بنگلہ دیش میں طلبہ کا احتجاج رنگ لے آیا، فوج نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا۔ عوام جشن منانے سڑکوں پر نکل آئے۔ وزیراعظم حسینہ واجد نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور بھارت پہنچ گئی ہیں، جب کہ بنگلہ دیش کے اسٹوڈنٹ لیڈروں نے مطالبہ کیا ہے کہ نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کے زیر سربراہی عبوری حکومت قائم کی جائے۔ طلبہ رہنماؤں کے مطالبے پر بنگلہ دیشی صدر نے اسمبلی تحلیل کردی ہے۔
بنگلہ دیش میں طلبہ کی حالیہ احتجاجی تحریک نے ملک کے سیاسی اور سماجی منظر نامے پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس تحریک نے بنگلہ دیش کے تعلیمی نظام اور حکومتی پالیسیوں پرگہرے سوالات اٹھائے ہیں۔ ’’ تم کون ہم کون، رضا کار رضا کار‘‘ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد حکومت کا دھڑن تختہ کرنے والی طلبا تحریک میں یہ نعرہ مزاحمت کی علامت بنا رہا۔
طلبا نے اس نعرے کو اُس وقت اپنایا تھا جب حسینہ واجد نے کوٹا سسٹم پر تنقید کرنے والوں پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ اگر سرکاری ملازمتوں میں آزادی کے لیے لڑنے والوں کے پوتے پوتیوں کو کوٹا نہیں دیا جائے گا توکیا ’’رضاکاروں‘‘ کے پوتے پوتیوں کو دیا جائے گا۔ بنگلہ دیش کے اسٹوڈنٹس نے یہ نعرہ ایک طعنہ ’’رضاکار رضاکار‘‘ حسینہ واجد کو مظاہروں کے دوران خوب سنایا۔ یہ حسینہ گورنمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ کا مخالفین کے لیے ایک قومی طعنہ بھی سمجھا جاتا تھا، مگر آج اسی سیاسی نعرے نے حسینہ واجد کو فارغ کر دیا ہے۔
بنگلہ دیش میں سرکاری نوکری کو اچھی تنخواہ کی وجہ سے کافی اہمیت دی جاتی ہے تاہم تقریباً نصف نوکریاں، جن کی تعداد لاکھوں میں ہے، مخصوص گروہوں کے لیے مختص ہیں۔ سرکاری نوکریوں کا ایک تہائی حصہ ان افراد کے اہلخانہ کے لیے مخصوص ہے جنھیں بنگلہ دیش میں ’’ آزادی کی جنگ کا ہیرو‘ مانا جاتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت کی اصل وجہ حسینہ واجد کی حکومت کی بدانتظامی تھی ۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ماضی میں ملک کی معاشی کامیابیوں کا فائدہ صرف انھیں ہی ہوا ہے جو عوامی لیگ کا حصہ تھے۔ اس دوران ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں اور جمہوریت کا معیار گرتا گیا۔ وہ شیخ حسینہ پر آمرانہ طرزِ حکمرانی اختیار کرنے کا الزام لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم نے اپنے سیاسی مخالفین اور میڈیا پر پابندیاں عائد کیں۔ حالیہ مہینوں میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے سینیئر رہنماؤں اور ہزاروں سیاسی کارکنان کو حکومت مخالف مظاہروں کے درمیان گرفتار کیا گیا۔
شیخ حسینہ کے ناقدین انھیں ایک آمر کے طور پر دیکھتے ہیں، ان کے دور میں حزب اختلاف کے ہزاروں رہنماؤں اور کارکنوں کو جنوری میں گزشتہ انتخابات سے قبل گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ ان انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے لگا تار چوتھی بار بنگلہ دیش کی وزیر اعظم بنی تھیں۔ انسانی حقوق کے عالمی گروپوں نے ان پر حزب اختلاف کو دبانے کے لیے کا الزام لگایا تھا۔
درحقیقت معاشرتی عدم مساوات کا اصل سبب طبقاتی تفریق ہوتی ہے۔ کوٹہ نظام بظاہر تو مساوات کے فروغ کے لیے ہے مگر یہ اصل میں طبقاتی عدم مساوات کو مزید گہرا کرتا ہے کیونکہ بالادست اور بااثر طبقات کے لوگ بالعموم برسراقتدار (عوامی لیگ سے وابستہ افراد) اپنے معاشی و سیاسی اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے سفارش اور رشوت وغیرہ کے طریقوں سے اس نظام کا فائدہ اٹھاتے تھے، چنانچہ یہ نظام مسائل کا کوئی معقول حل نہیں ہے۔ الٹا اسے محنت کش طبقے کو تقسیم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس سے محروم طبقات کے کچھ افراد کو تو عارضی ریلیف ملتا ہے لیکن ایک طبقاتی معاشرے میں زیادہ فائدہ جو لوگ اٹھاتے ہیں وہ اکثر محروم پس منظر سے نہیں ہوتے۔ انھی وجوہات کی بنا پر نوجوانوں کے دباؤ کے تحت حکومت نے 2018 میں آزادی پسندوں کے بچوں اور پوتے پوتیوں وغیرہ کا 30 فیصد کوٹہ منسوخ کر دیا تھا، لیکن 5 جون 2024کو ہائیکورٹ نے اسے پھر سے بحال کر دیا۔ جس کے بعد حالیہ تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک میں شامل طلبہ کا مطالبہ تھا کہ مروجہ کوٹہ سسٹم کا خاتمہ کیا جائے۔ اقلیتی اور معذور افراد کو شفاف بنیادوں پر نوکریوں میں مناسب حصہ دیا جائے، جب کہ پارلیمان کے ذریعے ایک نیا کوٹہ سسٹم رائج کیا جائے جس میں مخصوص نشستیں پانچ فیصد سے زیادہ نہ ہوں۔
