’’کیا مرنے والا کوئی بادشاہ یا حکمران تھا جس پر پورا بھارت غمزدہ ہے؟‘‘نہیں! وہ دلوں پر راج کرتا تھا‘‘۔کیا وہ سیاست کرتا تھا؟ نہیں! وہ صرف خدمت کرتا تھا۔ اس نے ہندوستان کے لیے وہ کچھ کیا جو ساری پارٹیاں مل کر بھی نہ کرسکیں‘‘۔ یہ ایک بھارتی مندوب کا آسٹریلوی صحافی سے مکالمہ تھا۔ ’’آپ مکیش امبانی اور رتن ٹاٹا کا کیسے موازنہ کرتے ہیں‘‘؟ چند سال پہلے میں نے ایک عالمی کانفرنس میں ایک انڈین بزنس مین سے یہ سوال کیا تو اس نے بلا توقف جواب دیا ’’ان کا کوئی موازنہ نہیں، ایک زمین اور دوسرا بلند آسمان ہے، ایک موم بتی ہے دوسرا آفتاب ہے۔
صاحب، امبانی صرف ایک سرمایہ دار آدمی ہے اور رتن ٹاٹا ایک عظیم انسان ہے۔‘‘ جانے والے کی فیمیلی کی وجۂ شہرت امارت ہے مگر رتن کو ہر شخص ایک صنعتکار، سرمایہ دار کے طور پر نہیں ایک بڑے آدمی اور ملک و قوم کے ایک عظیم محسن کے طور پر یاد کررہا ہے۔
بڑا آدمی کیسے بنا جاتا ہے؟ مہنگے ترین گھر بنا کر یا مہنگے ترین جہاز خرید کر یا بچوں کی شادیوں پر اربوں روپے خرچ کرکے۔ نہیں !ایسا ہر گز نہیں ہے، ایسا ہوتا تو امبانی نے اپنے بیٹے کی شادی پر کھربوں روپے خرچ کردیے تھے۔ وہ کئی ہفتے بالی وڈ کے بڑے بڑے ایکٹرں اور ایکٹرسوں کو بلا کر نچواتا رہا، اس نے دنیا بھر کے مشاہیر اور اہم ترین شخصیات کو چارٹرڈ جہازوں کے ذریعے شادی پر بلوالیا تھا، کئی ٹی وی چینلز اور اخبارات اس کے اپنے ہیں مگر وہ image building کی تمام تر کوششوں کے باوجود بڑا آدمی کیوں نہیں مانا جاتا؟ اس لیے کہ پیسہ پانی کی طرح بہانے اور نمودونمائش سے بڑا آدمی نہیں بنا جاسکتا۔ رتن ٹاٹا نے ایسا کچھ نہیں کیا مگر بھارت کا ہر شخص اسے بڑا آدمی مانتا ہے۔
ٹاٹا گروپ کے بانی جمشید جی نے محض بیس ہزار روپے سے ٹریڈنگ کا کام شروع کیا تھا، آج اس گروپ کا ریوینیو 165 ارب ڈالر ہے، مگر اسے ترقی اور شہرت کے بامِ عروج تک پہنچانے والے عبقری کا نام رتن ٹاٹا ہے۔ رتن کے والدین میں جب علیحدگی ہوگئی تو وہ صرف سات سال کا بچہ تھا، جسے اس کی دادی نے پالا۔ اس نے اپنے ملک کے اسکولوں سے ابتدائی اور امریکا کی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔
جن یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی ان کی تعمیر وترقی کے لیے دل کھول کر پیسہ لگایا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے ٹاٹا گروپ آف کمپنیز سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا ، چند سالوں بعد وہ گروپ کا چیئرمین بن گیا اور پھر اس کی آسماں کو چھونے والی پرواز میں کبھی کمی نہ آئی۔ وہ ایک کے بعد ایک نئی انڈسٹری لگاتا رہا اور کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتا چلا گیا۔ پورے بھارت میں پی او ایل کا 90فیصد کاروبار اس کا تھا۔ وہ ایشیا کی سب سے بڑی اسٹیل مل کا مالک تھا، وہ بھارت میں Automobile manufacturing کا بلاشرکت غیرے مالک تھا۔
