title>Urdu News - Latest live Breaking News updates today in Urdu, Livestream & online Videos - 092 News Urdu حامد خان گروپ کی شکست کا مطلب – 092 News

حامد خان گروپ کی شکست کا مطلب

حامد خان گروپ کی شکست کا مطلب


حامد خان گروپ کی شکست کا مطلب کیا ہے؟ حامد خان ایڈوکیٹ ایک قابل احترام قانون دان تھے جن کے بارے میں خیال ہے کہ انھوں نے اپنے پیشے کی عظمت  کے لیے ہمیشہ کام کیا اور سیاست میں سرگرم رہ کر عزت کمائی۔ وہ ایک مصنف بھی ہیں جنھوں نے وطن عزیز کی آئینی اور قانونی تاریخ بڑی محنت سے مرتب کی۔ اس ضخیم کتاب میں ایک جگہ ایسی بھی ہے جہاں تاریخ، آئین اور جمہوریت کا کوئی سنجیدہ طالب علم اٹک کر رہ جاتا ہے۔ یہ وہی مقام ہے جس کا تعلق ایوب خانی آمریت کے جواز سے ہے۔ بات تو مجھے سپریم کورٹ بار کے انتخاب میں خان صاحب کے گروپ کی شکست پر کرنی ہے لیکن اس واقعے کا مفہوم سمجھ آ نہیں سکتا جب تک اس پس منظر پر ایک نظر نہ ڈال لی جائے۔

1958 کے مارشل لا کا فوری سبب مشرقی پاکستان اسمبلی میں پیش آنے والا ایک حادثہ بلکہ سانحہ بنا تھا جس میں ڈپٹی اسپیکر شاہد علی پٹواری پر ایوان کے اندرحملہ ہوا جس کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ جاں بہ حق ہو گئے۔ یہ واقعہ تہہ در تہہ گہری سازش تھی جس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ پاکستان میں آئینی اور قانونی نظام یعنی جمہوریت چل نہیں سکتی۔ اس تنازعے کے کئی اسباب تراشے گئے، ان میں ایک یہ بھی تھا کہ اسپیکر مشرقی پاکستان اسمبلی کا ذہنی توازن بگڑ چکا ہے۔ 1958 کے مارشل لا کے سرخیل ایوب خان نے اپنی کتاب ‘ فرینڈز ناٹ ماسٹرز’ میں بھی یہی دعویٰ کیا۔ اس دعوے میں مارشل لا لگانے والے ایوب خان اور مشرقی پاکستان اسمبلی میں ہنگامے کی ذمے دار عوامی لیگ کا مؤقف ایک ہی ہے۔ اس سے یہ مراد بھی لی جا سکتی ہے کہ اس مارشل لا کے نفاذ کی سازش میں یہ جماعت بھی شریک تھی۔ خیر، اس وقت یہ موضوع زیر بحث نہیں۔ یہ جاننا مقصود ہے کہ آخر کیا وجہ رہی ہوگی کہ جناب حامد خان نے اپنی کتاب ‘Constitutional and Political History of Pakistan ‘ ایوب خان کے مؤقف کو تسلیم کیا ہے حالاں کہ اسپیکر کے پاگل ہو جانے والے دعوے کی کسی اور ذریعے سے تصدیق نہیں ہوتی۔ نہ اس عہد کے کسی تاریخی تذکرے سے، نہ کسی کی خودنوشت سے اور نہ اس زمانے کے اخبارات سے۔ ایک آمر مطلق کی طرف آئینی اور جمہوری نظام کو لپیٹ دینے کے ضمن میں اس کے ایک بے بنیاد دعوے کو من و عن تسلیم کر لینا توجہ طلب ہے ۔سپریم کورٹ بار کے 2024 کے انتخابی نتائج سے گہرا تعلق ہے اور یہ شاید قدرت کا کوئی انتظام ہے کہ قومی تاریخ کے اس غیر معمولی دوراہے پر یہ معمہ خود بہ خود حل ہو گیا ہے۔

