پروفیسر اینڈریو کا یہ سوال سن کر کہ ’’اگر خدا ہوتا تو وہ ایک perfect world بناتا جو جرائم، مصائب اور تکلیفوں سے پاک ہوتی‘‘ عائشہ کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی، اور پھر اس نے پوچھا ’’پروفیسر صاحب آپ کتابیں پڑھتے ہیں؟‘‘ پروفیسر نے کہا ’’ہاں میں انسانی زندگی کے بارے میں کہانیاں اور ناول دلچسپی کے ساتھ پڑھتا ہوں‘‘۔
عائشہ نے یہ سن کر سوال کیا ’’پروفیسر صاحب! کیا آپ کو انسانی زندگی کی ایسی کہانیاں پسند ہیں جن میں کوئی موڑ، کوئی مشکل اور کوئی چیلنج نہ ہو۔ ہیرو صاف اور اسپاٹ سڑک پر سفر کرتا ہوا اپنے طے شدہ وقت پر منزل پر پہنچ جائے یا آپ کو ایسے ناول پسند ہیں جس میں راستہ کٹھن ہو، جرم بھی ہو، تصادم بھی ہو، غیر متوقع چیلنجز بھی ہوں اور کرداروں کو مصائب اور مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑے، اور دکھ بھی سہنے پڑیں؟‘‘ پروفیسر نے کہا’’کتاب تووہی دلچسپ ہوگی جس میں جرائم بھی ہوں، مشکلات بھی ہوںاور چیلنجز بھی ہوں‘‘ عائشہ نے ہلکا سا مسکرا کر کہا ’’بس زندگی کے خالق نے بھی اسے سیدھا اور اسپاٹ رکھنے کی بجائے اس میں اُونچ نیچ، مشکلات اور چیلنجز ڈال کر اسے دلچسپ بنادیا ہے۔
مصائب ہمارے اندر صبر اور انسانی ہمدردی کے جذبات پیدا کرتے ہیں، صدمات اور چیلنجز انسانوں میں مشکل حالات پر قابو پانے کی ہمّت (resilience) پیدا کرتے ہیں۔ مشکلات اور آلام نہ ہوں تو انسان میں ان سے نبرد آزما ہونے کی طاقت اور صلاحیّت پیدا ہی نہیں ہوسکتی۔ ان چیلنجز کے بغیر تو انسان کو زندگی کے صحیح معانی ہی معلوم نہیں ہوسکتے‘‘۔
پروفیسر کھسیانی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا ’’اچھا تو خدا نے زندگی کی کہانی دلچسپ بنانے کے لیے انسانوں کو ان دکھوں اور مصائب میں مبتلا کیا ہے؟‘‘’’نہیں خدا کے نزدیک زندگی ایک کہانی نہیں ایک ٹیسٹ ہے۔ ایک امتحان ہے‘‘ عائشہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ’’خالق نے اپنی واضح نشانیاں دکھا دی ہیں جو شعور رکھنے والے انسانوں کو سچائی تک یعنی خدا کے وجود تک پہنچنے میں راہنمائی کرتی ہیں‘‘۔ پروفیسر نے کسی قدر پریشان ہوکر ایک سخت وار کیا ’’اوکے عائشہ! اگر خدا واقعی ہے تو لوگ اس کے وجود سے انکار کیوں کرتے ہیں‘‘۔
عائشہ نے پورے اعتماد کے ساتھ سوال سنا اور معمولی توقف کے بعد کہا، ’’پروفیسر صاحب! آپ یہ بتائیے کہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سگریٹ نوشی مضر صحت ہے، اس کے باوجود کروڑوں کی تعداد میں لوگ اسموکنگ کرتے ہیں، وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟‘‘ ’’اس لیے کہ انھیں کوئی بھی عمل کرنے کا اختیار ہے، اور وہ اس اختیار کو وقتی خوشی یا لذّت کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں‘‘ فلسفے کے ماہر پروفیسر نے جواب دیا ’’آپ نے بالکل درست کہا پروفیسر صاحب‘‘ عائشہ نے آواز قدرے بلند کرتے ہوئے کہا ’’آپ نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ انسان اپنا اختیار (choice) ہمیشہ درست طور پر استعمال نہیں کرتے، وقتی لذّت، لطف، خوشی یا مفاد کے لیے وہ اس چوائس کا غلط استعمال بھی کرتے ہیں اور ایک غلط اور نقصان دہ راستے پر بھی چل پڑتے ہیں۔ سچائی کو ماننا یا نہ ماننا بھی ہمارے اختیار یا چوائس کا معاملہ ہے اور ہماری چوائس غلط بھی ہوسکتی ہے‘‘۔