اس کے کاروبار دنیا کے ڈیڑھ سو ممالک تک پھیل چکے تھے اور اس کی پراڈکٹس چھ برِّاعظموں میں جاتی تھیں۔ اس قدر کامیابیوں کے بعد کیا وہ اپنے آپ کو ایک خوشی نصیب آدمی سمجھتا تھا جسے دنیا کی ہر خوشی حاصل ہوگئی ہو؟ اس کے بارے میں رتن ٹاٹا نے کیا کہا،ان کی زبانی سن لیجیے ’’جب میرے پاس بہت زیادہ پیسہ آگیا تو مجھے بہت خوشی ہوئی مگر یہ خوشی چند روزہ ثابت ہوئی، پھر جب میں نے ایک کے بعد ایک انڈسٹری لگائی اور میں مہنگے ترین اثاثوں کا مالک بن گیا تو مجھے بڑا مسرّت انگیز احساس ہوا مگر وہ بھی عارضی ثابت ہوا۔ دولت اور اثاثوں کا مالک ہونے کا احساس یقیناً خوشی اور مسرّت کا باعث تھا مگر چند مہینوں کے بعد میں نے محسوس کیا وہ exitement دائمی نہیں ہے، کچھ دیر بعد اس خوشی کا احساس جاتا رہتا ہے۔
اثاثے بڑھتے رہے مگر دل حقیقی مسرّت اور شادمانی سے ہمکنار نہ ہوا۔ سب کچھ روٹین لگنے لگا۔ پھر ایک روز میرا ایک قریبی دوست میرے پاس آیا اور کہنے لگا، رتن آؤ آج میں تمہیں ایک ایسی جگہ لے کر جاؤں گا جہاں تمہیں وہ مسرّت ضرور ملے گی جو تمہیں آج تک نہیں ملی۔ میں اس کے ساتھ چل پڑا، اس نے ایک ایسے سینٹر کے سامنے گاڑی روک لی، جو معذور بچوں کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ ہم ان کے لیے وہیل چیئر زلے کر گئے تھے کیونکہ وہ چلنے سے معذور تھے ۔کچھ بچے وہیل چیئرز پر بیٹھ گئے اور اسے چلانے لگے ، چلانے والے اور انھیں دیکھنے والے بچوں کے چہرے کھل اٹھے، معصوم بچوں کے کھلے ہوئے چہرے اور ان کی آنکھوں کی چمک دیکھ کر مجھے جو خوشی اور مسرّت ملی وہ میں بیان نہیں کرسکتا۔
ہم وہاں سے واپس آنے لگے تو انھی میں سے ایک بچہ میری ٹانگوں کے ساتھ لپٹ گیا اور میرے منہ کی طرف تکنے لگا، جب میں نے چھڑانے کی کوشش کی تو اس نے کہا ’’ذرا ٹھہر جائیں! میں آپ کا چہرہ اچھی طرح پہچان لینا چاہتا ہوں تاکہ جنّت میں، میں اپنے محسن کو دیکھتے ہی Thank you کہہ سکوں‘‘۔ بچے کے اس فقرے نے میری سوچ اور زندگی کے بارے میں میرا نظرّیہ تبدیل کردیا، مجھے احساس ہوا کہ حقیقی خوشی تو کسی دوسرے انسان کو خوشی دے کر ملتی ہے۔ اور زندگی کا مقصد دولت کے انبار لگانا نہیں اُن انسانوںکے کام آنا ہے جنھیں آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔
بے سہارا افراد کا سہارا بن کر اور انھیں کچھ خوشیاں دے کر ہی آپ حقیقی مسرّت حاصل کرسکتے ہیں۔ اس راز کی دریافت کے بعد رتن کے دل سے دولت کی محبت نکل گئی اور انسانوں کی محبّت داخل ہوگئی۔ یہ نہیں کہ اس کے بعد رتن نے محنت کرنا یا مزید انڈسٹری لگانا چھوڑدی، نہیں اس کی جدوجہد تو غیر معمولی بھی تھی اور حیران کن بھی جس میں ایک دن کے لیے بھی کمی نہیں ہوئی، جیگوار اور لینڈروور کمپنی نقصان میں جانے لگی تو رتن نے خریدلی اور چند ہی سالوں میں اسے پھر منافع آور بنادیا۔ وہ نئے سے نئے تجربے کرتا اور بڑے بڑے رسک لیتا تھا۔ اس نے بہترین ایئرلائن بنائی۔’’ دی تاج‘‘ جیسے ہوٹلزکی چین قائم کردی۔
انرجی، کیمیکلز اور آئی ٹی سیکٹر میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے، پرفیومز، جیولری اور گھڑیوں کی مینوفیکچرنگ میں اوجِ کمال تک پہنچ کر سب کو حیران کردیا مگر اس نے اقتدار کا بیوپار نہیں کیا، وہ حکمرانوں کا نہیں عام آدمی کا سہولت کار بنا، اس لیے اس نے عوام کے لیے سستی ترین کار بنانے کا تہیہ کرلیا اور پھر صرف ایک لاکھ انڈین روپے کی کار بناڈالی۔ اس کا گروپ تیرہ لاکھ ارب انڈین روپے کا مالک تھا مگر اس نے آمدنی کا 66فیصد عوام کی صحت، تعلیم اور سماجی بہبود کے لیے وقف کردیا۔ وہ اس آمدنی کا صرف دو فیصد لیتا تھا، بے حد سادہ زندگی گزارتا اور نمودونمائش اور پروٹوکول کو ناپسند کرتا تھا۔ اسی لیے بھارت کے لوگ اس سے ٹوٹ کر پیار کرتے اور اسے بھگوان مانتے تھے۔