سپریم کورٹ بار کے انتخاب 2024 کو موجودہ سیاسی صورت حال سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا اور نہ دیکھنا چاہیے۔ اگر یہ کوئی علیحدہ معاملہ ہوتا تو 26 ویں آئینی ترمیم کے موقع پر حامد خان ہرگز یہ دعویٰ نہ کرتے کہ وکلا برادری اس ترمیم کا حساب سپریم کورٹ بار کے الیکشن میں چکائے گی اور اعظم نذیر تارڑ سمیت ترمیم کے ہم خیال تمام وکلا کا داخلہ بار میں بند ہو جائے گا لیکن ہوا اس کے برعکس، حامد خان صاحب اور ان کا گروپ چاروں شانے چت ہو گیا ۔اب اس کی مختلف توجیہات کی جا رہی ہیں جیسے ان کے ایک ہم خیال قانون دان محمد احمدپنسوتا نے کہا کہ ایسے الیکشن ذات برادری اور علاقائیت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ ممکن ہے حامد خان بھی اپنی شکست پر جب کبھی زبان کھولیں ایسی بات ہی کہیں۔ اگر وہ مارشل لا کو جواز بخشنے والے نام نہاد بہانے کو بلا دلیل قبول کر سکتے ہیں تو یہ بھی ممکن ہے۔

26 ویں آئینی ترمیم کا تجزیہ کرتے ہوئے بہت سی باتیں زیر بحث لائی گئیں۔ سب سے بڑی جو کہی گئی، وہ پی ٹی آئی کا بیانیہ تھا۔ پی ٹی آئی اور اس کے ہم خیال مکتبۂ فکر کا خیال تھا کہ حکومت یہ ترمیم دو وجہ سے لا رہی ہے، ایک یہ کہ جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس نہ بن سکیں اور دوم، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو توسیع دی جا سکے۔ یہ تو پی ٹی آئی ، حامد خان اور ان کے ہم خیال طبقات کا انداز فکر تھا لیکن ایک نقطہ ٔ نظر اس سے مختلف بھی تھا جس کا ایک تاریخی تناظر ہے جس کا کچھ ذکر ان سطور میں چکا۔ یہ نقطہ ٔ ٔنظر توجہ طلب ہے۔

ہماری عدلیہ آمروں کی مرغ دست آموز تو قیام پاکستان کے فورا بعد ہی بن گئی تھی جس کی ابتدا ججوں کے ایک مکتبۂ فکر کے پیش رو جسٹس منیر نے کی اور نظریہ ضرورت کو متعارف کرا کے پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی کی راہ کھوٹی کر دی۔ اس ‘ نظریے’  کے  کے نقوش پا ہمیں اپنی تاریخ کے مختلف مراحل میں ملتے ہیں لیکن جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالتی یلغار نے اس ضمن میں ایک نئی بنیاد قائم کی جس کے نتیجے میں حکومت ، پارلیمان اور ریاست، آئین میں دی گئی ان تینوں اداروں کی آزادی اور قوت کار سکڑ گئی ۔ جنرل مشرف کی عدلیہ میں چھیڑ چھاڑ اور جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کی تحریک اور اس کی کام یابی نے اس گرفت کو مزید سخت کر دیا۔ رہی سہی کسر بعد کے زمانے میں پوری ہو گئی جب پہلے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے سلسلے میں ڈاکٹر عارف علوی کے ریفرنس کا فیصلہ سامنے آیا جس میں آئین کی تشریح کے نام پر نیا آئین لکھا گیا، اس کے بعد مخصوص نشستوں کے مقدمے کے فیصلے کے بعد اس انداز فکر نے اپنی منزل کی جانب ایک اور بڑی جست لگائی۔ حالات جب یہاں تک آن پہنچے تو آئین، قانون اور جمہوریت کی حکمرانی پر یقین رکھنے والے طبقات کے لیے یہ فیصلہ ضروری ہو گیا کہ ریاست و حکومت کو یوں ہی یرغمال بنے رہنا ہے یا قومی معاملات کو آئین کی منشا کے مطابق چلانا ہے۔

