پھر سب جل جاتا ہے، جب گھر کو آگ لگتی ہے، گھر کے چراغ سے۔ بنگلہ دیش جیتی جاگتی مثال ہے۔ گولی کا جواب کبھی گولی نہیں ہوتی، پتھر کا جواب کبھی اینٹ نہیں ہوتی۔ جنگ اور امن کے اس پس منظر کو ٹالسٹائی نے اپنے شاہکار ناول میں اس کی منظر کشی کی ہے۔ 1970 میں ایک بڑی گھمسان کی جنگ ہوئی، اپنے ہی لوگوں کا خون بہا تھا۔
ایک طرف سے الشمس اور البدر تھی، ادھر سے مکتی باہنی تھی۔مشرقی پاکستان بنگہ دیش بنا شیخ مجیب کے لیے سب سے بڑا چیلنج تھا مکتی با ہنی کے جنگجوؤں کو اسلحے سے پاک کرنا، ان کو پیداواری کاموں پر لگانا۔ لگاتے لگاتے وہ خود مارے گئے بمع اہل و عیال۔ پھر مارشل لاء آیا۔ جب شیخ مجیب جیتے تھے، ستر کے انتخابات میں تو مشرقی پاکستان میں جو دوسرے نمبر پر ووٹ لینے والی پارٹی تھی، وہ جماعت اسلامی تھی۔ مجیب، بنگلہ دیش کی بنیادوں میں سیکولر ازم ڈال گئے، آمریتوں نے اس کے آئین سے سیکولر ازم نکال دیا، شیخ حسینہ اس حد تک تو نہیں جو ان کے والد سیکولر ازم کا بیج ڈالا تھا، اس نے سیکولر ازم کی بنیادوں کو بحال کیا۔ تشدد ہے کہ جاتا نہیں، کل انھوں نے تشدد کیا۔
آج شیخ حسینہ کی حکومت نے تشدد کیا اور پھر عوامی لیگ کے مخالفوں نے اس بار جو تشدد کی روایت ڈالی ہے، اس کی بھی کوئی مثال نہیں، یہاں تک رابندر ناتھ ٹیگور جیسے عظیم بنگالہ شاعر کو بھی نہیں چھوڑا، یہ تو اس طرح ہے کہ کوئی سندھی جا کر شاہ لطیف بھٹائی کے مزار کو مسمار کردے۔ اٹھا اٹھا کے، چن چن کے عوامی لیگ کے لوگوں کے گھروں میں گھس کے مارا جا رہا ہے۔
شیخ حسینہ نے جن آ ہنی ہاتھوں سے ان کو کچلنا چاہا، آج وہ انھی آ ہنی ہاتھوں سے عوامی لیگ کو کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیکولرازم سچ ہوگا مگر زبردستی تھوپا نہیں جاسکتا۔ کل یہ کوشش کمال اتا ترک نے ترکیہ میں کی تھی۔ ایک زمانے کے بعد لوگ اس سیکولر ازم کو بیلٹ باکس میں رد کرکے آگئے۔
پھر کیا ہوا اردگان نے نریندر مودی کی طرح دائیں بازو کے پاپولر ازم سے ترکیہ میں سیکولر ازم کو کمزور کرنے کی کوشش کی اور پھر پچھلے سال اردگان کو لوکل باڈیزکے الیکشن میں بری طرح ہرایا اور سیکولر ازم فورسز جیت گئیں، اس بار استنبول کا میئر ایک سیکولر ہوا ہے۔ مودی نے جو رام مندرکی بنیاد ڈالی تھی پچھلے سال، بابری مسجد کو مسمارکر کے ، وہ آج اس ہندوستان کا وزیراعظم تو ہے مگر اس کی پارٹی جس نے پچھلی الیکشن دو تہائی اکثریت لے کے آئی تھی، اس بار وہ ہارگئی۔
اس طرح بنگلہ دیش سے بھی سیکولر طبقہ کہیں نہیں جاتا، فیض کی ان سطروں کے طرح۔
گر آج تجھ سے جدا ہیں
توکل بہم ہوں گے
یہ رات بھرکی جدائی تو کوئی بات نہیں
گر آج اوج پر ہے طالع رقیب توکیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
کیونکہ مستقبل سیکولر ازم کا ہے۔ مستقبل ریاست اور مذہب کے الگ الگ ہونے کا ہے۔ اکبر بادشاہ نے جو ہندوستان کو طویل عرصے تک بغیر بغاوتوں کے ایک ساتھ،اکٹھا کرکے چلایا تھا، اس نے ہندوستان کے مختلف مذاہب کے بیچ اس امن و بھائی پیدا کرنے کی کوشش کی، سب کو مذہبی آزادی دی، اپنے زماں و مکاں کے پس منظر میں وہ سیکولر تھے۔ اس کے پڑ پوتوں میں جب اورنگزیب بادشاہ بنے،اپنے پڑدادا کی، ان روایتوں کو توڑ مروڑ دیا۔ شیخ مجیب اپنے سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ ’’جب جوانی کے زمانوں میں وہ آگرہ گئے تھے، تو ان کو جو سکون اکبر بادشاہ کے مزار پر ملا، سو کہیں نہیں ملا۔ رابندر ناتھ ٹیگورکیا تھا، سیکولر سوچ رکھنے والے شاعر تھے۔ ہمارے شاہ بھٹائی، بھلے شاہ یا باہو ہو، ہمارے کبیرکیا تھے۔