اب کلاس کے اسٹوڈنٹس کی اکثریت عائشہ کو ستائش کی نظروں سے دیکھنے لگی تھی۔ مگر منطق اور دلیل کا ماہر پروفیسر اپنی ہی ایک اسٹوڈنٹ سے شکست کھانے کے لیے تیّار نہ تھا، لہٰذا اس نے ایک اور پتّہ پھینکا ’’عائشہ اگر خدا ہے تو نظر کیوں نہیں آتا، اس نے اپنے آپ کو مخفی کیوں رکھا ہوا ہے؟‘‘ عائشہ نے جواب دیا ’’پروفیسر صاحب! جب خدا نے پردہ اٹھادیا اور اپنے آپ کو ظاہر کردیا، تو اُس دن امتحان ختم ہوجائے گا۔ اور امتحان کے ساتھ ہی دنیا کا بھی خاتمہ ہوجائے گا‘‘۔ پھر ایک وقفے کے بعد عائشہ نے غیر معمولی خوداعتمادی کے ساتھ بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’مگر کیا شعور رکھنے والوں کو اپنے آس پاس خدا کی واضح نشانیاں نظر نہیں آتیں؟ خدا اپنی نازل کی گئی کتاب میں خود بار بار کہتا ہے کہ میری تخلیقات پر غور کرو، عقل اور شعور استعمال کرکے میری نشانیوں کے ذریعے مجھے تلاش کرو۔ تمہیں سچائی نظر آجائے گی۔ پروفیسر صاحب! خدا کے منکروں کا نظرّیہ کس قدر بودا اور کھوکھلا ہے۔
وہ یہ تو کہتے ہیں کہ ہر چیز مادّے سے پیدا ہوئی ہے مگر مادّے میں جان کس نے پیدا کی، ذرّے کو زندگی کس نے بخشی ہے، اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔ پھر یہ کہ جب مادّے میں جان پڑگئی اور نباتات اور حیوانات وجود میں آگئے تو ان میں سے ایک جانور کو شعور دے کر انسان کس نے بنایا ہے؟ اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔ محض یہ کہہ دینا کہ فطرت (Nature) خود بخود تخلیق کرتی ہے۔ ایک غیر عقلی اور غیر منطقی بات ہے۔ صدیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کوئی فنکشنل چیز اپنے آپ پیدا نہیں ہوئی۔ وہ پوری دنیا میں کوئی ایک عمارت، ایک پُل ایک پرندہ یا کوئی ایک مشین بتادیں جو خود بخود بن گئی ہو۔
evolution کے نظرئیے کے حق میں آج تک کوئی ایک معمولی سی شہادت بھی پیش نہیں کی جاسکی۔ دوسری جانب جب خدا کہتا ہے کہ یہ کائنات اور انسان میں نے تخلیق کیے ہیں اور سورج چاند اور ہر چیز کو تمہارے لیے مسخّر کردیا ہے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ دنیا میں ہر وہ سامان بہم پہنچادیا گیا ہے جو انسانی زندگی کی بقاء اور نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ کیا کوئی معمولی سی عقل رکھنے والا شخص بھی یہ مان سکتا ہے کہ سورج اور چاند خودبخود پیدا ہوگئے اور خوبخود صدیوں سے اعلیٰ ترین درجے کی precision کے ساتھ اپنے مدار میں چل رہے ہیں اور اپنا دیا گیا ٹاسک پورا کررہے ہیں۔ انسانی جسم کے اندر چلنے والے حیرت انگیز سسٹمز بھی پکار پکار کر کسی عظیم خالق کے ہونے کی شہادت دے رہے ہیں۔ انسان کے اعضاء مثلاً آنکھیں، ناک، کان، دل، جگر، آنتیں ہر عضو کا مخصوص فنکشن ہے اور جس عضو کو جہاں ہونا چاہیے تھا اسے وہیں رکھا گیا ہے۔