26 ویں آئینی ترمیم کے موقع پر مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے کہا گیا کہ یہ ترمیم میثاق جمہوریت کا نامکمل ایجنڈا ہے جس کی تکمیل کی جا رہی ہے۔ یہ مؤقف درست تھا۔ بات صرف اتنی نہیں تھی کہ قومی قیادت میثاق جمہوریت میں یہ عدالتی اصلاحات درج کر کے بھول گئی تھی، حقیقت یہ ہے کہ ان اصلاحات کو اس نے کبھی فراموش نہیں کیا۔ میاں محمد نواز شریف نے میثاق جمہوریت کے برسوں بعد کراچی میں قومی قیادت کی موجودگی میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ان اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا جس کی تائید مرحوم میر حاصل بزنجو، محمود خان اچکزئی اور بہت سے دیگر قائدین نے کی۔ 2022 میں حزب اختلاف نے جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا تو اس موقع پر بھی میاں محمد نواز شریف نے اپنی جماعت کو یہی ہدایت کی تھی کہ عدالتی اور انتخابی اصلاحات کے بعد حکومت چھوڑ دی جائے۔ اس وقت حالات کچھ ایسے بنے کہ نہ عدالتی اصلاحات کی جا سکیں اور نہ وقت سے پہلے انتخابات کروائے جا سکے لیکن اب 2024 کے انتخابات کے بعد یہ اصلاحات اس حکومت کا ایجنڈا نمبر ایک تھا۔ اس تفصیل کے بعد یہ تو واضح ہو چکا کہ عدالتی اصلاحات کا مقصد کیا تھا اور ان کے لیے جس وقت کا انتخاب کیا گیا، اس کی اہمیت کیا تھی۔ اس کے بعد ایک سوال ہی باقی رہ جاتا ہے، یہ سوال ہے کہ اس آئینی ترمیم کے موقع پر مختلف سیاسی جماعتوں اور حامد خان جیسے افراد کی پوزیشنز کا۔ یعنی یہ کہ اس مرحلے پر کون کہاں کھڑا تھا؟

جہاں تک پی ٹی آئی کا معاملہ ہے، یہ جماعت ابتدا میں عدالتی اصلاحات کی حامی رہی ہے یہاں تک کہ پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے ترمیم کے مسودے کے بارے میں اس کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ اعتراض نہ ہونے کے باوجود اس جماعت نے ترمیم کے حق میں ووٹ کیوں نہیں کیا، اس کی وجوہات واضح ہیں۔ البتہ حامد خان کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔

حامد خان تسلیم کریں یا نہ کریں، وہ 1958 کے مارشل لا کے مخالف نہیں تھے۔ عمران خان کے ساتھ ان کی سیاسی رفاقت کو بھی یہی نکتہ تقویت فراہم کرتا ہے، گویا یہ دونوں اہم شخصیات ماورائے آئین حکمرانی کے لیے محض نرم گوشہ نہیں رکھتیںبلکہ اسے جائز بھی سمجھتی ہیں۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے موقع پر بھی ان کا مؤقف ان کے ذہنی رجحان کے عین مطابق ہے۔ وہ مارشل لا کے حق میں جیسے ایوب خان کے عذر لنگ (مشرقی پاکستان اسمبلی کے اسپیکر کا ذہنی توازن درست نہ ہونا)کو درست سمجھتے ہیں، بالکل اسی طرح اور وہ جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عمر عطا بندیال اور ما بعد سامنے آنے والے عدالتی ایکٹو ازم کے نہ صرف یہ کہ مخالف نہیں ہیں بلکہ اس کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کے بھی خلاف ہیں۔ آئینی ترمیم سے قبل انھوں نے ایک بیان دیا تھا کہ ایسا صرف وکیلوں کی لاشوں پر ہی ہو سکتا ہے۔ ملک میں آئینی اور جمہوری عمل کی بحالی کے لیے وہ جن وکیلوں کی لاشوں کو استعمال کرنے کے خواہش مند تھے، ان ہی وکیلوں نے ان کے خلاف ووٹ کا حق استعمال کر کے بتا دیا کہ ان کی قوت کو آئین اور جمہوریت کے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا۔





Source link