کہتے ہیں قومیں محض جغرافیے سے نہیں بنتیں، خوابوں جدوجہد اور قربانیوں سے بنتی ہیں۔ 1973 کا سال جب پاکستان ابھی اپنے زخموں پہ مرہم رکھ رہا تھا، ایک نئی امید لے کر آیا۔ روس جس نے 1917 میں مزدوروں ،کسانوں اور پسے ہوئے طبقات کی عظیم انقلابی تاریخ رقم کی، اس نے پاکستان میں صرف ایک اسٹیل مل نہیں بنائی تھی بلکہ اس نے ایک خواب بویا تھا۔ ایک ایسا خواب جو خود انحصاری کا، صنعت کاری کا اور محنت کشوں کی عزت نفس کا تھا۔
پاکستان اسٹیل مل صرف ایک فیکٹری نہیں تھی، یہ انقلاب کے بیجوں کا ثمر تھا جس نے مشرق کے ایک ملک میں مزدورکی عظمت اور صنعت کی طاقت کا استعارہ تراشا۔ روسی انجینئروں کی محنت پاکستانی کارکنوں کی امید اور ایک حکومت کی ہمت ان سب کے امتزاج سے یہ کارنامہ ممکن ہوا۔جب اسٹیل مل کا سنگ بنیاد رکھا گیا تو اس کے ارد گرد صرف زمین تھی، بنجر، سنسان، خاموش لیکن پھر وہاں ایک شہر بسا، اسٹیل ٹاؤن۔ گلشنِ حدید کی گلیاں آباد ہوئیں۔
اسکول، اسپتال، مارکیٹیں کھیل کے میدان سب کچھ اُسی خواب کی توسیع تھے جو 1973 میں بویا گیا تھا۔ وہ ملازمین جنھوں نے اپنی زندگیاں اسٹیل مل کے لیے وقف کیں، ان کے بچے آج ڈاکٹر، انجینئر، استاد اور دانشور ہیں۔ یہ محض روزگار کا ذریعہ نہیں تھا، یہ ایک ثقافت تھی، محنت عزت اور وقار کی ثقافت۔
مگر پھر کیا ہوا؟ یہی ملک جو خود انحصاری کی طرف بڑھ رہا تھا، ایک ایسی بند گلی میں جا گھسا جہاں پرائیویٹائزیشن کو نجات دہندہ سمجھا گیا۔ اسٹیل مل جیسا قومی اثاثہ نجی سرمایہ داروں کی آنکھوں کا تارا بن گیا۔ بد انتظامی، کرپشن اور غفلت نے اُس ادارے کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکر دیا جس نے ایک دور میں کروڑوں ٹن اسٹیل پیدا کر کے پاکستان کی معیشت کو ستون فراہم کیا تھا۔
2015 کے بعد سے جب اسٹیل مل مکمل طور پر بند ہوئی ہزاروں مزدور بے روزگار ہوگئے۔ ان کے چولہے بجھنے لگے ،اُن بستیوں کی روشنیاں ماند پڑنے لگیں جوکبھی صنعت کی چمک سے جگمگاتی تھیں۔ ایک خواب جو روس کے انقلابی جذبے سے پیدا ہوا تھا خاموشی سے دم توڑ رہا تھا۔مگر تاریخ ہمیشہ ایک ہی خط پر نہیں چلتی۔ آج 2025 میں جب یہ خبر ملی کہ روسی ماہرین ایک بار پھر پاکستان اسٹیل مل کو زندہ کرنے آ رہے ہیں تو دل نے ایک بار پھر پرانے دنوں کی آہٹ محسوس کی۔ جیسے کوئی سویا ہوا خواب پھر سے انگڑائی لے رہا ہو۔ جیسے پرانی تصویریں جو وقت کی گرد میں چھپ گئی تھیں پھر سے صاف ہونے لگی ہوں۔
یہ صرف ایک تکنیکی منصوبہ نہیں ہے۔ یہ ایک نئے تعلق کا آغاز ہے، پاکستان اور روس کے درمیان پرانی سوشلسٹ روایات کے تسلسل کا۔ اس میں نہ صرف ایک فیکٹری کو از سرِ نو تعمیر کیا جا رہا ہے بلکہ اُس جذبے کو بھی زندہ کیا جا رہا ہے جو محنت برابری اور ترقی کا امین تھا۔
