جنگ کی فتح سے بڑی فتح

جنگ کی فتح سے بڑی فتح


ہر بحران سے مواقع پھوٹتے ہیں اور جنگ سے برکتیں بھی جنم لیتی ہیں۔ چار روز کی جنگ نے مسائل اور پریشانیوں میں گھرے ہوئے پاکستان کا مقام اور مرتبہ زمین سے آسمان تک پہنچادیا۔ بھارت کا تکبر اور احساسِ برتری مٹی میں ملادیا۔

بھارت اور اسرائیل گٹھ جوڑ کے ناقابلِ شکست ہونے کے myth کو توڑ کر رکھ دیا۔ نیل کے ساحل سے کاشغر تک، انڈونیشیا سے بوسنیا تک اور فلسطین سے کشمیر تک کروڑوں مسلمانوں کو ایک مسلم ملک کی فتحِ مبین کے باعث مسرت وافتخار سے سرشار کردیا، دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے مسلمانوں کو سر اونچا کرکے چلنے کے قابل بنادیا ہے، اور پوری دنیا کو اور خصوصاً پاکستان کی نئی نسل کو اچھی طرح باور کرادیا ہے کہ کوئی بیرونی طاقت پاکستان کی ایک انچ زمین پر قبضہ نہیں کرسکتی، پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے اور یہ انشاء اللہ قیامت تک قائم ودائم رہے گا۔ اس جنگ میں پاکستان کے مستقبل کے بارے میں سوال اٹھانے والوں کو بڑا تسلّی بخش جواب مل گیا ہے لیکن اگر اس فتح کو ملک اور قوم کے بجائے صرف ذاتی یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تو ہم اس کے اصل ثمرات سے محروم ہوجائیں گے۔

جس خالق ومالک نے اپنی خاص مدد سے پاکستان کو فتحِ مبین عطا کرکے بے پناہ عزت بخشی ہے۔ پوری پاکستانی قوم کو اُس کے سامنے سر جھکا دینا چاہیے، اپنی خامیوں اور کوتاہیوں سے توبہ کرنی چاہیے اور آیندہ زندگیوں کو اس کے احکامات کے عین مطابق گذارنے کا پختہ عہد کرنا چاہیے۔

قدرت کی طرف سے بخشے گئے اس موقع کا درست استعمال کرکے ہم پاکستانیوں کو ایک اعلیٰ معیار کی قوم بناسکتے ہیں۔ لیکن اگر یہ موقع ضایع کردیا تو پھر کسی بڑی آزمائش سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ جس طرح پہلے کہا گیا ہے۔ ہر بحران کی کوکھ سے کارآمد مواقع (opportunities) جنم لیتے ہیں اور جنگ کے نتیجے میں قومیں بنتی بھی ہیں اور فنا کے گھاٹ بھی اتر جاتی ہیں۔

حالیہ پاک بھارت جنگ سے پاکستان میں ایک نئی قوم نے جنم لیا ہے۔ ایک پُراعتماد، بہادر، غیرت مند، خوددار۔ اپنے دست وبازو پر بھروسہ کرنے والی اور اپنے مستقبل کے بارے میں پرامید قوم۔ اِس فتح نے پاکستان کو ایک تاریخی موقع عطا کیا ہے جسے بروئے کار لاکر ہم قوم کے اندر پائے جانے والے حُب الوطنی کے جذبے کو قومی یکجہتی میں ڈھال سکتے ہیں اور اس ملک کے تمام صوبوں اور علاقوں میں رہنے والے باشندوں کو ایک متحد اور مضبوط قوم میں تبدیل کرسکتے ہیں۔

یہی ہدف ہماری ترجیحِ اوّل ہونا چاہیے۔ قومی یکجہتی کے حصول کے علاوہ ایک اعلیٰ اخلاق وکردار کی حامل قوم تیار کرنا،ملک کے ہر ادارے میں انصاف کو یقینی بنانا، اورتمام قومی اداروں اور میڈیا کی نظریاتی سمت کو بانیانِ پاکستان کے افکار اور نظریات سے ہم آہنگ کرنا۔ ہمارے بڑے اھداف ہونے چاہئیں۔

سب سے پہلے ہدف یعنی قومی یکجہتی کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ قوم کے ناراض اور aggrieved افراد کی شکایات کا ہمدردانہ جائزہ لیا جائے اور ان کے ساتھ نرمی اور عفوودرگذر کا طرزِ عمل اختیار کیا جائے۔ ناراض عناصر میں ایک بڑی پارٹی پی ٹی آئی ہے۔

