یہ امریکی ریاست، کیلی فورنیا کا شہر واکاویل (Vacaville)ہے۔ شام کا وقت اور خاصی تیز ہوا چل رہی ہے۔ وہ دیکھیے، سجاد شکور کھانوں سے بھرے گتے کے ڈبوں کو سولانو اسٹیٹ جیل کے باہر ایک مقررہ مقام پر اتارنے میں مصروف ہیں۔ یہ قید خانہ کیلیفورنیا کے ریاستی جیل نظام کو تشکیل دینے والی چونتیس جیلوںمیں سے ایک ہے۔
شکور کی ہلکی سرخ ڈاڑھی ہے۔ انھوں نے سر پر سفید کوفی ٹوپی پہن رکھی ہے۔ لباس بھی مسلمانوں جیسا ہے۔وہ اپنے ٹرک کے پچھلے حصے سے ایک کے بعد ایک ڈبہ اٹھاتے ہیں۔ ہر ایک ڈبے میں چھوٹے گوشت سے بنا شوارما، چاولوں کے رسیلے پیالے، چکن بریٹوز اور میٹھے بکلاوا کی پلیٹیں موجود ہیں۔
جب شکور اس قید خانے میں داخل ہوتے ہیں، خاردار تاروں اور سنڈر بلاک کی چیک ان عمارت کی ایک باڑ سے چند قدم آگے، تو وہ ایک ایسی دنیا میں واپس جا رہے ہیں جس کے بارے میں انھیں لگتا تھا کہ وہ کبھی وہاں سے نکل نہیں سکیں گے۔
وہ ڈبوں کو ایک بڑے کمرے میں لاتے ہیں جہاں قیدی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اس کمرے کی دیواروں کوگرم ہوا کے رنگ برنگے غباروں سے سجایا گیا ہے۔ دیواروں پر خوبصورت وادیوں کی دلفریب تصاویر بھی چسپاں ہیں۔ یہ کمرا دیکھ کر بالکل نہیں لگتا کہ وہ ایک جیل کا حصہ ہے جہاں مقید انسان آزادی سے محروم ہو کر تکلیف بھری زندگیاں گذارتے ہیں۔
اس کمرے میں شکور درجنوں مسلمان نمازیوں اور نومسلموں سے خطاب کریں گے جو انھیں بولتے ہوئے سننے آئے تھے۔اس کے بعد وہ شکور کے مشہور ریستوراں، فلافل کارنر (Falafel Corner) میں بنائے گئے متنوع ،منہ میں پانی بھر لانے والے کھانوں سے لطف اندوز ہوں گے۔
“میں طویل عرصے سے ٹاپ رامین (نوڈلز کا ایک برانڈ )کھا رہا ہوں۔” تقریب میں موجود ایک 69 سالہ شخص، کالی نے لوگوں کو بتایا جو قتل کے الزام میں 40 سال سے زیادہ عرصے سے قید ہے۔ ’’ یہ کھانا اس سے کہیں زیادہ اچھا ہے۔‘‘
رفتہ رفتہ کمرا قیدیوں سے بھر جاتا ہے۔ اس ہجوم کی سب سے خاص بات لوگوں کی عمروں کا تنوع ہے۔ کوئی نوجوان ہے تو کوئی بوڑھا مگر سب ایک مقصد کے تحت جمع ہوئے ہیں۔ نیلے رنگ کی قمیصوں اور سر پہ منڈھی ٹوپیاں پہنے نوجوان مرد بوڑھے مردوں کے ساتھ ساتھ بیٹھے ہیں۔ان کی پشت پر ’’ CDCR (کیلیفورنیا ڈیپارٹمنٹ آف کریکشن اینڈ ری ہیبلیٹیشن) قیدی” لکھا ہے۔سبھی سجاد شکور کی باتیں سنتے ہوئے ہولے ہولے کھانا کھانے میں محو ہیں۔ شکور کہہ رہے ہیں :
“میرے والد نے ہمیشہ مجھے کہا کہ اگر کامیابی محنت کے ذریعے ملتی ہے ، تو سب سے زیادہ محنت کرنے والا گدھا ہے۔بات یہ ہے کہ کامیابی صرف اللہ تعالی کے کرم سے ملتی ہے، وہ جس کو بھی بخش دے۔میرے لیے اب سب سے زیادہ خوشی کی بات یہاں آ کر آپ سب کو کھانا کھلانا ہے کیونکہ میں نے بھی یہاں وقت گزارا ہے۔‘‘
سجاد شکور کو عمر قید کی سزا ہوئی تھی۔ انھوں نے کچھ عرصہ سولانو اور کئی دیگر ریاستی جیلوں میں بسر کیا۔ وہ کہتے ہیں، اسیری کے دوران انھیں کھانا پکانے اور اسلام میں سکون ملا ۔وہ مسلمان پیدا ہوئے تھے مگر اپنے مذہب پہ کاربند نہ رہے۔پھر دوران قید وہ اسلام کے عقیدت مند پیروکار بن گئے۔
