پنجابی زبان کے نام ور و انقلابی شاعر اور ادیب بابا نجمی کی زندگی، شاعری اور ادبی سفر کی دل چسپ کہانی ادب اور انسانیت کا ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ جیسا کہ ایک یونانی نظم کا مفہوم ہے، ’’عظیم ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے میں اپنی ذات میں رہتے ہوئے، ہزار انسان بن جاتا ہوں۔‘‘ شاعری اور ادب انسانی مزاج، رواج، نفسیات اور روایات پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔
جدید ماہرین نفسیات اور سائنس دانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ ادب کا مطالعہ انسانی ذہن اور سوچ پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ ادب میں شاعری کا ایک منفرد مقام ہے، جو شاعر کو کسی سائنس داں اور ماہر الٰہیات سے کم مرتبہ پر فائز نہیں کرتا۔ ایسا شاعر جو اپنی زبان، پہچان، دھرتی اور سماج کی عظمت کا پرچار کرتا ہے، وہ وقت کے پہیے پر سوار ہو کر عظمت کا معمار بن جاتا ہے۔ برصغیر میں شاعری کا کوئی ثانی نہیں، اور پنجابی شاعری کی ایک مخصوص لطافت اور ذائقہ ہے۔
مجھے فخر ہے کہ میں ایک پیدائشی پنجابی ہوں، جسے اپنی زبان اور اپنی ثقافت پر ناز ہے۔ اس سے بڑھ کر مجھے خوشی ہے کہ میں ادب کی دُنیا کے نام ور ادیبوں کے ساتھ مکالمہ کرکے اپنے قارئین تک ان کی کہانیاں پہنچاتا ہوں۔ آج ہم عالمی شہرت یافتہ پنجابی شاعر اور ادیب بابا نجمی کی زندگی کی کہانی، شاعری اور ادبی سفر پر روشنی ڈالیں گے۔
بابا نجمی کی پیدائش 6 ستمبر 1948 کو لاہور کے علاقے غازی آباد میں ہوئی۔ ان کی والدہ کا نام عالمی بی بی اور والد کا نام منتے خان تھا۔ ان کے دو بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے غازی پرائمری اسکول سے حاصل کی، جب کہ میٹرک اسلامیہ ہائی اسکول سے کیا۔ ایف اے کے لیے کالج میں داخلہ تو لیا، مگر تعلیم مکمل نہ کرپائے۔ بابا نجمی نے 15 سال کی عمر میں شاعری کا آغاز کیا، مگر زندگی کی مصروفیات اور حالات کی وجہ سے ایک طویل وقفہ آیا۔
18 سال کی عمر میں ان کی شادی ہوگئی، اور 1962 میں ان کے والد نے انہیں ایک سائیکل کی دکان کھول کر دے دی۔ 1970 میں وہ فلم انڈسٹری میں قدم رکھتے ہیں اور 1977 تک وہاں کام کرتے رہتے ہیں۔ پھر وہ کراچی منتقل ہوئے، جہاں انہوں نے نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی قیادت میں بھرپور سیاسی جدوجہد کی۔ ان کی محنت اور عزم نے انہیں زبردست مقبولیت اور شہرت عطا کی، کئی ایوارڈز ان کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت بنے۔
بابا نجمی کی شاعری مزدوروں اور مظلوم لوگوں کی آواز کو اجاگر کرتی ہے۔ وہ نوجوانوں کو ہمت، جوش، اور اپنے کام سے عشق کی حد تک لگاؤ کا درس دیتے ہیں۔ بابا نجمی کو ’’پنجابی انقلابی شاعر‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ملک کی تلخ سیاسی صورت حال اور فوجی حکومتوں اور سام راجی طاقتوں کے خلاف بھی آواز اٹھائی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں بابا نجمی نے کہا کہ ایک بدقسمتی یہ ہے کہ ہم پنجابی اپنے ورثے اور زبان سے شرم محسوس کرتے ہیں۔ حالاںکہ سکھ برادری نے پنجابی زبان اور گُرمکھی رسم الخط کو عالمی سطح پر منوا لیا ہے۔ بابا نجمی کا کہنا ہے کہ تمام مذاہب انسانیت کا درس دیتے ہیں، لیکن بعض مذہبی لوگ تفریق پیدا کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک زبان اور ثقافت انسانوں میں یکسانیت پیدا کرتی ہے اور لوگوں کو آپس میں جوڑتی ہے۔ انہوں نے نوجوانوں کو ہمیشہ ہمت، محنت، اور اپنے کام سے عشق کرنے کی تلقین کی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ کام یابی کا راز اسی میں ہے۔ بابا نجمی نے ہمیشہ امن اور محبت کی بات کی ہے اور وہ جنگ اور اسلحے کے خلاف رہے ہیں۔