اس سے تعلق رکھنے والے جو افراد 9 مئی کے حملوں میں ملوّث تھے، ان کا ٹرائیل مکمل کرکے انھیں سزائیں دلوائی جائیں اور جن بدبختوں نے حالیہ پاک بھارت جنگ میں وطنِ عزیز کے محافظوں کی مخالفت کی اورجو دشمن کے حامی اور ہمنوا بن کر ان کا بیانیہ پھیلاتے رہے وہ ناقابلِ معافی جرم کے مرتکب ہوئے ہیں، انھیں بھی قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ مگر جو لوگ محض سیاسی مخالفت یا پارٹی سے وابستگی کی بناء پر جیلوں میں بند ہیں، ان کے ساتھ نرمی کی جائے۔

فوری طور پر پی ٹی آئی کی خواتین کو رہا کردیا جائے اور شاہ محمود قریشی جیسے اعتدال پسند راہنما اگر وہ تشدّد کی کسی کارروائی میں ملوّث نہیں رہے، انھیں بھی رہا کرنا چاہیے۔ جہاں تک بلوچستان کے ناراض عناصر کا تعلق ہے، ان کا بھی نئے سرے سے جائزہ لیا جائے، جو افراد سیکیوریٹی فورسز پر حملوں میں ملوّث رہے ہیں، ان کا ٹرائل کرکے سزائیں دلائی جائیں اور جو عملی طور پر ایسی کاروائیوں میں ملوّث نہیں رہے، ان کے ساتھ بھی نرمی اختیار کی جائے اور کچھ شرائط کے ساتھ انھیں قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔

بلوچستان کے بارے میں جو فیصلہ ساز ماہرنگ بلوچ اور مولانا ہدایت الرحمن میں ہی فرق نہیں کرسکے اور دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہے ہیں وہ یقیناً دانش، تدبّر اور قومی سوچ سے محروم ہیں۔ بلوچستان کے بارے میں وہاں کے حقیقی نمایندوں پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے جس میں مولانا ہدایت الرحمن، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نوابزادہ زھری کو ضرور شامل کیا جائے۔ فوری کرنے والے اور longterm اقدامات کے بارے میں ان کی سفارشات کا صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف اکٹھے بیٹھ کر جائزہ لیں اور ایسے فیصلے کریں جن سے قومی یکجہتی اور اتحاد کمزور ہونے کے بجائے مضبوط ہو۔

قومی یکجہتی کے لیے ایک چیز جو زہرِ قاتل کی حیثیّت رکھتی ہے وہ ہے اوورسیز پاکستانیوں کا میزبان ملک کی سیاست میں حصّہ لینے کے بجائے پاکستان کی سیاست سے چمٹے رہنا اور آپس میں گالم گلوچ اور لڑائی مارکٹائی کا مظاہرہ کرکے پوری دنیا میں وطنِ عزیز کی بے عزّتی اور جگ ہنسائی کا موجب بننا۔ راقم اس سلسلے میں بارہا لکھ چکا ہے کہ خدارا اوورسیز پاکستانیوں کو تقسیم نہ ہونے دیں۔ بیرونی ملک رہنے والے پاکستانی متحد رہیں اور وہاں کی سیاست میں حصہ لے کر اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کریں۔

اب وقت آگیا ہے کہ اسلام آباد کی حکمران جماعتیں خود پہلا قدم اٹھائیں اور دوسرے ملکوں میں اپنی پارٹیوں کی تمام شاخیں اور دفاتر ختم کردیں۔ اس سلسلے میں قانون سازی بھی کرنی پڑے تو ضرور کی جائے کہ بیرونِ ممالک میں رہنے والے پاکستانی پاکستان کی کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ نہیں ہوسکیں گے اور نہ ہی کسی پارٹی کا دفتر کھولیں گے اور نہ ہی پاکستان کی کسی سیاسی پارٹی کا جھنڈا اٹھائیں گے۔ وہاں تمام پاکستانی متحد ہوکر قومی تقریبات منائیں جہاں صرف اور صرف پاکستانی پرچم بلند ہو اور اس کے علاوہ کوئی اور پرچم نظر نہ آئے۔

ہمارا دوسرا ہدف ایک اعلیٰ اخلاق وکردار کی حامل قوم کی تشکیل ہونا چاہیے۔ فتح کے ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر ہم یہ ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ جنگ کی فتح سے بھی بڑی فتح ہوگی۔ اِس وقت ہماری قوم جن دو بڑے امراض کا شکار ہے وہ ہیں اخلاقی گراوٹ اور احساسِ کمتری۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ مغرب سے مرعوبیت اور غلامی ہماری نس نس میں سرایت کرچکی ہے۔ بددیانتی، جھوٹ، فراڈ اور دھوکہ دہی کا زہر ہماری رگوں میں خون کی طرح دوڑنے لگا ہے۔