ایمان کے ساتھ ساتھ کھانا پکانے کا شوق جو شکور کا پیشہ بن گیا، جیل کی زندگی کے عام معمولات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے میں مدد کرتا تھا۔یہ ان کے لیے مقصد زندگی اور تکمیل کا ایک ذریعہ بن گئے اور انھیں مایوسی دور کرنے میں مدد دی۔’’میں نے سوچا تھا کہ میں جیل میں مر جاؤں گا۔” وہ کہتے ہیں۔ “یہ احساس کہ آپ کبھی قید خانے سے نکل نہیں پائیں گے، یہ قبول کرنا واقعی مشکل ہے۔ یہ بہت سے لوگوں کو توڑ دیتا ہے۔”
تخلیقی صلاحیتوں کا ذریعہ
جیل کی دیواروں میں تحریروں اور تصاویر کی عجب اختراع پسندی ملتی ہے تاہم کھانا روزانہ تقریباً ایک جیسا ملتا ہے۔کھانے کی اسی یکسانیت نے شکور کو کھانا پکانے کے فن کی طرف مائل کر دیا۔
وہ کہتے ہیں، جیل انتظامیہ حلال(اسلامی قانون کے مطابق تیار کردہ )گوشت کے متبادل ہمیں جو کھانے دیتی تھی، مثلاً پھلیاں، چاول، مونگ پھلی کا مکھن وغیرہ ، وہ مزے دار نہیں ہوتا تھا۔ اسی لیے مجھے اپنے نوڈلز یا ٹونا مچھلی یا جو کچھ بھی مجھے مل جاتا ، پکانے کے لیے تخلیقی طریقے تلاش کرنے پڑے۔”
شکور نے پہلے اپنے سیل میں عارضی برتن اور کھانا پکانے کے لیے درکار ضروری سامان جمع کیا ۔اس کے بعد ایسے پکوانوں کی ترکیبوں کا ذخیرہ بنانا شروع کیا جو ساتھیوں کے علاوہ جیلروں کے مابین بھی مشہور تھے۔ مزید حوصلہ افزائی کے لیے اس نے کتابیں اور پی بی ایس کوکنگ شوز کی تلاش کی۔
اگر اجزا کی محدود دستیابی کھانا پکانے کے لیے ان کے تخلیقی نقطہ نظر کا ایک عنصر بنا، تو ریاستی جیل کی آبادی کے تنوع نے بھی اپنا حصہ ڈالا ۔ شکور کے پکوان میں میکرونی اور پنیر جیسے مانوس اجزا کے ساتھ میکسیکن اور جنوبی ایشیائی کھانوں کے عناصر شامل تھے۔ وہ خود پاکستانی ورثے سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن ان کا من پسند کھانا بوریتو(burrito) تھا جو شوارمے سے ملتا جلتا ہے۔
شکور یاد کرتے ہیں، “میں عمدہ بوریتو پکانے کی وجہ سے لوگوں میں مشہور ہو گیا۔ وجہ یہ کہ میرے پکائے بوریتو میں روایتی میکسیکن اور کچھ مختلف چینی اجزا کے ساتھ ساتھ بھارتی اور پاکستانی کھانوں کے اثرات بھی تھے۔ اس وجہ سے بوریتو منہ میں پہنچ کر منفرد ذائقہ عطا کرتے۔‘‘
امریکی جیلوں میں بھی کھانا عام طور پر بدذائقہ ہوتا ہے۔ اس لیے بہت سے لوگ کیلوریز کی اپنی ضروریات پورا کرنے کے لیے کمیسریز (commissaries) کے نام سے معروف مقامی اسٹورز پر انحصار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، ان اسٹوروں میں شکور کے پکائے بوریتو کی مانگ بڑھ گئی۔
ایک دن شکور نے جیل کے محافظوں کو بھی بوریتو کھلائے جو انھیں بہت پسند آئے۔ امریکی جیلوں میں قیدی محافظوں کی خوشنودی کے لیے ایسے اقدام کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آئیں۔
