ممتاز عالم دین، دانشور، محقق، مصنف اور سلسلہ عظیمیہ کے مرشد خواجہ شمس الدین عظیمی جمعے کے دن 98 سال کی عمر میں کراچی میں رحلت فرما گئے۔ عظیمی صاحب ایک روایتی بزرگ یا پیر نہیں تھے بلکہ انھوں نے روحانیت کو سائنسی اور جدید انداز میں پیش کر کے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔
خواجہ صاحب ماہنامہ ’’روحانی ڈائجسٹ انٹرنیشنل‘‘ اور میگزین ’’قلندر شعور‘‘ کے بانی چیف ایڈیٹر تھے۔اپ کا معروف کالم ’’روحانی ڈاک‘‘ اپنے دور کی ایک تاریخی دستاویز تصور کیا جاتا ہے۔ اس کالم کے ذریعے اپ نے لاکھوں افراد کے سماجی، نفسیاتی اور روحانی مسائل کے حل تجویز کیے۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی روحانی تعلیمات نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا اور ان میں روحانیت کے حقیقی مفہوم کو اجاگر کیا۔
آپ 17 اکتوبر 1927 کو ہندوستان کے شہر سہارن یور میں پیدا ہوئے ،آپ کا تعلق حضرت ابو ایوب انصاری کی نسل سے ہے۔ آپ نے روحانیت کی تعلیم اپنے عظیم استاد حضرت قلندر بابا اولیاء سے حاصل کی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی کو ان کے منفرد طرز تحریر کی وجہ سے بھی شہرت حاصل رہی ہے۔آپ نے 50 سے زائد کتابیں اور 100 سے زائد رسائل اور مضامین تحریر کیے جو ماورائی علوم کے تقریبا ہر پہلو کا احاطہ کرتے ہیں۔
اپ کی بیشتر کتابوں کا ترجمہ انگریزی،عربی فارسی،روسی، تھائی، پشتو اور سندھی اور کئی دوسری زبانوں میں کیا جا چکا ہے۔ روحانیت کے حوالے سے آپ کی تشریحات سے پہلے روحانیت کو ایک پراسرار اور مشکل موضوع سمجھا جاتا تھا لیکن عظیمی صاحب نے اسے ایک سادہ سائنسی اور قابل فہم انداز میں لوگوں تک پہنچایا۔
ان کا کہنا تھا کہ روحانیت کی تعلیم انسان کو اپنی ذات اور اپنے خالق کے قریب لے آتی ہے۔انھوں نے روحانی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے مختلف ادارے قائم کیے جن میں قلندر شعور اکیڈمی اور مراقبہ حال کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
عظیمی صاحب نے روحانی تربیت کے لیے مراقبہ ہالز کو ایک ادارے کے طور پر قائم کیا اور اس کے نیٹ ورک کو دنیا بھر میں وسیع تر بنایا۔آپ نے امریکا یورپ متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک میں منعقد پروگراموں میں شرکت کی اور وہاں کے لوگوں کو روحانی تعلیمات سے روشناس کرایا، آپ کی تقریریں کتابیں اور ورکشاپس عالمی سطح پر ایک وسیع اثر پیدا کرنے کا سبب بنی۔
نئی نسل کی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے عظیمی صاحب نے پاکستان بھر میں 60 سے زیادہ مراقبہ حال قائم کیے جب کہ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں اسی طرح کے 26 مراکز قائم کیے گئے جن میں 13 مراکز یورپی ممالک میں اور چار امریکا میں ہیں۔ ان کے علاوہ کینیڈا، متحدہ عرب امارات، بحرین، تھائی لینڈ، روس ڈنمارک، ہالینڈ اور ناروے میں بھی روحانی مراکز قائم کیے۔
عظیمی صاحب نے روحانی علوم پر کتب ہی نہیں لکھی بلکہ انھیں ایک مکمل نصاب کی شکل دی۔عظیمی صاحب نے تعلیمی میدان میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اپ نے عظیمی پبلک اسکول قائم کیا جو کراچی کے علاقے سرجانی ٹاؤن میں کم آمدنی والے خاندان کے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے۔
ان کی کتابیں جن میں ’’احسان و تصوف‘‘ اور ’’ایک سو ایک اولیاء اﷲ خواتین‘‘ اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ روحانیت ایک ایسی حقیقت ہے جو انسان کی فلاح کے لیے ضروری ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا پیشتر حصہ روحانی علوم کی تدریس تحقیق اور اس کے فروغ کے لیے واقف رکھا۔
نماز میں خشوع و خضوع پیدا کرنے کے لیے آپ کا کتابچہ ’’روحانی نماز‘‘ اور روحانی بیماریوں کے علاج کے لیے آپ کی کتابیں ’’روحانی علاج‘‘ اور ’’رنگ و روشنی سے علاج‘‘ یعنی Colour Therapy منفرد حیثیت کی مالک ہیں۔ عظیمی صاحب پر کولمبو انٹرنیشنل یونیورسٹی کے اسکالر نے پی ایچ ڈی بھی کی، اس کے علاوہ دنیا کی کئی یونیورسٹیوں میں آپ پر تحقیقی مقالات لکھے جا چکے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر تین جلدوں پر مشتمل ایک شاندار کتاب تصنیف کی۔
ایک تحقیق کے مطابق عظیمی صاحب کی تعلیمات اور تربیت کا اہم مقصد انسان کے طرز فکر کو مثبت بنانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک آپ کا طرز فکر مثبت نہ ہوگا، آپ نہ تو زندگی میں سکون حاصل کر سکتے ہیں اور نہ فلاح انسانیت کے لیے کوئی کام دلجمی سے کر سکتے ہیں۔ آپ کی علمی اور روحانی خدمات کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ آپ کی کئی کتابیں مختلف یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں۔آپ کو کئی یونیورسٹیوں نے اعزازی پروفیسر کا درجہ دے رکھا تھا۔آپ کی پوری زندگی ایک مشن کے طور پر دنیا کے سامنے ائی۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئی
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پناہ ہو گئی