اگلے مرحلے کی مذمت تیار رکھیں

اگلے مرحلے کی مذمت تیار رکھیں


امریکا کی یونیورسٹی آف پنسلوینیا کے ایک سروے کی تفصیلات گزشتہ ہفتے اسرائیلی اخبار ہاریتز میں شایع ہوئیں۔ سروے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک عام اسرائیلی نیتن یاہو سرکار کی نسل کش پالیسیوں سے ہرگز بیزار نہیں بلکہ اکثریت پرجوش حامی ہے۔حمائتی رائے عامہ میں مذہبی ، سیکولر ، قوم پرست کی کوئی تمیز نہیں۔ان کے فلسطین دشمن موقف میں صرف ڈگری کا فرق ہے۔

سروے کے مطابق بیاسی فیصد اسرائیلی فلسطینیوں سے غزہ خالی کرانے کے حامی ہیں۔ سروے میں ایک سوال یہ کیا گیا کہ جس طرح تورات کی روائیت کے مطابق پیغمبر جوشوا کی قیادت میں اسرائیلی لشکر نے جیریکو کا محاصرہ کر کے وہاں کے تمام شہریوں کو قتل کیا۔کیا اسرائیلی فوج کو بھی اسی روائیت پر عمل کرنا چاہیے۔سینتالیس فیصد شہریوں نے اس سے اتفاق کیا۔

گزشتہ ماہ اسرائیلی فوج نے غزہ کو مکمل فتح کرنے اور وہاں کی آبادی کو ختم کرنے یا جلاوطنی پر مجبور کرنے کے لیے ’’ گیدون چیریٹ ‘‘ کے نام سے فیصلہ کن آپریشن شروع کیا۔

منصوبے کے مطابق غزہ کی تمام آبادی کو جنوبی کونے میں جمع کیا جا رہا ہے۔انھیں براہ راست خوراک تقسیم کرنے کا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے تاکہ عالمی رائے عامہ کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکے کہ اسرائیل غزہ کے انسانوں کو بھوکا نہیں مار رہا۔ ساتھ ہی ساتھ انھیں ’’ رضاکارانہ ‘‘ ہجرت کی راہ دکھائی جا رہی ہے۔جو فلسطینی مختص علاقے کے سوا غزہ کے کسی بھی مقام پر پائے گئے ان سے دشمن سمجھ کے نمٹا جا رہا ہے۔اس میں بوڑھے ، بچے ، خاتون کی کوئی تمیز نہیں۔

( اسرائیلی فوج نے ستائیس مئی کو غزہ پر فوج کشی کے چھ سو دن مکمل ہونے پر رفاہ میں کرائے کی ایک امریکی فلاحی تنظیم کی مدد سے خوراک تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ ہلڑ بازی کے سبب یہ تقسیم دھری کی دھری رہ گئی اور خوراک کی تلاش میں آنے والے ہزاروں فلسطینیوں میں سے دس کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا۔جب کہ ستتر برس سے فلسطینی پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کرنے والے اقوامِ متحدہ کے ادارے انرا کو دھشت گرد تنظیم قرار دے کر اس کے دفاتر مقبوضہ علاقوں میں بند کر دیے گئے اور غذائی گودام تباہ کر دیے گئے )۔

آپریشن ’’ گیدون چیریٹ‘‘ کے نام سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ فلسطینیوں سے وہی سلوک کیا جا رہا ہے جو تورات کی روائیت کے مطابق نبی ساؤل نے جزیرہ نما سینا میں رہنے والے دشمن قبیلے امالک سے کیا تھا۔یعنی کوئی درخت ، کوئی جانور ، کوئی انسان رحم کے قابل نہیں۔

نیتن یاہو تو سات اکتوبر دو ہزار تئیس کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد اپنی پہلی نشری تقریر میں کھل کے کہہ چکے ہیں کہ فلسطینی ’’ امالک ‘‘ ہیں۔یعنی یہ کوئی عام جنگ نہیں بلکہ ایسی لڑائی ہے جسے مذہبی جوش و خروش سے لڑا جائے گا۔( امالک کا عبرانی میں مطلب خون پینے والا اور نطفہِ حرام ہے۔جب کہ گیدون ایک توریتی کردار ہے جسے خدا نے فتح کی بشارت دی )

سروے کے مطابق پینسٹھ فیصد اسرائیلی شہری متفق ہیں کہ فلسطینی جدید دور کے ’’ امالک ‘‘ ہیں اور امالک کے بارے میں جو احکامات الہامی کتابوں میں دیے گئے وہ فلسطینیوں پر ہو بہو لاگو ہوتے ہیں۔

جب کہ اصل مقصد تب کھل کے سامنے آیا جب اسرائیلی وزیرِ اعظم نے گزشتہ ماہ ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ہمیں صدر ٹرمپ کی اس انقلابی تجویز سے مکمل اتفاق ہے کہ غزہ سے فلسطینی کسی تیسرے ملک منتقل کر دیے جائیں۔اور ہم اسی سمت میں کام کر رہے ہیں۔