ایک دفعہ ایک محافظ نے گارڈ ٹاور سے اتر کر یہ جاننے کا مطالبہ کیا کہ اسے دیا گیا بوریتو کس نے بنایا ہے۔اس پر شکور کچھ پریشان ہو گئے کہ نہ نجانے کیا ہو گیا۔ لیکن گارڈ شیف کو داد دینے نیچے آیا تھا۔’’ اس نے کہا کہ میرا خاندان ایک فوڈ ٹرک چلاتا ہے مگر میں نے آج تک اتنا زیادہ لذیذ بوریتو کبھی نہیں کھایا۔” شکور ہنستے ہوئے بتاتے ہیں۔
لیکن کھانا پکانے کی مہارتیں پانے کے لیے ان کو درکار وسائل زیادہ مستقل مزاجی کے ساتھ دستیاب نہیں تھے۔ باورچی خانے تک رسائی بھی ہر علاقے کے اصولوں کی رو سے کم یا زیادہ ہوتی تھی۔ کچھ امریکی جیلیں کھانا پکانے کے ضمن میں قیدیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں مگر دیگر میں سخت قسم کی پابندیاں لگی ہیں۔بعض قید خانوں میں تو کچن میں داخل ہونے سے پہلے اور بعد میں قیدی کی اچھی طرح تلاشی لی جاتی ہے تاکہ وہ باورچی خانے سے کسی قسم کا سامان اپنے سیل میں نہ لے جا سکے۔
شکور بتاتے ہیں کہ جب وہ کیلی فورنیا کی قدیم ترین جیل، سان کوینٹن میں قید تھے تو حالات مثبت رخ کی سمت بدلنا شروع ہوئے۔یہ مشہور جیل سان فرانسسکو بے کے کنارے واقع ہے۔ اور مئی 2024 ء تک پھانسی کے منتظر قیدی اسی جیل میں قید ہو کر اپنی موت کا جان لیوا انتظار کرتے تھے۔ لہذا یہ امر تعجب خیز ہے کہ اسی قید خانے میں سجاد شکور کی قسمت نے خیر کی جانب پلٹا کھا لیا۔
ہوا یہ کہ شکور کی قید کے دوران سان کوینٹن میں مسلم قیدیوں کا ایک گروہ آ گیا جن پر سیاسی نوعیت کا مقدمہ چل رہا تھا۔ وہ مسلمان حلال کھانے کھانا چاہتے تھے۔اس لیے جیل میں حلال کھانے پکانے کی خاطر باورچی خانہ قائم کر دیا گیا۔وہاں شکور صاحب کو بھی کھانے پکانے کی ذمے داری سونپی گئی۔یوں انھیں یہ سنہرا موقع مل گیا کہ وہ طباخی کے اپنے ہنر بخوبی مانجھ سکیں۔ کھانے پکانے کی مشق نے ان کو ماہر باورچی بنا دیا۔شکور کہتے ہیں:
“میں یہ کہوں گا کہ سان کوینٹن میں مجھے بھرپور موقع ملا کہ واقعی کھانا پکانے کی اپنی مہارتوں کو بہتر سے بہتر بنا لوں۔ میں انھیں مانجھنے کے بنانے کے قابل تھا۔”
غیر متوقع دوسرا موقع
صرف چند سال بعد کھانے پکانے کی مہارتیں ان طریقوں سے کام میں لائی جانے لگیں جن کا سجاد شکور نے کبھی تصّور بھی نہیں کیا تھا۔وجہ یہ بنی کہ غیر متوقع طور پرانھیں رہا کر دیا گیا۔یوں ان کو آزادی کی زندگی پھر میسّر آ گئی۔
اس زمانے میں کیلی فورنیا کی جیلوں میں قیدیوں کی آبادی بہت زیادہ ہو چکی تھی۔ وجہ یہ کہ ریاست کے قانون سازوں نے مختلف قسم کے جرائم روکنے کے لیے مجرموں کو سخت سزائیں دینے کی خاطر بہت قانون سازی کی تھی۔ حتی کہ معمولی جرائم کرنے والے بھی طویل عرصہ قید میں سڑتے رہتے۔ ریاستی قوانین میں سب سے زیادہ بدنام “تین حملوں کا قانون‘‘(Three strikes law) تھا۔ اس کے ذریعے یہ طے کیا گیا کہ جو شہری تین جرم کرے گا، اسے طویل عرصے تک جیل میں رکھا جائے گا۔
بدقسمتی سے سجاد شکور لڑکپن میں بری صحبت اختیار کر لینے کی وجہ سے چور بن گئے تھے ۔انھوں نے چوری کی وارداتیں کیں اور دو بار پکڑے بھی گئے۔1997 میں ان کی وجہ سے دو پڑوسیوں میں لڑائی ہو گئی۔ پولیس آئی تو لڑنے والوں کے ساتھ شکور کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ انھوں نے زیادہ سوچے بغیر خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔
