حج اسکیم – ایکسپریس اردو

حج اسکیم – ایکسپریس اردو


وفاقی وزارت مذہبی امور نے کہا ہے کہ نجی حج اسکیم کے تحت رواں برس صرف 25 ہزار 698 عازمین حج کے لیے جا سکیں گے کیونکہ سعودی حکومت مزید حج کوٹہ نہیں دے رہی۔ جو عازمین رہ گئے وہ اب رہ گئے کیونکہ نجی حج اسکیم کے کوٹے میں سستی اور کوتاہی کرتے ہوئے بروقت عمل مکمل نہیں کیا گیا۔

پاکستان کی حج پالیسی کے تحت 50 فی صد سرکاری اور 50 فی صد نجی اسکیم کا کوٹہ ہوتا ہے اور مجموعی طور پر ایک لاکھ 79 ہزار 210 عازمین کا بنتا ہے اور سعودی حکومت مزید کوئی حج کوٹہ نہیں دے رہی۔ وزارت مذہبی امور نے حج سے رہ جانے والوں کو کہہ دیا کہ ’’ جو رہ گئے، وہ رہ گئے‘‘ مگر انھوں نے یہ نہیں بتایا گیا کہ رہ جانے والوں کا آیندہ کیا ہوگا جن کی رقم سعودی عرب میں جمع ہے ان کے لیے کوئی سرکاری اعلان نہیں ہوا جو ہونا ضروری تھا۔ ایک تو متاثرین کو حج سے محروم رہ جانے کا دکھ دوسرا، متاثرین کو نہیں بتایا گیا کہ وہ آیندہ کس پوزیشن میں ہوں گے۔

 حکومت کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اعلان کرے کہ جو رہ گئے انھیں آیندہ حج پر ضرور بھیجا جائے گا یا جو اپنی رقم واپس لینا چاہیں واپس لے لیں جو حکومت واپس کرنے کی پابند ہے، آگے عازمین کی مرضی ہے۔

اس بار لاکھوں افراد رمضان المبارک یا رمضان گزرنے کے فوراً بعد عمرے کی ادائیگی کے لیے جانا چاہتے تھے اور انھوں نے ٹریول ایجنٹس کو رقم بھی جمع کرا دی تھی مگر سعودی حکومت نے بے انتہا رش کے بعد 6 مارچ سے عمرہ ویزا بند کر دیا تھا جس کی وجہ سے عمرہ زائرین کی بہت بڑی تعداد عمرے پر نہ جا سکی اور ٹریول ایجنٹس نے رہ جانے والوں کی رقم واپس کر دی ، جب کہ حج سے رہ جانے والوں کو نہیں پتا کہ ان کی رقم جمع رہے گی یا کب واپس ملے گی یا آیندہ وہ اسی جمع شدہ رقم میں حج پر جا سکیں گے یا نہیں کیونکہ حکومت پاکستان ہر سال حج رقم کا تعین کرکے درخواستیں طلب کرتی ہے اور اکثر اس میں اضافہ ہی ہوتا ہے اور سرکاری کوٹے پر جانے والے واپس آ کر ہی بتاتے ہیں کہ ان سے سرکاری طور جن سہولیات کی فراہمی کا کہا گیا ان پر کہاں تک عمل ہوا۔

واپسی پر اکثر شکایتیں ہی ملتی ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت کے جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے مرحوم وزیر مذہبی امور عازمین کے لیے اچھے ثابت ہوئے تھے جنھوں نے نا صرف عازمین حج کا خیال رکھا تھا بلکہ پہلی بار عازمین کو ڈیڑھ لاکھ روپے فی کس رقم واپس کرائی تھی جو مخلص اور ایماندار وزیر تھے جو کمیشن پر یقین نہیں رکھتے تھے انھوں نے سعودیہ جا کر بغیر کمیشن معاملات طے کرا کر عازمین کو سہولیات بھی دلائی تھیں اور سرکاری اخراجات کم کرا کر حاجیوں کو سستا حج کرایا تھا جو بعد میں ٹریفک حادثے میں فوت ہوگئے تھے اور سادہ آدمی تھے اپنی بجائے حاجیوں کا انھوں نے زیادہ خیال رکھا تھا اور ان کے دور میں حج پر جانے والے اب بھی انھیں دعائیں دیتے اور مرحوم کی خدمات پر انھیں یاد بھی کرتے ہیں۔

