افتخار گیلانی سے پہلا با معنی تعارف تو ایک ایسے شخص کے ذریعے ہوا جو آج اسلام اور پاکستان دشمنی میں ہر حد عبور کر گیا ہے۔ یہ پشپندر تھا۔ پشپندر دلی پریس کلب کا صدر اور آج ٹی وی کا بھارتی دارالحکومت میں نمایندہ تھا۔ ایک بار وہ کراچی آیا تو میرے لیے افتخار گیلانی کی کتاب لیتا آیا۔ افتخار گیلانی نے اس کتاب میں تہاڑ جیل میں اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی روح فرسا داستان قلم بند کی تھی۔ کتاب کا نام تھا
’ تہاڑ میں میرے شب و روز۔‘
اس کتاب کے مطالعے کے لیے شیر کا جگر اور سید علی گیلانی علیہ رحمہ والا حوصلہ چاہیے۔ اس جیل میں جانے والے پر جو گزرتی ہے، اس کا تصور اس جدید ترقی یافتہ جمہوری دور میں بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے یقین ہے کہ ماضی کے تاریک ادوار میں ایسی کوئی مثال نہیں ملے گی۔افتخار گیلانی نے لکھا ہے کہ وہ جیسے ہی جیل میں داخل ہوئے، جیل کے جلاد صفت کارندوں نے انھیں ایک ٹوائلٹ میں دھکیل دیا جو ناکوں گندگی اور بول و براز سے بھرا ہوا تھا۔ حکم یہ تھا کہ اسے صاف کر دو، صرف صاف نہ کر دو بلکہ چمکا دو۔ کیسے؟ صاف کرنے کے لیے درکار اشیا میں سے کچھ بھی انھیں فراہم نہیں کیا گیا۔ ناچار یہ کام انھوں نے اپنے کپڑوں سے کیا۔ یہی جیل کی روایت بھی تھی۔ اس جیل میں ان کا استقبال ایسے ہوا۔ آیندہ جتنا عرصہ بھی انھوں نے اس جیل میں گزارا، یہ اس کا پیش لفظ تھا، اس کے بعد ان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ہو گا، اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
چند روز ہوتے ہیں کہ استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر شہزاد اقبال شام نے فون پر پوچھا کہ افتخار گیلانی کو جانتے ہو؟ عرض کیا کہ کیوں نہیں؟ کہنے لگے کہ چلے آؤ۔ افتخار آئے بھی ہوئے ہیں اور ان کی کتاب کی رونمائی بھی ہے۔ یہ کتاب ہے، ‘ اکیسویں صدی کا بھارت اور مسلمان’۔ یہ کتاب برسوں پر پھیلی ہوئی ان کی تحریروں کا مجموعہ ہے جسے آئی پی ایس نے شایع کیا ہے اور نوجوان محقق اسامہ حمید نے بڑی سمجھ داری اور نفاست کے ساتھ اسے یوں مرتب کیا ہے کہ آج کا بھارت، اس کی نفسیات، عزائم اور وہاں بسنے والے مسلمانوں کا حال اور مستقبل نہایت آسانی کے ساتھ سمجھ میں آ جاتا ہے۔ افتخار گیلانی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ نئی دلی میں رہتے ہوئے بھی انھوں نے بڑی جرات کے ساتھ یہ جائزے اور تجزیے لکھے اور انھیں شایع کرانے کی ہمت کی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اسامہ حمید کے کریڈٹ پر علمی تحقیقی میدان میں اور کیا کچھ ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ بھارت شناسی کے تعلق سے ان کا مرتب کردہ مجموعہ نہ صرف یہ کہ ایک بنیادی دستاویز کی صورت اختیار کر جائے گا بلکہ خود ان کے اپنے تحقیقی اور علمی تعارف کا بھی معتبر ذریعہ بن جائے گا۔