بابا نجمی کے کئی شعری مجموعے شاید ہوئے، جن میں ’’اکھراں وچ سمندر‘‘ (1986)، ’’سوچاں وچ جہان‘‘ (1995)،’’میرا ناں انساں‘‘ (2001)، اور ’’سرکاراما‘‘ (2010) شامل ہیں۔
ان کی شاعری میں زندگی کے عزم اور حوصلے کی مثالیں ملتی ہیں:
بے ہمتے نے جیہڑے بہہ کے شکوہ کرن مقدراں دا
اُگن والے اگ پیندے نے سینہ پاڑ کے پتھراں دا
منزل دے متھے دے اُتے تختی لگدی اوہناں دی
جیہڑے گھروں بنا کے ٹردے نقشہ اپنے سفراں دا
بابا نجمی کا یہ شعر کسی بھی موٹیویشنل اسپیکر کی ساری زندگی کی ویڈیوز پر بھاری ہے۔ یہ ایک پورا فلسفہ ہے، جس پر کیس اسٹڈی بنائے جا سکتے ہیں۔ یہ اشعار ہمیں عزم، محنت، اور اپنی راہوں کے نقشے خود بنانے کی ترغیب دیتے ہیں۔
بابا نجمی نہ صرف پنجابی شاعری اور زبان کی پہچان ہیں بلکہ وہ پنجابی زبان کو درس وتدریس اور نصاب کا حصہ بنانے کی بھی بھرپور جدوجہد کررہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پنجابی زبان دُنیا کی بڑی زبانوں میں سے ایک ہے۔ اس کے اندر بہت وسعت اور تاریخی ورثہ پایا جاتا ہے۔ پنجابی زبان میں بے شمار ’’بابے ‘‘ ہیں جن کا کلام کسی بھی طرح نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بابانجمی پنچابی کو بڑے فخرے سے بولنے اور اُس کی سر بلندی کے لیے کیا کمال شعر کہتے ہیں:
امبر دا میں بوہا کھول کے ویکھاں گا
رب دے نال پنجابی بول کے ویکھاں گا
وہ لوگ پنجابی زبان جن کی ماں بولی ہے اور اُسے بولنے سے شرماتے اور جھجک محسوس کرتے ہیں، اسی زبان کا شاعر رب سے میں پنجابی میں محو گفتگو کرنے کی بات کرتا ہے۔
مجھے پورا یقین ہے کہ اگر بابانجمی کسی اور زبان اور ملک کی نمائندگی کرتا تو اُس وہ عزت، مقام اور مرتبہ ملتا جو کسی بھی ادیب کے لیے مثال ہوتا، لیکن بابانجمی ان سب باتوں کی پروا کیے بغیر رنگ، نسل، زبان اور علاقائی شناخت سے بالاتر ہوکر انسانیت کی بات کرتے ہیں۔
مذہبی ہم آہنگی اور قبولیت کی عمدہ مثال اُن کی اس نظم میں بہترین انداز میں بیان کی گئی ہے۔
مسجد میری توں کیوں ڈھاویں میں کیوں توڑاں مندر نوں
آ جا دوویں بہہ کے پڑھیے اک دوجے دے اندر نوں
صدیاں وانگوں اج وی کجھ نئیں جانا مسجد مندر دا
لہو تے تیرا میرا لگنا تیرے میرے خنجر نوں
ربّ کرے توں مندر واگوں ویکھیں میری مسجد نوں
رام کرے میں مسجد وانگوں ویکھاں تیرے مندر نوں
یہ سچ ہے کہ پاکستانی فن کاروں کی ایک بڑی تعداد نے حکومت اور میڈیا کی بدولت عالمی شہرت حاصل کی ہے۔ پھر بھی کچھ ایسے نام ہیں جو کبھی اُس روشنی میں نہیں آئے اور بابا نجمی ایک ایسا ہی نام ہے۔ ہندوستان کی ایک ادبی سوسائٹی نے دسمبر2016 میں موگا کے مہادیش بھگت سنگھ پارک میں ان کا مجسمہ نصب کیا۔ بابانجمی کو اپنے ملک میں اُس قدر نہیں لیکن سرحد پار کے ادبی حلقوں نے خوب تسلیم کیا۔
عابدہ پروین نے اُن کی ایک نظم ’’چلاں پنکھی تائی چلی ٹھنڈی ہوا‘‘ گائی ہے۔