سنا ہے کہ بھارت میں مودی حکومت سے قبل کانگریس حکومت میں حج پر جانے والوں کا خیال رکھا جاتا تھا۔ سرکاری طور پر ان کا پاکستانی عازمین کے مقابلے میں زیادہ خیال رکھا جاتا تھا اور بھارتی مسلمانوں کو زیادہ سہولیات دے کر کم رقم میں حج کرایا جاتا تھا جس سے بھارتی عازمین کو پاکستانی عازمین کی طرح اپنی حکومت سے شکایات نہیں رہتی تھیں۔

پی پی حکومت میں وزیر مذہبی امور اپنی ہی حکومت میں بدعنوانیوں کے باعث پہلے برطرف اور بعد میں گرفتار بھی ہوئے تھے۔ پاکستان میں وزارت مذہبی امور کے افسروں پر کرپشن کے الزامات لگتے اور کارروائیاں ہوتی رہیں کیونکہ انھوں نے حج کے مذہبی فریضے کو بھی کمائی کا ذریعہ بنائے رکھا۔ حاجیوں کے رہائشی و دیگر معاملات میں انھوں نے اپنے کمیشن وصول کیے، کرپشن سے مال کمایا اور حاجیوں کو سہولیات فراہم نہیں کرائیں ۔ پاکستان میں کوئی بھی وزیر کرپشن پر اکثر پکڑے نہیں جاتا اگر کبھی پکڑا جائے تو پہلے ضمانت پر چھوٹ جاتا ہے اور بعد میں کرپشن پر تو کسی کو سزا ہوتی نہیں کیونکہ ان کی کرپشن کے ثبوت ملتے نہیں یا ضایع کرا دیے جاتے ہیں مگر سیاسی بنیاد پر ضرور گرفتاری اور عدالتی رہائی ہوتی رہتی ہے۔

ملک کے چاروں صوبوں میں اوقاف، زکوٰۃ و مذہبی امورکی بھی وزارتیں ہیں جو زکوٰۃ کے معاملات کی بھی نگران ہیں۔ صوبوں کے مزارات میں چندوں میں گڑبڑ، زکوٰۃ کی تقسیم میں اقربا پروری میں تو کرپشن عام تھی۔ پی پی حکومت نے غریبوں کی مدد کے لیے بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا جس سے غریبوں سے زیادہ سیاسی لوگ اور سرکاری افسروں نے زیادہ فائدہ اٹھایا اور اپنی اپنی بیویوں اور جاننے والوں اور نام نہاد غریبوں کو ایس بی آئی ایس پروگرام سے بھرپور مالی فائدہ پہنچایا اور پکڑے بھی گئے مگر ان سے رقم وصولی کو ہی کافی سمجھا کسی کی گرفتاری نہیں ہوئی۔

ہر سال ملک بھر میں عیدالاضحی پر جانوروں کی سرکاری منڈیاں لگائی جاتی ہیں تاکہ وہاں سے جانور خرید کر لوگ سنت ابراہیمی ادا کر سکیں اور یہ سرکاری منڈیاں قربانی کرنے والوں کی سہولت کے لیے نہیں بلکہ سرکاری آمدن بڑھانے اور ذاتی کرپشن کے لیے قائم ہوتی ہیں۔ کراچی میں ایشیا کی سب سے بڑی جانور منڈی لگتی ہے جس کی ہر سال نیلامی ہوتی ہے اور ٹھیکہ لینے والوں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں اور سال بھر کی کمائی ایک ماہ میں وصول کر لی جاتی ہے جہاں بڑا ٹھیکیدار اپنے بااثر سرپرستوں کی سرپرستی میں دیگر کو چھوٹے چھوٹے ٹھیکے دیتا ہے جو وہاں آنے والوں کو دل بھر کو لوٹتے اور من مانیاں کرتے ہیں۔

بڑی منڈی میں جانور لانے والوں کو من مانے نرخوں پر جگہیں، بجلی و پانی، شامیانے و قناتیں، جانوروں کی ضروریات و آرائش کا سامان، گھاس دانہ فراہم کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ان منڈیوں میں نرخ شہر سے زیادہ ہو جاتے ہیں ۔





Source link