ایک اسرائیلی ٹی وی چینل تھرٹین کے سروے کے مطابق چوالیس فیصد اسرائیلی آپریشن گیدون چیریٹ کے مقاصد سے اتفاق اور چالیس فیصد اختلاف رکھتے ہیں۔تریپن فیصد اسرائیلی سمجھتے ہیں کہ غزہ کا مکمل محاصرہ جاری رہنا چاہیے اور خودسر آبادی تک خوراک نہیں پہنچنی چاہیے۔

پنسلوینیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے سروے میں مزید کہا گیا ہے کہ جو اسرائیلی نسبتاً روشن خیال سیاسی جماعتوں کے حامی ہیں ان میں سے بھی ستر فیصد چاہتے ہیں کہ غزہ فلسطینیوں سے خالی ہو جائے۔جب کہ مذہبی طبقات سے تعلق رکھنے والے نوے فیصد شہری فلسطینیوں کے جبری دیس نکالے کے حامی ہیں۔

بات محض غزہ خالی کرانے تک محدود نہیں۔ چھپن فیصد اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ ریاستِ اسرائیل کی حدود میں جو عرب آئینی اعتبار سے مساوی شہری قرار دیے گئے ہیں انھیں بھی اسرائیل چھوڑنے پر آمادہ کیا جائے۔

 ( اسرائیل کی کل آبادی کا لگ بھگ اکیس فیصد عرب ہیں اور پارلیمنٹ میں بھی ان کی نمایندگی ہے )۔

اسرائیل کے عرب شہریوں کو ملک سے نکالنے کے تصور کو ساٹھ فیصد مذہبی اور اڑتیس فیصد سیکولر یہودی شہریوں کی حمائیت حاصل ہے۔

اس سروے کے نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے پنسلوینیا یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر تعمیر سورک کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کے بعد سے اسرائیلی سماج کو ان خیالات نے عملاً اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جو انھیں بچپن سے تعلیمی نظام ، امتیازی قوانین اور میڈیا کے ذریعے ایک منظم راستی بیانئے کے نام پر پلائے جا رہے ہیں۔اب اس ذہن سازی کے نتائج کھل کے سامنے آ رہے ہیں اور لگتا ہے گویا پورا سماج ہی سنکی ہو گیا ہے۔

سیاسی مقاصد کو مذہبی لبادہ پہنانے کی لہر سے کوئی نہیں بچا۔مثلاً حال ہی میں انسانی حقوق کی چند اسرائیلی تنظیموں نے سپریم کورٹ میں چینل فورٹین کے خلاف ایک اجتماعی پٹیشن دائر کی جس کے مطابق مذکورہ چینل سماج کو نسل کشی اور انسانیت سوز جرائم پر مسلسل اکسا رہا ہے۔ ان الزامات کی باقاعدہ تحقیقات کا حکم دیا جائے۔پیٹیشن میں یہ استدعا بھی کی گئی کہ حکومت کو غزہ کا غیر انسانی محاصرہ اٹھانے کا حکم دیا جائے۔ یہ پیٹیشن متفقہ طور پر مسترد کر دی گئی۔جس جج نے بنیادی فیصلہ لکھا اس نے موجودہ بین الاقوامی قوانین اور نظائر کے حوالے دینے کے بجائے شریعتِ موسوی کی روشنی میں فیصلہ تحریر کیا۔

ستائیس مئی کو غزہ میں نسل کشی کے عمل کو چھ سو دن مکمل ہو گئے۔روزنامہ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق ان چھ سو دنوں میں امریکی مال بردار طیاروں کی اسلحے اور گولہ بارود سے لدی آٹھ سو پروازیں اسرائیل میں اتریں تاکہ نسل کش فوجی مہم متاثر نہ ہو۔

آخر کو اسرائیل غزہ کے ساتھ وہی کر رہا ہے جو سابقہ اور موجودہ امریکی حکومت کی خواہش ہے۔تو پھر امریکا کیوں نہ بروقت ایک ایک گولے ، بم اور میزائیل کی کمی ہونے دے۔غزہ کا مشن پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بعد اگلا منصوبہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنا ہے۔دو روز قبل ہی اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے پر بائیس نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کی منظوری دی ہے۔

اس کے بعد مسجدِ اقصی کمپاؤنڈ کے نیچے آثارِ قدیمہ کی تلاش کے بہانے سرنگیں کھودنے کے پروجیکٹ کی تیز رفتار تکمیل کا منصوبہ ہے تاکہ مسجد کی بنیادیں اتنی کمزور ہو جائیں کہ عمارت ایک دن خود بخود اچانک ڈھ جائے۔ یوں اس مقام پر یہودیوں کا مقدس تھرڈ ٹمپل ڈیڑھ ہزار برس کے وقفے سے ظہور میں آ سکے۔

مسلمان ممالک اگلے دونوں مرحلوں کے لیے کاغذی مذمت کا مسودہ پہلے سے لکھ رکھیں۔ویسے سیکڑوں پرانے مسودوں میں نام اور تاریخ بدلنے سے بھی کام چل جائے گا۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)





Source link