رتن ٹاٹا ایک انتہائی باوقار اور بااصول شخص تھے۔ بھارتی فلم انڈسٹری کے مقبول ترین ہیرو دلیپ کمار یہ واقعہ کئی بار بتاچکے ہیں کہ میں جہاں بھی جاتا تھا لوگ میرے گرد اکٹھے ہوجاتے تھے۔ جہاز میں سفر کرتا تو مسافر اپنی سیٹوں سے اٹھ اٹھ کر آتے، آٹوگراف لیتے اور تصویریں بنواتے تھے۔ ایک بار جہاز میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا کہ میں سیٹ پر بیٹھا تھا اور میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک انتہائی graceful مسافر نے میری طرف بالکل کوئی توّجہ نہ دی۔ ممبئی ائرپورٹ آگیا اور جہاز رک گیا تو میں نے تعارف کراتے ہوئے کہا ،آپ جانتے ہوں گے میں بہت سی فلموں میں کام کرچکا ہوں اور دنیا مجھے دلیپ کمار کے نام سے یاد کرتی ہے‘‘۔ اب میں نے پوچھا کہ آپ کا کیا تعارف ہے؟ تو انھوں نے اٹھتے ہوئے کہا، میں ایک صنعتکار ہوں، میرا نام رتن ٹاٹا ہے۔ میں نے دل میں کہا، بلاشبہ رتن ٹاٹا کے بارے میں جو سنا تھا ویسا ہی پایا ہے‘‘۔ صرف بھارت نہیں یورپ کے کئی حکمران بھی رتن کی شخصیت سے متاثر تھے۔ برطانیہ کے موجودہ بادشاہ پرنس چارلس نے 2018میں رتن ٹاٹا کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا۔
بکنگھم پیلس میں تقریب منعقد کرنے کے سارے پروگرام ترتیب دے دیے گئے اور رتن کو تاریخ سے آگاہ کردیا گیا۔ مہمانوں کو بھی مدعو کر لیا گیا تھا۔ پھریوں ہوا کہ رتن کے دو پالتو کتّوں میں سے ایک بیمار پڑگیا۔ تقریب سے دو روز قبل ٹاٹا گروپ آف کمپنیز برطانیہ کے مینیجر کے فون پر گھنٹی بجی مینیجر نے فون آن کیا تو دوسری جانب رتن ٹاٹا تھے، ’’دیکھیں پرنس چارلس کا شکریہ ادا کریں اور میری طرف سے معذرت کریں کہ میں ایوارڈ لینے نہیں آسکوں گا کیونکہ میرا پالتو کتا بیمار ہوگیا ہے اور مجھے اس کی دیکھ بھال کرنی ہے‘‘۔ مینیجر نے بہت منتیں کیں کہ شاہی خاندان اسے اپنی توہین سمجھے گا، اس سے ہمارے بزنس پر منفی اثر پڑسکتا ہے مگر ٹاٹا اپنی بات پر قائم رہے اور شاہی مہمان بننے کے بجائے اپنے کتے کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ جب ٹاٹا گروپ کے مینیجر نے ڈرتے ڈرتے پرنس چارلس کو رتن ٹاٹا کے نہ آنے کی اطلاع دی اور وجہ بھی بتائی تو شہزادے نے ناراض ہوئے بغیر کہا “Thats the man Ratan is بلاشبہ رتن ٹاٹا جیسے لوگ کبھی کبھار ہی پیدا ہوتے ہیں۔
بھارت کے کسی اخبار نے رتن ٹاٹا کی وفات پر صحیح لکھا ہے ’’”بادشاہ جس ہیرے کو تاج میں سجاتے رہے، اسے کون جانتا ہے لیکن ہندوستان اپنے اصلی کوہِ نور سے آج محروم ہوا ہے‘‘۔ بہت غور کیا، بہت نظریں دوڑائیں مگر پاکستان میں کہیں عوام کی خدمت کے جذبوں سے سرشار رتن ٹاٹا کا سایہ بھی نظر نہیں آیا۔ اﷲ کرے ہمارے صنعتکاروں کی اگلی نسل سے ہی کوئی رتن ٹاٹا نکل آئے۔