اگر پاکستان اسٹیل مل دوبارہ سے فعال ہو جاتی ہے تو یہ صرف ہزاروں افراد کو روزگار نہیں دے گی۔ یہ پورے ایک علاقے کو زندگی بخشے گی۔ وہ اسکول دوبارہ آباد ہوں گے جہاں خاموشی چھا گئی تھی۔ وہ دکانیں پھر سے کھلیں گی جن کے دروازے بند ہو چکے تھے۔ وہ بائیکس، وہ بسیں، وہ بچوں کی ہنسی سب کچھ ایک بار پھر واپس آ سکتا ہے۔ یہ صرف اسٹیل کی پیداوار نہیں ہے یہ امیدکی پیداوار ہے۔
یہ بحالی دراصل ایک اجتماعی شعورکی بحالی ہے۔ ایک ایسا شعور جو یہ مانتا ہے کہ ریاست صرف چند سرمایہ داروں کی جاگیر نہیں بلکہ ان کروڑوں انسانوں کی ماں ہے جنھوں نے اپنے ہاتھوں سے زمین کو سنوارا کارخانوں کو آباد کیا اور دھاتوں کو جلا بخشی۔ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ معیشت صرف اعداد و شمار کا کھیل نہیں ہوتی۔ معیشت ان انسانی چہروں سے جڑی ہوتی ہے جو دن رات مشینوں کے ساتھ جتے رہتے ہیں۔ جو پسینے میں شرابور ہوکر بھی فخر سے جیتے ہیں، اگر ہم نے اس موقع پر صرف مالی فائدے کو مرکز بنایا تو ایک بار پھر وہی زخم ہرے ہوں گے۔
اس بار صرف اسٹیل مل کو نہیں اس سوچ کو زندہ کریں جو انسان کو سرمایہ سمجھتی ہے بوجھ نہیں جو یہ مانتی ہے کہ خواب اگر سچے ہوں تو وہ ایک دن ضرور حقیقت بن جاتے ہیں بس ہمیں ان کی آنکھوں میں جھانکنا آنا چاہیے۔یہاں یہ بات کہنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان اسٹیل مل کی تباہی محض اقتصادی غلطیوں کی وجہ سے نہیں ہوئی۔ یہ ریاستی غفلت، عوامی اثاثوں کی لوٹ مار اور مزدوروں کو کمتر سمجھنے کی سوچ کا نتیجہ تھی۔ آج روس دوبارہ آ رہا ہے تو ریاست کو چاہیے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائے۔ محض تجارتی معاہدوں سے آگے بڑھ کر ایسی حکمتِ عملی بنائی جائے جو مزدور کو مرکز میں رکھے۔
ماضی میں جب سوشلسٹ ریاستوں نے دنیا بھر میں صنعتیں لگائیں تو ان کا مقصد صرف منافع نہیں تھا انسان کی فلاح اور محنت کی تکریم بھی تھا۔ پاکستان اسٹیل مل ان ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کا حصہ ہے جنھوں نے وہاں پسینہ بہایا دن رات کام کیا اور اپنے بچوں کا مستقبل سنوارا۔ آج وہ سب مزدور، وہ انجینئر، وہ ٹیچرز، وہ کلرک سب اس خبر سے پھر سے جینے لگے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ سب کچھ ویسا نہ ہو جیسا کبھی تھا، مگر اگر اسٹیل مل دوبارہ کھلتی ہے تو یہ ماضی سے جُڑنے کا ایک موقع ہے۔ یہ اُن یادوں کو سلام ہے جو ہماری زمین ہماری مٹی ہمارے پسینے میں رچی بسی ہیں۔
آج جب ہم پاکستان اسٹیل مل کی بحالی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں صرف ایک فیکٹری کی بات نہیں کرنی چاہیے۔ ہمیں ایک عہد ایک نظریہ اور ایک خواب کو پھر سے زندہ کرنے کی بات کرنی چاہیے۔ ہمیں اُن گمشدہ آوازوں کو پھر سے سننے کی کوشش کرنی چاہیے، جو کہتی تھیں ’’ ہم محنت کش ہیں ہمیں جینے کا حق ہے عزت کے وقار کے اور اُمید کے ساتھ۔‘‘