اس سے زیادہ دکھ کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ بیرونِ ممالک تمام جیلوں میں سب سے زیادہ تعداد پاکستانیوں کی ہے۔ یہ ایسے شرمناک حقائق ہیں جن کی وجہ سے ہمارے حکمرانوں کی نیندیں حرام ہو جانی چاہیئیں۔ فتح وکامرانی کے اس ماحول کو استعمال کرتے ہوئے، معاشرے کے مختلف شعبوں کے پاکیزہ کردار اور نیک نام افراد کی مشاورت سے ایسا نسخہ اور ایسا علاج تلاش کیا جائے جس سے قوم کے نوجوان ان بیماریوں سے نجات حاصل کرلیں۔ اس کے لیے کردار سازی کے لیے بڑے بھرپور انداز میں جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

یورپ اور مڈل ایسٹ جانے والے مزدوروں اور زائرین کے لیے دو ہفتے کا تربیتی کورس ترتیب دیا جائے جس میں منتخب شدہ گیسٹ اسپیکرز ان سے خطاب کریں جو ان کا احساسِ تفاخر بیدار کرکے انھیں اچھی طرح باور کرائیں کہ تم ایک فاتح قوم کے شہری ہو۔ تم اس ملک کے نمایندے ہو، جس کا اب پوری دنیا میں بے حد احترام اور وقار ہے، اس لیے تم پر لازم ہے کہ کبھی کوئی ایسا کام نہ کرو جس سے پاکستان کی عزّت پر داغ لگے اور تمہارے ملک کا نام بدنام ہو۔

سفارتخانوں کو سخت ہدایات دی جائیں کہ وہ بھی پاکستانی باشندوں کو monitor کرتے رہیں۔ اور اس ضمن میں کمیونیٹی سے بھی معلومات لیتے رہیں۔ جونہی کوئی باشندہ مشکوک حرکات کا مرتکب پایا جائے۔ سفارتخانہ خود اس کا نوٹس لے اور اسے فوراً deport کرادے۔ اور پھر آیندہ دس سال کے لیے اس پر اور اس کی پوری فیمیلی پر بیرونِ ملک سفر پر پابندی لگادی جائے۔

گھر اور اسکول۔ جو کبھی سب سے بنیادی اور سب سے موثر تربیت گاہیں ہوتی تھیں کچھ عرصے سے غیر فعال ہوچکی ہیں، انھیں پھر سے فعال کیا جائے، گھر اور اسکول میں بچوں کو اچھائی برائی، حلال وحرام اور قانون کے احترام کے بارے میں sensitise کیا جائے۔ اس کے علاوہ جھوٹ، بددیانتی، نشہ، چوری اور بدکاری سے نفرت نوجوانوں کے رگ وپے میں اتاردی جائے اور سچائی، دیانتداری اور سادگی کی اہمیّت ان کے دلوں میں راسخ کردی جائے۔

اس سلسلے میں میڈیا کو ساتھ ملایا جائے اور آڈیوز اور وڈیوز کے موثر استعمال سے نوجوانوں کی تربیّت کی جائے۔ ہر سطح پر سادگی کا چلن رائج کیا جائے اور مہنگے ملبوسات، بڑے بنگلوں اور مہنگی کاروں کی حوصلہ شکنی جائے مگر تربیّت کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ حکمران اور افسران خود مثال بنیں۔

لاکھوں روپے کے کپڑوں میں ملبوس حکمران سادگی کا درس دینگے تو کوئی نہیں سنے گا۔ اگلے ھدف کا حصول انتہائی اہم ہے حکمران اس بات کو یقینی بنائیں کہ شہریوں کو ہر ادارے سے انصاف ملے۔ اگر شہریوں کا عدالتوں اور نظامِ انصاف پر سے اعتماد اٹھ جائے تو پھر وہ ریاست سے لاتعلق ہوجاتے ہیں۔ اور آخری مگر سب سے ضروری بات یہ ہے کہ تمام قومی اداروں خصوصاً میڈیا کی نظریاتی سمت کو پاکستان کے بانیوں کے افکار اور نظریات سے ہم آہنگ کیا جائے۔ اس پر تفصیل سے لکھوں گا۔





Source link