اسی لیے خدا نے انسان کو اپنی تخلیق کا شاہکار (Best of Creations) قرار دیا ہے۔ انسانی جسم کا حیرت انگیز سسٹم اور اس کے اندر چلنے والے کارخانے، کیا یہ سب اپنے آپ بن گئے ہیں؟ کیا آپ کا شعور اور عقل یہ بات تسلیم کرتی ہے؟ نہیں عقل یہ کہتی ہے کہ یہ اپنے آپ نہیں بن سکتا، یہ کسی بہت طاقتور ہستی کی قوّتِ تخلیق کا شاہکار ہے‘‘ اب کلاس میں مکمّل خاموشی طاری تھی۔ مگر اسٹوڈنٹس کے چہروں سے واضح طور پر نظر آتا تھا کہ وہ عائشہ کی باتوں کا اثر قبول کررہے ہیں۔ پہلی بار کسی نے پروفیسر اینڈریو بینٹ کے نظریات کو چیلنج کیا تھا۔ مگر پروفیسر شکست ماننے کے لیے تیّار نہیں تھا، اس کے ترکش میں ابھی چند تیر باقی تھے۔ اس نے ایک اور تیر پھینکا ’’عائشہ جیسا تم کہہ رہی ہو کہ خدا بڑا عظیم بھی ہے اور وہ انسانوں کا خیرخواہ بھی ہے تو پھر ہمیں دنیا میں unreasonable sufferingsکیوں نظر آتی ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں معذور بچے کیوں پیدا کیے گئے ہیں؟‘‘ عائشہ نے پورے سکون اور اطمینان کے ساتھ کہا ’’پروفیسر صاحب آپ ہیلن کیلر کو تو جانتے ہوں گے‘‘۔ ’’ہاں ہاں وہی نابینا اور بہری خاتون۔ جو بہت بڑی رائٹر بن گئی تھی‘‘۔ پروفیسر نے جواب دیا ’’جی وہی! ہیلن نے اپنی معذوری کو نہ اپنی کمزوری بننے دیا اور نہ ہی کبھی خدا سے گلہ کیا بلکہ اس نے اپنی معذوری کو اپنی طاقت بنالیا اور کروڑوں معذور انسانوں کو inspire کیا‘‘۔
ہیلن کیلر کہا کرتی تھیں کہ ’’سُکھ بھرا خوشگوار سفر نہیں۔ بلکہ دکھوں سے لبریز کٹھن راستہ ہی انسانی کردار کو مضبوط کرتا اور کندن بناتا ہے‘‘ ۔ کلاس کے تمام اسٹوڈنٹس ہمہ تن گوش تھے اور لیکچر روم اب مکمّل طور پر عائشہ کی گرفت میں تھا۔ پروفیسر کا تکبّر اب ریزہ ریزہ ہوچکا تھا اور ہر طالب علم محسوس کررہا تھا کہ پروفیسر بھی عائشہ کی پراثر باتوں سے کافی متاثر ہوچکا ہے۔ پروفیسر نے آخری سوال پوچھا’’عائشہ تمہیں خدا کے وجود پر کیسے اس قدر یقین ہے؟‘‘ عائشہ نے جواب دیا ’’اس لیے کہ میں اپنے creatorکو محسوس کرتی ہوں۔ دماغ سے ہی نہیں دل سے بھی خدا کو دیکھتی اور محسوس کرتی ہوں۔ میں جب نماز میں اپنے خالق سے ہمکلام ہوتی ہوں، جب اُس سے کوئی دعا مانگتی ہوں، جب پریشانیوں میں گھِرکر اسے پکارتی ہوں تو مجھے جواب مل جاتا ہے۔
مجھے آسودگی، سکون اور اطمینانِ قلب نصیب ہوجاتا ہے‘‘۔ پروفیسر نے شکست خوردہ لہجے میں کہا ’’مگر مجھے روشنی کیوں نہیں مل سکی؟ مجھے خدا کیوں نہیں ملا؟‘‘ عائشہ بولی، ’’اس لیے کہ آپ نے اس کی تلاش میں صرف فلسفیانہ اور منطقی راستے اختیار کیے ہیںجب کہ ایک اور راستہ بھی ہے۔ اور وہ ہے دل کا راستہ۔ اسے اختیار کریں وہ آپ کو سچائی اور حقیقت کی منزل تک ضرور پہنچائے گا‘‘۔ پروفیسر نے اپنے دل کے اردگرد نفرت اور تعصّب کی جو مضبوط دیواریں کھڑی تھیں، ان میں دراڑ پڑچکی تھی۔ اس کا سارا فلسفہ اور منطق ایک ٹین ایجر لڑکی کی پُراخلاص باتوں کے آگے ڈھیر ہوچکا تھا۔ وہ دل شکستہ ہو کر کرسی پر بیٹھ گیا اور اس کی نحیف سی آواز ابھری ‘class is over’ آپ جاسکتے ہیں‘‘۔