دراصل وہ اس ریاستی قانون سے نابلد تھے کہ کیلیفورنیا میں لڑائی پر اکسانے والے شخص کو جھگڑے کے دوران کیے جانے والے حملے جیسے جرائم کا ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے، چاہے اس نے خود لڑائی میں براہ راست شرکت نہ کی ہو۔ چونکہ شکور نے اپنا ” تیسرا جرم”کر ڈالا تھا، اس لیے درج بالا اصول کے تحت انھیں 25 سال عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔
سجاد شکور ان بہت سے لوگوں میں سے ایک تھے جنہیں 1980 ء اور 2006 ء کے درمیان مجرمانہ انصاف کے نظام میں ریکارڈ تعداد میں شامل کیا گیا ۔اسی وجہ سے کیلیفورنیا کی جیلوں کی آبادی سات گنا بڑھ گئی نیز ریاستی جیلوں کی تعداد بھی 11 سے بڑھ کر 33 تک جا پہنچی۔
ریاست کی اسٹیبلشمنٹ کا یہ نظریہ تھا کہ ہر قسم کے مجرموں کو سخت سزائیں دی جائیں۔لہذا ایسے سخت ماحول میں پیرول پر رہائی بھی ایک خواب بن کر رہ گیا۔ کسی قیدی کو رہائی کے لیے بہت جدوجہد کرنا پڑتی۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریاست کو احساس ہوا کہ جرائم پیشہ لوگوں پر سختی کرنا مسئلے کا حل نہیں۔ مذید براں جیلوں میں بند قیدیوں کے اخراجات بڑھتے چلے جا رہے تھے اور وہ بجٹ پر بوجھ بن گئے۔اسی لیے آوازیں اٹھنے لگیں کہ جرائم کی روک تھام کے نظام میں اصلاحات کی جائیں۔آخر 2012 ء میں ریاستی ووٹروں نے ’’تجویز 36‘‘ کی منظوری دے دی جس نے کم سنگین جرائم کے مرتکب افراد کو سزا میں کمی کے امکان کی اجازت دے کر “تین حملوں کے قانون‘‘ میں اصلاحات کر دیں۔
سجاد شکور غور سے تبدیلیوں کا جائزہ لے رہے تھے۔ ظالمانہ قانون میں تبدیلی سے ان کو خوشی ہوئی۔ مگر انھیں یہ بھی خوف تھا کہ وہ پچیس سال کی قید پوری کر کے ہی آزاد ہوں گے یا شاید کبھی جیل سے نہ نکل سکیں۔
اس ڈر کے باوجود “تین حملوں کے قانون‘‘ میں تبدیلی کی تجویز منظور ہونے کے کچھ عرصے بعد شکور نے پیرول کے لیے درخواست دی اور اسے منظور کر لیا گیا۔ اس طرح 28 مئی 2013 ء کو سولانو اسٹیٹ جیل سے مع کتابوں اور خطوط کے ایک چھوٹا بیگ دے کر ان کو رہا کر دیا گیا۔شکور کہتے ہیں:
’’جب مجھے آزاد زندگی بسر کرنے کا دوسرا موقع ملاتو اس لمحے کی خوشی ، نامعلوم کے خوف اورگھبراہٹ کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
جب وہ جیل سے رہا ہوئے تو ٹی وی چینلوں کے صحافی بھی آئے ہوئے تھے۔ وہ اصلاحات کی کوششوں پر ایک دستاویزی فلم بنا رہے تھے۔ ایک صحافی نے پوچھا ، آپ سب سے پہلے کہاں جائیں گے؟شکور نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر جواب دیا:’’مسجد‘‘
شکور بتاتے ہیں’’میں واضح طور پر سمجھ گیا تھا کہ میری رہائی کا ذمے دار کون ہے۔ اب میں اللہ پاک سے اپنی عقیدت ظاہر کرنا چاہتا تھا۔”
مشکل کے ساتھ راحت
