ہمارے کوئٹہ پر ایک بار پھر آتش آہن کی بارش ہے ۔ہمارے بہن بھائی اور بچے خاک اور خون میں لوٹ رہے ہیں اور بتایا ہے بتانے والوں نے کہ دہشت گردوں کو انسانی جانوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں جائے گی۔ایسی باتیں سنتے اور پڑھتے ہوئے اپنا ایک سفر کوئٹہ یاد آگیا۔
اکتوبر 1980 میں پہلی بار کوئٹہ جانا ہوا، یوں احساس ہوا کہ یہ ایک حساس خطہ ہے۔ کسی خطے کی حساسیت کیا ہوتی ہے اور کیسے اس کے مظاہر ہوتے ہیں، ایسا کوئی اندازہ قطعاً نہیں تھا سوائے کچھ سنی سنائی باتوں کے اور کچھ تعصبات کے۔ سنی سنائی بات کچھ ایسی نہ تھی جس کا کوئی وجود نہ ہو۔
یہ ایک واقعہ تھا جسے المیہ مشرقی پاکستان کے نام سے لوگ جانتے ہیں۔ دوسری بات کا تعلق سندھ سے تھا۔ کہا جاتا تھا کہ جیسے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لیے بعض بیرونی قوتوں نے کردار ادا کیا تھا، اسی طرح سے سندھ کے بارے میں بھی کوئی سازش وجود رکھتی ہے۔
بلوچستان کے بارے میں تو ایسی کوئی کہانی بھی کان میں نہیں پڑی تھی لیکن پھر بھی حساسیت کی خبر مجھے تھی۔ اس واقعے کے بیس بائیس برس کے بعد اس خطے میں جانا ہوا۔ پہلی یاترا کے بر عکس زمانہ طالب علمی بیت چکا تھا اور صحافت کی دنیا میں قدم رکھ چکا تھا۔ آدمی صحافی ہو اور نیا نیا ہو تو بڑی گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔ معلومات ہوں یا نہ ہوں، اعتماد کا پارہ ساتویں آسمان پر رہتا ہے۔
بس، اسی اعتماد کے سہارے میں نے خود کو ماہر امور بلوچستان جانا اور اس کے بلند و بالا پہاڑوں ، اس کی وادیوں اور پر اسرار غاروں سے کوئی ایسی دھانسو کہانی نکال کے لاؤں کہ تہلکہ مچ جائے۔ ایک نہیں، دو نہیں بہت سی کہانیاں میں نکال کر لایا بھی اور تہلکہ بھی مچا لیکن چند روزگزرنے کے بعد اسی معاملے اور اسی واقعے کے بارے میں کچھ نئے حقائق سامنے کھڑے میرا منھ چڑا رہے تھے۔ تب سمجھ میں آیا کہ بلوچستان کو سمجھنے کے دعوے داروں کی مثال اس مرد دانا کی سی ہے جو آنکھوں پر کھوپرے چڑھائے ہاتھی کی تلاش میں نکلا۔ ہاتھ ٹانگوں پر جا پڑا تو بتایا کہ ہاتھی ستون جیسا ہوتا ہے۔ سونڈ ہاتھ میں آئی تو سانپ کے مماثل قرار دے لیا، علی ہذا القیاس۔
میری بلوچستان شناسی کا سفر بھی اسی طرح جاری رہتا اگر بیچ میں عمار مسعود نہ آ جاتے۔ عمار مسعود نے خالد فرید کے ساتھ مل کر ایک کتاب لکھی ہے۔ ‘ میر ہزار خان مری’ یہ صاحب وڈو مری کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔ یہ ان ہی کی سوانح اور جدو جہد کی کہانی ہے۔
بلوچستان کی تاریخ ، مسائل اور کسی حد تک شخصیات پر بہت سی کتابیں میری نگاہ سے گزری ہیں لیکن ایسی کوئی کتاب اب تک دیکھنے کو نہیں ملی جو کہانی تو ایک فرد کی ہو لیکن اس میں ماجرا ایک خطے، ایک تہذیب اور کئی نسلوں کا بیان ہو جائے۔ ایسی بہت سی کتابیں پڑھنے کو اور گفتگوئیں سننے کو ملتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان والے ناراض کیوں ہیں لیکن یہ بتانے والا آج تک کوئی نہیں ملا کہ ا س ناراضی نے بلوچوں کی نفسیات پر کیا اثر ڈالا؟
ہم اہل پاکستان کے پرکھوں نے ہجرت کی ہے۔ ایک ایسی ہجرت جسے پون صدی گزرنے کے باوجود آج بھی دنیا کی سب سے بڑی اور اذیت ناک ہجرت تسلیم کیا جاتا ہے لیکن یہ تجربہ ہمارے بزرگوں پر بیتا ہے۔ ہمارے عہد میں ا س پر سیاست اور دانش وری تو ہوتی ہے لیکن کم ایسے لوگ ہوں گے جن کی روح پر اس ہجرت کے زخموں کی ٹیس آج بھی اسی طرح اٹھتی ہو جیسا درد ہمارے بزرگوں نے محسوس کیا لیکن کیا ہم جانتے ہیں کہ عین اسی زمانے میں جس میں ہم جیتے اور سانس لیتے ہیں بلوچستان میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو در بہ در ہوئے جنھوں نے اپنے بیوی بچوں، دوستوں اور ہزاروں افراد پر مشتمل قبیلوں کے ساتھ افغانستان ہجرت کی ہو؟ وہاں جا کر مسلح لشکر ترتیب دیے ہوں، سوویت جرنیلوں نے جن سے سلامی لی ہو اور ان لشکروں کے نظم و ضبط ، تربیت سخت جانی جو دیکھ کر حیرت سے انگلیاں منھ میں داب لی ہوں؟ یہ خبر شاید اب بھی ہم تک پہنچ نہ ہاری اگر عمار مسعود نے یہ کتاب نہ لکھی ہوتی۔