پاکستان کی تاریخ میں ایک صرف جناح کھڑے ہیں، جو یہ لکھتے ہیں کہ وہ کمال اتا ترک سے بہت متاثر ہیں اور دوسری طرف کھڑے ہیں، جنرل ضیاء الحق اور دونوں کے بیچ کھڑے ہیں۔ ذوالفقارعلی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف۔ کل کے نوازشریف نہیں جو جنرل ضیاء الحق کے ساتھ کھڑے تھے، میں بات کررہا ہوں، آج کے نواز شریف کی جو جنرل ضیاء الحق والی قوتوں کے سامنے کھڑے ہیں۔
ہندوستان میں جس گاندھی کو مودی نے توڑنے کی کوشش کی، آج وہ گاندھی پھر سے مضبوط ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ پاکستان میں جناح جس طرح اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے وہ اس طرح واپس نہ بھی لوٹے لیکن جنرل ضیاء الحق کے فلسفے کے ساتھ کھڑے ہیں، اسمگلر، اسلحہ و منشیات کا کاروبارکرنے والے اور ان کے ساتھ کھڑے ہیں عمران خان۔ جس نے پاکستان میں تشددکی سیاست کو متعارف کروایا۔ گالم گلوچ کی روایت ڈالی۔ پٹرول بم پھینکنا تو بہت چھوٹی بات تھی۔ موصوف پڑھے لکھے آکسفورڈ سے ہیں لیکن دینا اسلامک ٹچ چاہتے تھے۔ وہ ملک کو ریاست مدینہ بنانا چاہتے تھے لیکن جو تصدیق شدہ ان کے فون ریکارڈز پر آئے وہ کچھ اور بتاتے ہیں۔ آپ اسمگلنگ و منشیات کے کاروبارکو برا نہیں سمجھتے تھے،وہ کنسٹرکشن کے بڑے بڑے بلڈرز کے ساتھی تھے۔ ان کو جو مل جائے، جمہوریت مل جائے، آمریت مل جائے بس اقتدار چاہیے۔ پاکستان کو اگر کسی نے خانہ جنگی کے دوراہے پر لا کے کھڑا کیا وہ عمران خان تھے۔
نو مئی کیا تھا؟ ریاست کو دعوت تھی کہ وہ الجھے۔ ریاست نہیں الجھی۔ جس کے نتیجے میں جنھوں نے الجھانا چاہا وہ اپنا اخلاقی موقف ہار بیٹھے۔ یہ سب اقتدار پر زبردستی قبضہ کرنے کی کوشش تھی، ناکام ہوئی، لیکن جس دور اندیشی سے ریاست نے یہ سب ہوتے دیکھا، اس برجستگی کی کوئی مثال نہیں۔ کیوں کہ یہ اپنے بھٹکے ہوئے لوگ تھے۔ ہم اس طرح تشدد سے آمنے سامنے ہونے سے بچ گئے، مگر اس کے برعکس بنگلہ دیش میں جوکہ مظاہرے تھے وہ پر امن مظاہرے تھے۔ معاملہ وہاں سے بگڑا جب ریاست نے گولی چلائی۔ پھر تو سارے عذاب ابل پڑے۔ لوگوں نے کہا ہم رضاکار ہیں۔ سارا بیانیہ ٹوٹ گیا۔
میں جب بھی ڈھاکا گیا وہاں دوستوں سے ملاقاتیں ہوتی تو یہی کہتا کہ کب تک یہ بیانیہ چلتا رہے گا۔کیا کوئی بیچ والا راستہ نکل سکتا ہے؟ پاکستان میں مجموعی طور پر ندامت کا احساس ہے مگر آپ کی طرف سے برف پگھلے تو کوئی بات بنے، بدنصیبی سے عوامی لیگ اپنی سیاست کا محور اس بیانیہ کا بنا بیٹھی۔ یہ بیانیہ ان کا روٹی اور پانی بن گیا اور بلآخر اس بیانیے سے لوگ اکتا گئے لیکن بنگلہ دیش سے سیکولر ازم کا بیانیہ، اس کی جدوجہد کہیں نہیں جاتی نہ سیکولر قوتیں جاتی ہیں نہ سیکولر مخالف قوتیں۔
سوال یہ ہے کہ دنیا جا کہاں رہی ہے۔ منطق کیا ہے، سچ کیا ہے اور ہمیں آگے کے راستے کیسے نکالنے ہیں؟ کوئی بھی ریاست اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کیے بغیر چل نہیں سکتی۔ مضبوط معیشت چاہیے۔ شیخ حسینہ واجد نے جو بھی ہو بنگلہ دیش کو معاشی اعتبار سے ان غریب ممالک میں سب سے تیزی سے آگے نکلنے والی ریاست بنا دیا۔ ہر اعتبار سے وہ چاہے جان مینارڈ کینس کی تھیوری کے مطابق ہو یا غربت کی لکیر سے اوپر اٹھانے کے لیے جو Human Development Index ہے جس کو sustainable growth بھی کہا جاتا ہے وہ ہو ۔ مگر جمہوریت کے ذریعے شیخ حسینہ کو ہٹانا ممکن نہ رہا۔ اس کے برعکس ہندوستان میں بھی ایک آمریت پیدا ہوئی ہے، مودی کی شکل میں وہاں لیکن الیکشن شفاف ہوتے ہیں۔ مودی کو شکست دی جاسکتی ہے، جو سبق ہمیں بنگلہ دیش کی صورتحال سے سمجھنے اور سیکھنے کو ملتا ہے وہ یہ ہے بھلے آپ کتنی بھی معاشی مضبوطی دیں مگر جمہوریت اگر نہیں دے سکتے تو لوگ آپ کے خلاف اٹھ کے کھڑے ہوجائیں گے۔