افتخار گیلانی کی یہ کتاب آر ایس ایس کے تعارف، تنظیم، طریقہ کار اور دیگر مذاہب کے ضمن میں اس کے انداز فکر اور طرز عمل کے مختصر مگر وقیع جائزے سے شروع ہو کر مسلمانوں کی شناخت، ان کے مظاہر، اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ ریاست کے رویے، بھارتی سیکولرز کی حقیقی تصویر، کشمیر اور آسام میں متعارف کروائے نئے قوانین اور مسلمانوں کے لیے ان کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل سے ہوتے ہوئے جہاد اور دہشت گردی جیسے مسائل کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کتاب کے تفصیلی تعارف کی بھی ضرورت ہے لیکن اس وقت ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اس نشست میں ہونے والی گفتگو پر توجہ مرکوز کی جائے۔
نشست کی صدارت سابق سیکریٹری خارجہ جناب سہیل محمود نے کی۔ بھارت کے حالات پر گفتگو کرتے ہوئے سہیل محمود صاحب اور جناب افتخار گیلانی، دونوں اہل علم نے جس بات پر سب سے زیادہ پریشانی کا اظہار کیا یہ تھا کہ ہمارے یہاں یعنی پاکستان میں بھارت شناسی کا فقدان ہے۔ بھارت کے بارے میں ہمارے یہاں جتنی کتنی بھی انڈر اسٹینڈنگ پائی جاتی ہے، بہت سطحی ہے۔ کچھ باتیں سنی سنائی ہوتی ہیں اور کچھ ٹوٹی پھوٹی خبروں کے ذریعے۔ ٹوٹی پھوٹی خبروں کا معاملہ بھی دل چسپ ہے۔ اس کا ذکر خالد رحمن نے کیا۔ وہ بتانے لگے کہ اخبار کی ویب سائٹ پر ڈاکٹر شہزاد اقبال شام کا کالم پڑھتے ہوئے چاہے نہ چاہے بالی ووڈ کی خبروں پر بھی نظر پڑجاتی ہے۔ پاکستانی اخبارات پڑھیں تو ایسا لگتا کہ بھارت میں بالی ووڈ کی حسیناؤں کی سرگرمی کے سوا کچھ اور ہے ہی نہیں۔ یہ ایک عمومی مشاہدہ ہے جب کہ جناب سہیل محمود اور جناب افتخار گیلانی کے اس ضمن میں ذاتی تجربات ہیں جو بڑے چونکا دینے والے ہیں۔
افتخار گیلانی کو بابری مسجد کی شہادت کا تاریخی مقدمہ یاد ہے جو طویل عرصے تک چلایا تو گیا لیکن انصاف کی منزل تک کبھی نہ پہنچ سکا۔ وہ بتاتے ہیں کہ بابری مسجد کی شہادت کے وقت ایک صاحب اس واقعے کی تصاویر بنانے میں کام یاب ہو گئے تھے جن کی مدد سے اصل مجرموں تک پہنچنا ممکن تھا۔ ان صاحب کو گواہ بنا لیا گیا۔ طویل عرصے تک انھیں پیشیوں میں طلب تو کیا جاتا رہا لیکن گواہی کی نوبت کبھی نہ آ سکی جس پر انھوں نے احتجاج کیا تو عدالت نے گواہی کے لیے کوئی تاریخ مقرر کر دی۔ یہ تاریخ قریب آئی تو انھیں ڈرایا دھمکایا جانے لگا۔ انھوں نے عدالت کو آگاہ کیا تو اس نے اصل مقدمے کو چھوڑ کر دھمکی کے بارے میں سماعت شروع کر دی۔ کئی ماہ اسی قضیے میں گزر گئے تو انھوں نے عدالت سے ایک بار پھر احتجاج کیا تو عدالت کا کہنا تھا کہ پہلے دھمکیوں کا معاملہ طے پا جائے پھر آگے بڑھتے ہیں۔ یوں تنگ آکر انھوں نے اپنی دھمکیوں والا الزام واپس لے لیا۔ بابری مسجد کے معاملے کی سماعت اس کے باوجود جوں کی رفتار سے چلی۔ افتخار گیلانی کہتے ہیں کہ بھارت میں اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو انصاف کی فراہمی کا ماڈل یہی ہے۔
سہیل صاحب نے بتایا کہ انھیں جمعیت علمائے ہند کے ایک راہ نما نے بتایا کہ کوئی دن نہیںجاتا جب بھارت کے مسلمانوں کو قیام پاکستان کی سزا نہ ملتی ہو۔ بھارت کے حکمران خواہ وہ جو کوئی بھی ہوں کھلے عام کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے پاکستان بنا کر اپنا حصہ وصول کر لیا اب بھارتی ریاست سے کوئی مطالبہ کرنے کا انھیں کوئی حق نہیں ہے۔ مسلمان اور مسلمانوں کے ادارے بھارت میں غیر محفوظ ہیں۔