بابا نجمی کی شاعری محض الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک تحریک ہے جو ہر دل میں اُمید کی کرن بکھیرتی ہے۔ یہ مضمون بابا نجمی کی زندگی اور ادبی سفر پر ایک تجزیہ فراہم کرتا ہے۔ بابا نجمی ایک ایسے پنجابی شاعر ہیں جو اپنی شاعری میں انقلابی پیغام اور عوامی جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں مزدوروں، غریبوں اور مظلوموں کی آواز سنائی دیتی ہے۔ ان کا پیغام نوجوانوں کے لیے خاص ہے، جہاں وہ انہیں محنت، ہمت اور عشق کی حد تک اپنے کام سے لگاؤ رکھنے کا درس دیتے ہیں۔
بابا نجمی کی زندگی میں کئی موڑ آئے، جیسے کہ فلم انڈسٹری سے وابستگی، سیاسی جدوجہد اور شاعری میں بے مثال شہرت کا حصول، پنجابی زبان سے ان کی محبت اور اس کے فروغ کے لیے ان کا عزم قابل ستائش ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پنجابی زبان، ہماری ثقافت اور ورثہ ہے، جسے زندہ اور فروغ دینا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ بابا نجمی کی تصانیف نے پنجابی ادب کو نیا زاویہ دیا ہے، اور ان کے اشعار ہمیں عزم، حوصلہ، اور خودداری کا سبق دیتے ہیں۔عمر کے اس حصے میں بھی اُن کا جذبہ جواں ہے اور وہ پنجابی زبان کے فروغ کے لیے سرگرم عمل ہیں۔
بابا نجمی کہتے ہیں کہ وہ سب زبانوں کا احترام کرتے ہیں، کیوںکہ پنجابی زبان نے اُنہیں نئی زندگی دی، اس لئے پنجابی زبان اُن کی جان اور اٹھان ہے۔ وہ کہتے ہیں اگر میں کسی اور زبان کا شاعر ہوتا تو مجھے اتنی منفرد پہچان نہ ملتی۔ اس لئے پنجابی زبان اب میری زندگی بن گئی ہے۔
بابانجمی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے ہمیشہ دُنیا بھر میں انسانیت اور امن کی بات ہے۔ وہ وطن عزیز میں مذہبی اقلیتوں کے لیے مساوی حقوق اور بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے۔ بابا نجمی یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اُنہوں 90 کی دہائی میں شناختی کارڈ میں مذہب کا خانہ شامل کرنے پر کراچی پریس کلب پر احتجاج کرتے ہوئے پولیس سے مار بھی کھائی۔ وہ تمام انسانوں کو برابری کی نگاہ سے دیکھنے کے قائل ہیں۔
بابا نجمی اس وقت پاکستان کے وہ انقلابی پنجابی شاعر ہیں جن کی شاعری پاکستانی پنجاب سے بھی زیادہ بھارتی پنجاب میں مقبول ہے۔ شاہ مکھی اور گرومکھی پنجابی میں شایع شدہ ان کی شاعری کی کتب کے ایڈیشنز نے انھیں عالمی سطح پر بے حد مقبول کردیا ہے۔ بھارتی پنجابیوں نے ان کی محبت و عقیدت میں ان کا مجسمہ بناکر نصب کردیا۔ حبیب جالب، امرتا پریتم، زاہدہ حنا، جون ایلیا اور دیگر عہد ساز ادیب، شعراء سے دوستیوں کا احوال، بینظیر، آصف زرداری سے عمران خان تک سے ملاقاتیں، کراچی میں گزارے 33 سال کو یاد کرتے ہوئے بابانجمی گہری سانس لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ خود کو خوش قسمت سمجھتے ہیں جنہیں عوام سے محبت ، ساتھی ادیبوں سے قبولیت اور میڈیا سے پیار اور کوریج ملی۔ بابانجمی اپنے بے شمار انٹرویوز، ایوارڈزاور وسیع حلق احباب کو یاد کرتے ہوئے، اپنی زندگی میں مزدوری سے لے کر نام ور شاعر بننے تک کے سفر کو اس شعر میں سماتے ہیں، جس پنجابی اخبار ’’روزوار بھلیکھا‘‘ نے اپنی پیشانی پر سجایا ہوا ہے:
اُچا کرکے میں جاواں گا جگ تے بول پنجابی دا
گھر گھر وَجدا لوک سنن گے اک دن ڈھول پنجابی دا