اس احتجاجی تحریک نے واضح کیا ہے کہ بنگلہ دیش کی نام نہاد ترقی کتنی کھوکھلی اور جعلی ہے اور وہاں کے نوجوانوں میں موجود بے چینی ایک بڑے سماجی مسئلے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مسئلہ محض کوٹہ نظام تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ تعلیم، روزگار اور معاشرتی انصاف کے وسیع تر مسائل سے جڑا ہوا ہے۔
بنگلہ دیش کی آبادی کا تقریباً 65 فیصد حصہ 35 سال سے کم عمر کے بچوں اور نوجوانوں پر مشتمل ہے، جن میں سے بیشتر نوجوان بہتر مواقع اور مساوی حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے مطابق بنگلہ دیش میں ہر سال پانچ لاکھ سے زائد طلبہ گریجویشن کرتے ہیں جن میں سے صرف دس فیصد کو مناسب ملازمتیں مل پاتی ہیں۔ جب کہ ملک کے ادارہ برائے ڈویلپمنٹ اسٹڈیز کے مطابق 66 فیصد گریجویٹس بیروزگار رہ جاتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار نشاندہی کرتے ہیں کہ ملک میں روزگار کی فراہمی کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے۔
کوئی جذبہ، مثبت ہو یا منفی، حدود سے تجاوز کرجائے تو آدمی خود اس کا ایندھن بن جاتا ہے۔ بنگلہ دیش کے میڈیا کا موقف ہے کہ حسینہ واجد حد درجہ خوشامد پسند تھیں اور انھیں اپنے والد شیخ مجیب الرحمن کے سوا کسی شخص کا تذکرہ پسند نہیں تھا جس کے مجسمے بنوا کر پورے ملک میں اہم مقامات پر نصب کر دیے گئے تھے۔ اب عوام شیخ حسینہ اور شیخ مجیب کی ہر علامت کو مسمار کر رہے ہیں۔ دھان منڈی ڈھاکا میں اس کے گھر کو مجیب میوزیم میں تبدیل کردیا گیا تھا، مشتعل نوجوانوں نے اسے بھی آگ لگادی ہے۔ اسی مکان میں شیخ مجیب اور اس کے پورے خاندان کو بنگلہ دیش کے نوجوان فوجی افسروں نے گولیاں مار کر قتل کردیا تھا۔ حسینہ واجد نے ان فوجی افسروں کو اپنی حکومت کے دور میں دور نزدیک سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا اور انھیں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
دوسری جانب ڈاکٹر محمد یونس نے اپنے بیان میں کہا کہ شیخ حسینہ واجد نے شیخ مجیب الرحمن کی میراث تباہ کردی تھی، بنگلہ دیش اب آزاد ہوگیا ہے۔ بنگلہ دیش کے صدر نے سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کو جیل سے رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بنگلہ دیش کی مستعفی وزیراعظم نے برطانیہ سے سیاسی پناہ کی درخواست کردی ہے جب کہ ان کی بہن شیخ ریحانہ کے پاس پہلے ہی سے برطانیہ کی شہریت ہے، دونوں بہنیں اس وقت بھارت میں ہیں۔گو عوامی لیگ حکومت کی کارکردگی جنوبی ایشیا میں سب سے بہتر، بھارت سے بھی آگے رہی ہے۔
بنگلہ دیش جنوبی ایشیا میں شاید واحد ملک ہے جس کا کوئی بچہ پرائمری اسکول جانے سے محروم نہیں ہے، یعنی بنگلہ دیش میں یونیورسل پرائمری انرولمنٹ حاصل کر لی گئی ہے۔ وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت نے ملک میں انفرا اسٹرکچر کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔ سماجی اور معاشی شعبے میں اس ترقی کے باعث بنگلہ دیش کی قومی آمدنی، زرِ مبادلہ کے ذخائر اور برآمدات میں اضافہ ہوا۔ اس عرصے کے دوران برآمدات 15 بلین ڈالر سے بڑھ کر 40 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ اس کارکردگی کی وجہ سے بنگلہ دیش میں غربت میں بھی کمی ہوئی۔
سیاست میں استحکام اور پائیداری کے لیے صرف سماجی اور معاشی ترقی اور قومی دولت میں اضافہ ہی اہم نہیں ہوتا۔ ان شعبوں میں ترقی سے کہیں زیادہ اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ حکومت کا عوام، خصوصاً اختلافِ رائے رکھنے والوں کے ساتھ رویہ کیسا ہے۔ بنگلہ دیش میں قابلِ قدر ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے شعبوں میں قابلِ ستائش ترقی کے باوجود وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف اگر عوامی سطح پر بے چینی پائی جاتی تھی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے اختلافِ رائے کو دبانے کے لیے سخت اقدامات کیے۔
اپوزیشن حلقوں کو شکایت تھی کہ حکومت ان کی سرگرمیوں کو دبانے کے لیے نہ صرف پولیس کا بے دریغ استعمال کرتی ہے بلکہ عوامی لیگ کے کارکنوں کو بھی مخالف سیاسی دھڑوں کے خلاف کارروائیاں کرنے کی کھلی چھٹی ہے۔ حسینہ واجد حکومت کا خاتمہ بھارت کے لیے بڑا اپ سیٹ ہے، بھارت نے جنوبی ایشیا میں ایک اور کلیدی اتحادی کھو دیا، مالدیپ بھی بھارت کے کنٹرول سے نکل چکا ہے۔ بہرحال بنگلہ دیش میں اگلا سیٹ اپ کیسا ہوتا ہے؟ اس کا پتہ چل جائے گا۔