالا جائے تو ظلم ہے، زیادتی ہے کی گردان شروع ہوجاتی ہے۔مارچ میں افغانستان کی طالبان رجیم نے بھی درخواست داغ دی کہ پاکستان میں موجود افغانوں کو نہ نکالا جائے۔ پاکستان کی حکومت نے یہ درخواست مسترد کر دی تھی۔  پاکستان واحد ملک نہیں ہے جو غیرملکی مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھیج رہا ہے، ایران نے بھی افغانستان کے لاکھوں مہاجرین کو واپس بھیجنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے کیونکہ ایران بھی افغان مہاجرین کی وجہ سے پیچیدہ مسائل کا شکار ہورہا ہے، پاکستان بھی مسلسل دہشت گردی کا شکار چلا آرہا ہے ، پاکستان کی معاشرت اور معیشت متاثر ہو رہی ہے۔

ملک کا انفرااسٹرکچر تباہ ہو رہا ہے۔اسمگلنگ،منشیات فروشی، ڈاکا زنی، اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی پاکستان اور اس کے عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ پاکستان کی سلامتی کا معاملہ ہے۔ افغانستان کی عبوری حکومت کو اس پہلو پر ضرور غورکرنا چاہیے کیونکہ شرپسند اور دہشت گرد عناصر افغانستان کے بھی ہمدرد نہیں ہیں۔

 پاکستان، ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے۔اس کی سسٹر آرگنائزیشنز بھی پاکستان میں سرگرم ہیں۔ بلوچستان میں بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں اور ٹی ٹی پی کے درمیان گہرے اسٹرٹیجک تعلقات زبان زدعام ہیں۔ دونوں گروپوں کے ایک دوسرے کے لیے سہولت کاری کے امکانات کو رد کرنا انتہائی مشکل ہے۔

پاکستان کے اندر سے بھی انھیں سہولت کار میسر ہیں۔ورنہ پاکستان میں دہشت گردی نہیں ہو سکتی۔ امریکا 2021ء میں اپنے انخلا کے وقت افغانستان میں اپنا جدید اسلحہ چھوڑ کر گیا تھا، ایک طرح سے یہ ہتھیار طالبان کے سپرد کیے گئے تھے ، افغان نیشنل آرمی کے پاس جو اسلحہ تھا، وہ بھی امریکا نے واپس نہیں لیا تھا، اس کی مالیت اربوں ڈالرز بنتی ہے، پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں یہ اسلحہ استعمال ہوا ہے ، عالمی ذرایع ابلاغ میں بھی اس کی تصدیق ہو رہی ہے۔ یقیناً افغانستان کی طالبان حکومت کے بڑوں کوبھی اس حقیقت کا بخوبی علم ہو گا، پاکستان کی حکومت بھی انھیں حقائق سے آگاہ کرچکی ہے ، امریکا کے صدر ٹرمپ بھی افغانستان سے کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکی اسلحہ واپس کردے لیکن افغان طالبان اس حوالے سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

 بی ایل اے اور ٹی ٹی پی الگ الگ گروپ ہیں مگر انھیں اکٹھا کون کررہا ہے؟، ٹریننگ دے کر، پیسے دے کر پاکستان کے خلاف اکٹھا کون کر رہا ہے؟ اس حوالے سے بہت سے حقائق منظر عام پر بھی آچکے ہیں۔ افغانستان کی سرزمین پر ٹی ٹی پی ، داعش، بی ایل اے وغیرہ جیسی دہشت گرد تنظیمیں کھلے عام اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ،افغانستان اپنے وعدے پورے نہیں کررہا اور پاکستان میں پراکسی وار لڑ رہا ہے۔پاکستان کا محل وقوع اسٹرٹیجکلی عالمی اہمیت کا حامل ہے۔

اس خطے میں تین ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ پاکستان وسط ایشیا اور چین کا دروازہ ہے۔ یہاں سے گزرے بغیر وسط ایشیا تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان کے شمال مغرب میں افغانستان اور ایران میں بدامنی یا دہشت گردی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

افغانستان میں عوام کی نمایندہ جمہوری حکومت نہیں ہے ‘ افغانستان کا سسٹم بھی یکطرفہ اختیارات کا حامل ہے۔ جدید تجارتی میکنزم موجود نہیں ہے۔ اس ملک میں دہشت گرد تنظیموں کا آزادانہ نقل و حرکت کرنا پورے خطے کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں ہے۔ پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کا مسلسل قیام بھی آج کے حالات میں سود مند نہیں رہا ہے۔

خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ترقیاتی سرگرمیاں اس وقت تک شروع نہیں ہوسکتیں جب تک ان علاقوں سے دہشت گردوں کی سہولت کاری کا خاتمہ نہیں ہوتا‘ اس مقصد کے لیے افغان پناہ گزینوں کو ان کے وطن واپس بھیجنا انتہائی ضروری ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ افغانستان کی حکومت کو بھی پتہ چلے گا کہ اپنے باشندوں کی دیکھ بھال کرنا کتنا مشکل کام ہوتا ہے۔ طالبان کا کام محض اقتدار انجوائے کرنا نہیں ہے بلکہ اپنے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کرنا ہے۔

جو نام نہاد ہمدرد حلقے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے حوالے سے واویلا کر رہے ہیں، تو کیا ایران سے افغان مہاجرین کو بیدخل نہیںکیا گیا ہے، کیا ایران نے نرمی برتی ہے؟ ایسا معاملہ جس سے پاکستان کی سالمیت، اس کی معیشت اور معاشرت کو نقصان ہورہا ہو، اس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں ہونی چاہیے۔

اسی میں ہم سب کا بھلا ہے‘ افغانستان کی قیادت اور اشرافیہ کو بھی اپنے آپ کو مظلوم اور دوسرے کو ظالم قرار دینے کی نفسیات سے چھٹکاراپانا چاہیے۔کوئی قوم یا ملک کسی دوسرے ملک یا قوم کا دشمن نہیں ہوتا اور نہ ہی دوست ہوتا ہے۔ مفادات ہی ایک دوسرے کو دشمن اور دوست بناتے ہیں۔جو ملک اور قومیں خود احتسابی کرتی ہیں‘ وہی مفادات کا درست ارینجمنٹ کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔افغانستان اور پاکستان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔





Source link