روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے بعد دنیا کے بہت سے ممالک اپنی توانائی کی حکمت عملی تبدیل کر رہے ہیں، جس کی ایک مثال ترقی یافتہ ملک جرمنی کی ہے۔ اس جنگ کے باعث پیدا ہونے والی جغرافیائی، سیاسی کشیدگیوں کے سبب انرجی سیکیورٹی بڑھ گئی ہے اور توانائی کی رسد کے حوالے سے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔
اگرچہ بہت سے ممالک قابل تجدید توانائی کے ذرایع پرکام کر رہے ہیں، تاہم بجلی کی طلب کو مستقل بنیادوں پر پورا کرنے لیے کوئلہ مستحکم بیس لوڈ سپلائی کے لیے ضروری سمجھا جارہا ہے، خاص طور پر اُن اوقات میں جب قابل تجدید توانائی کی پیداوارکم ہو۔
کوئلے پر انحصار اس کی توانائی کے قابل اعتماد ذرایع کے طور پر اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، جو ایک پائیدار توانائی کے نظام کے لیے ضروری ہے۔ ایک اور مثال جاپان کے فوکوشیما جوہری حادثے کی ہے، جس کے نتیجے میں جاپان نے جوہری توانائی کے متبادل کے طور پر کوئلے پر انحصار بڑھادیا اور توانائی کی ضروریات کے پیش نظر کوئلے کو مرحلہ وار ختم کا مرحلہ سست روی کا شکار ہوگیا۔
فوکوشیما حادثہ 11 مارچ 2011 کو اُس وقت پیش آیا، جب جاپان میں زلزلہ اور سونامی نے تباہی مچا دی، جس کے نتیجے میں فوکوشیما ڈائیچی نیوکلیئر پاور پلانٹ تباہ ہوگیا، اس کے تین ری ایکٹرز میں کولنگ سسٹم ناکارہ ہوگیا اور زبردست دھماکے و تابکاری سے آس پاس کے علاقوں میں آلودگی پھیل گئی۔1986 میں ہونیوالے اس حادثے کو چرنوبل کے بعد سب سے بڑا جوہری حادثہ سمجھا جاتا ہے۔
کیونکہ اس سے نہ صرف بڑے پیمانے پر انخلا ہوا بلکہ ماحولیات کو بھی شدید نقصان پہنچا اور بہت سے ممالک اپنی جوہری توانائی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوگئے۔ کوئلے سے بجلی کی پیداوار میں 2024 سے 2026 کے دوران سالانہ 2.5 فیصد اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جو اس بات کا مظہر ہے کہ توانائی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے کوئلہ اب بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔
پاکستان میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر سب کریٹیکل یا سپرکریٹیکل ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں۔ اس وقت کوئلے سے چلنے والے صرف دو بجلی گھر سپرکریٹیکل ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں، جو کوئلے سے بجلی کی پیداوار اور ماحولیاتی اثرات کے لحاظ سے اہم ہے۔
ان میں ایک لکی الیکٹرک پاور کمپنی ہے، جس کی پیداواری صلاحیت 660 میگاواٹ ہے اور کارکردگی کی شرح 39 فیصد ہے، جب کہ دوسرا منصوبہ ساہیوال کول پاور پروجیکٹ ہے، جو ہوانینگ شینڈونگ روی (Huaneng Shandong Ruyi) کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کی پیداواری صلاحیت 1320 میگاواٹ اور کارکردگی کی شرح 40 فیصد ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کو محدود پیمانے پر اپنانا اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ ملک میں کوئلے سے بجلی کی پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) کے یو ایس پاکستان سینٹر فار ایڈوانسڈ اسٹڈیز ان انرجی (USPCAS-E) کی جانب سے شایع وائٹ پیپر بعنوان ’’ پاکستان میں انرجی سیکیورٹی کے حصول کے لیے درآمد ی کوئلے سے مقامی کوئلے پرمنتقلی: مواقع اور چیلنجز‘‘ میں بین الاقوامی مثالوں کی مدد سے پاکستان کے کوئلے کے ذخائر کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے، جو توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
ماہرین نے درآمدی کوئلے کے مقابلے میں مقامی کوئلے کو ملک کے مفاد میں قرار دیتے ہوئے انرجی سیکیورٹی اور بجلی کے شعبے میں پائیداری پر زور دیا ہے۔ اس وائٹ پیپر کا اجرا جو قابلِ اعتماد اعداد و شمار پر مبنی ہے، اس منتقلی سے متعلق مباحثوں کی توثیق کرتا ہے اور اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے کہ مقامی وسائل کے مؤثر استعمال سے پاکستان کو توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔
کوئلہ پاکستان کے لیے ’’سیاہ ہیرا‘‘ یا ’’ہیروں کا خزانہ‘‘ ثابت ہوسکتا ہے، جس کے ذخائر کا تخمینہ تقریباً 185 ارب ٹن ہے۔ 175 ارب ٹن کوئلہ تو صرف تھرپارکر میں موجود ہے، جو دنیا میں لیگنائٹ(Lignite) کوئلے کے سب سے بڑے ذخائر ہیں۔
وائٹ پیپر کے مطابق یہ ذخائر تقریباً 200 سال تک 100,000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جو کہ قابلِ اعتماد، کم لاگت اور مقامی توانائی فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اس قدرتی وسیلے کے مؤثر استعمال سے نہ صرف ایندھن کی درآمد پر اٹھنے والے اخراجات میں نمایاں کمی لائی جاسکتی ہے بلکہ توانائی کے نظام کے لیے مستحکم ’’بیس لوڈ‘‘ (Baseload) کو بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
مقامی کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت درآمدی کوئلے سے پیدا کی جانے والی بجلی کے مقابلے میں تقریباً نصف ہے، جو اسے سستی بناتی ہے۔ اس لیے ایسے توانائی مکس کو ترجیح دینا جو مقامی وسائل سے حاصل ہو، ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔پاکستان کے کوئلے سے چلنے والے متعدد بجلی گھر درآمدی کوئلے پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، جن کی مشترکہ پیداواری صلاحیت 8,580 میگاواٹ ہے۔
ان سپرکریٹیکل پاور پلانٹس میں 100 فیصد سب بٹومینس (Sub-Bituminous) کوئلہ استعمال کیا جاتا ہے، جس میں نمی کی زیادہ سے زیادہ حد 30 فیصد ہے۔ تھرپارکر کا کوئلہ اب بھی پلانٹ بوائلر چلانے کے لیے کسی بھی عالمی معیار کو نظرانداز کیے بغیر 20 فیصد مکس لے سکتا ہے۔
یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ جہاں کچھ بجلی گھر مکمل طور پر مقامی کوئلے پر چل رہے ہیں، وہیں وہ بجلی گھر جو درآمدی کوئلہ استعمال کررہے ہیں وہ بھی تھرپارکر میں پائے جانے والے مقامی کوئلے سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ مزید یہ کہ تھرپارکر کے کوئلہ کے بلاکس کو وسعت دینے سے توانائی کی لاگت میں نمایاں کمی ہوگی۔
نتیجے میں بجلی کی قیمت مزید کم ہوجائے گی، جس سے معیشت قومی معیشت کو بڑے پیمانے پر فائدہ ہوگا۔ جام شورو کول پاور پلانٹ کو درآمدی کوئلے سے مقامی کوئلے پر منتقل کیا جارہا ہے، جو پاکستان کی توانائی میں خودکفالت اور تحفظ کے حوالے اہم ہے۔ صارفین کے لیے بجلی کو قابل استعداد بنانے کے حوالے سے کے۔ الیکٹرک کی مقامی کوئلے میں منتقلی کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔
وائٹ پیپر میں بتایا گیا ہے کہ اس تبدیلی سے دیگر فوائد کے ساتھ ساتھ پاکستان کو مجموعی طور پر 2 ارب ڈالرز سے زائد کا معاشی فائدہ ہوگا۔ توقع ہے کہ اس منتقلی سے توانائی کے اخراجات میں کمی اور انرجی سیکیورٹی میں اضافے سے ملک کے معاشی منظر نامے میں نمایاں بہتری آئے گی۔
یہ منتقلی ایندھن کی درآمدات پر انحصار کم کرنے کی حکومتی حکمت عملی کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے، جس کا مقصد ایندھن کی درآمدات پر انحصار کو کم کرنا ہے، جو توانائی کی بڑھتی ہوئی عالمی قیمتوں کے پیش نظر باعث تشویش ہے۔ مقامی کوئلے کے استعمال سے نہ صرف مستحکم اور قابل اعتماد بیس لوڈ سپلائی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے بلکہ یہ مقامی صنعتوں کی ترقی اور کوئلہ نکالنے والے علاقوں میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں معاون بھی ثابت ہوگا۔
خاص طور پر تھر پارکر میں جہاں کوئلے وسیع ذخائر ابھی تک غیر استعمال شدہ ہیں۔جام شورو پاور پلانٹ اور ممکنہ طور پر کوئلے سے چلنے والے دیگر پاور پلانٹس کی مقامی کوئلے پر منتقلی سستی توانائی کی مستقل بنیادوں پر فراہمی یقینی بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہے، جس سے بالآخر پاکستانی عوام کو فائدہ ہوگا۔ اس منتقلی سے سالانہ بنیاد پر ملک کو 800 ملین ڈالرز کی بچت ہوگی جس سے بجلی کی قیمتوں میں 3 روپے فی یونٹ کی کمی آئے گی اور صارفین کو تقریباً 1.2 ارب ڈالرز کا ریلیف ملے گا۔اب سوال یہ ہے کہ قوم کے بہترین مفاد میں یہ منتقلی درست ہے یا نہیں؟