عمار نے یہ کتاب لکھی تو معلوم ہوا کہ یہ جو ہمارے بلوچ ہیں، خفا ہو کر افغانستان گئے تو ان پر کیا بیتی۔ دیار غیر میں ان کی اولادیں پیدا ہوئیں تو ان کے احساسات کیا تھے اور جب سوویت یونین شکست کھا کر واپس پلٹا تو کیسے راتوں رات افغانستان ان کے لیے اجنبی ہو گیا اور کس کسمپرسی میں انھیں بے یار و مددگار اس قریے سے نکلنا پڑا۔ کیسے انھیں اور ان کی اولادوں کو بے شناخت ہو جانے کے خطرے سے دوبار ہونا پڑا۔
ذرا سوچیے کہ وہ لوگ جنھیں شناخت کے نام پر گھر سے بے گھر کیا کیا تھا اور انھیں اپنے ہی وطن کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے لیے تیار کیا گیا تھا، بے چہرگی کا خطرہ ایک بار پھر ان کے سامنے آکھڑا ہوا ہو گا تو انھوں نے کیا سوچا ہو گا؟ اس آزمائش میں جب کسی غیر ملکی طاقت نے انھیں بار پھر ورغلانے کی کوشش کی ہوگی یا کچھ نئے خواب دکھائے ہوں گے تو ان کے قدم پیچھے ہٹے ہوں گے یا آگے بڑھے ہوں گے؟ پھر جب وہ اپنی غلطیوں کا بھگتان بھگتنے کے بعد اپنے دیس واپس لوٹے ہوں گے اور انھوں نے دیکھا ہو گا کہ ان کی گھروں اور زمینوں پر تو جانے کون کون اجنبی قابض ہو چکا ہے تو ان پر کیا بیتی ہو گی؟
اپنی زمین پر واپس قدم ٹکانے کے لیے انھیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے ہوں گے اور کس کس نے ان سے وعدہ خلافی کی ہوگی؟ پھر ایسا کیا ہوا کہ پاکستان کے خلاف بنائی جانے والی اس فوج کے کمانڈر انچیف کی آنکھیں کھلیں اور اس نے اپنی سر زمین پر سجدہ کرنے کے بعد سبز ہلالی پرچم کو سلامی دی اور تن من دھن سے اس کے ساتھ وفاداری کا اعلان کیا۔ زندگی اور موت کی گھاٹیوں کے نشیب و فراز سے گزرنے والی اس کہانی میں ازمنہ وسطیٰ کے جنگ جوؤں جیسی ناقابل یقین کہانی بیان ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جس کے ہر موڑ اور ہر کردار سے ایک نئی کہانی جنم لیتی ہے۔ بہ ظاہر یہ کہانی تین ساڑھے تین سو صفحات میں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ ہزار داستان جیسی نہ ختم ہونے والی داستان کا نکتہ آغاز ہے۔ کیا ہمارا عمار مسعود اور ان کا ساتھی خالد فرید یہ مہم سر کرنے کے بعد اصل داستاں بھی کہنا شروع کرے گا یا نہیں؟ نہیں معلوم لیکن مجھے اس کا انتظار رہے گا۔
یہ داستان صرف اتنی نہیں کہ اس میں ان برگزیدہ بے وفاؤں کی وفائی کا ماجرا بھی ہے جن کی کی خاطر جان دا ؤپر لگائی گئی لیکن وہی جان کے دشمن ہو گئے۔ عمار مسعود کی لرزا دینے والی اس کتاب سے یہ سراغ بھی ملتا ہے کہ آج کے فراری اور مسلح علیحدگی پسندوں کو اسلحہ کہاں سے ملا۔ وہ کون ہے جو آج بھی جنگ کی آگ کو بھڑکا رہا ہے؟ میر ہزار خان مری کی اس کہانی سے ان رازوں سے بھی پردہ اٹھتا ہے اور کچھ ایسی باتوں کی خبر بھی ہوتی ہے جو مصنفین نے لکھی نہیں ہوتیں۔
کوئی صاحب نظر ان بے لکھی سطور کو بڑھ سکے تو میں شرطیہ کہتا ہوں کہ وہ نہ صرف آج کی بے چینی کے اسباب و رموز کو سمجھ سکے گا بلکہ یہ بھی جان جائے گا کہ ان مسائل سے نمٹنا کیسے ہے؟ ویسے تو بالکل نہیں جیسے آج کل نمٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر انسانی جانوں کے لوتھڑے اڑے تو سمجھ میں آیا کہ بلوچستان کو سمجھنے کے لیے اس کی روح کو سمجھنا ضروری ہے۔ عمار مسعود کی کتاب یہی کام کرتی ہے۔