آزادی واپس ملنے کے بعد سجاد شکور کے ذہن میں صرف مسجد جانا ہی کافی نہیں تھا۔معاشرے میں دوبارہ داخل ہوتے کئی دوسرے آزادی پانے والے قیدیوں کی طرح ضرورتوں کی ایک لمبی فہرست ان کے سامنے تھی۔ مثلاً اپنے پیاروں سے ملاقات،رہائش کا بندوبست کرنا اور پھر ملازمت کی تلاش۔پھر سابقہ قیدیوں کو معاشرے میں جذب ہوتے ہوئے رکاوٹوں اور مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
شکور صاحب نے بہرحال بیشتر سابقہ قیدیوں میں سب سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ رہائی کے چند ہفتوں بعد ہی ان کو بے ایریا کے علاقے میں مشرق وسطی کے کھانے پکانے والے ریستوراں’’ فلافل کارنر‘‘(Falafel Corner) میں نوکری مل گئی۔ انھوں نے اپنے سیل اور پھر جیل کے باورچی خانوں میں عارضی برتنوںکو بروئے کار لاتے ہوئے طباخی کی جو مہارتیں حاصل کی تھیں اب وہ ایک نئے کیریئر کی تعمیر کے لیے استعمال ہونے لگیں۔محنت کے باعث انھیں جلد ہی ریستوراں میں کھانے پکانے کا سارا انتظام سونپ دیا گیا۔
2016 ء میں ریستوراں نے سیکرامنٹو کے علاقے میں دوسری شاخ کھول لی۔ 2018 ء میں سجاد شکور نے مالک کو مطلوبہ رقم دے کر ریستوراں خرید لیا۔ انھوں نے جمع پونجی کے علاوہ دوستوں سے بھی قرض لیا۔ اللہ تعالی نے ان کے کاروبار میں برکت ڈالی اور آج ریاست کیلی فورنیا میں فلافل کارنر کی 30 سے زیادہ فرنچائزز کام کر رہی ہیں۔
کھانا پکانا ایک ایسا ہنر تھا جسے سجاد شکور نے جیل سے نکلنے کے بعد بھی بہتر بنایا اورآج بھی اس میں جدت اپناتے ہیں۔ ساتھ ساتھ وہ ریاست کے فوجداری انصاف نظام (criminal justice) میں اصلاحات کے عمل میں بھی دلچسپی لینے لگے۔
سجاد شکور نے قید کے دوران مراسلاتی تعلیمی کورس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اوہائیو یونیورسٹی سے گریجویشن کر لی تھی۔ 2014 ء میں انھوں نے قانون’’ SB 1391 ‘‘کی حمایت میں ریاستی سینیٹ میں گواہی دی جس نے کیلیفورنیا کی جیلوں میں قید لوگوں کے لیے کالج کی تعلیم تک رسائی کو زیادہ آسان بنا دیا تھا۔ یہ بل ستمبر 2014 ء میں منظور ہوا اور گورنر کے دستخط سے قانون بن گیا۔
2023 ء میں سجاد شکور نے نئے قانون’’ SB 309 ‘‘ کے حق میں بھی آواز بلند کی۔اس کے ذریعے کیلیفورنیا کے حراستی مراکز میں ہر مذہب کے لوگوں کو مذہبی سہولیات دی جانے لگیں اور مسلم خواتین کو نقاب پہننے کا حق دیا گیا۔
سجاد شکور نے تب افشا کیا کہ دوران اسیری مذہبی رسومات پر عمل کرنے کی وجہ سے انھیں بھی ہراساں اور تنگ کیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر وہ اسلام اور پاکستان سے عقیدت کا اظہار کرنے کی خاطر اکثر اپنے اجداد کی چترالی ٹوپی پہنتے تھے۔ 2002ء میں جیل انتظامیہ نے انھیں حکم دیا کہ یہ ٹوپی نہ پہنا کرو۔جب انھوں نے انکار کیا تو انتظامیہ نے شکور صاحب کو سات دن کے لیے قید تنہائی میں بھیج دیا ۔
آج سجاد شکور کی پسندیدہ ترین سرگرمی یہ بن چکی کہ وہ ریاست بھر کی جیلوں میں جاتے اور وہاں قید مسلمانوں میں کھانا بانٹتے نیز ان کو اسلامی عبادات کی جانب بلاتے ہیں۔ وہ غیرمسلموں کو بھی کھانے کی دعوت دیتے اور ان کے مابین تبلیغ اسلام کرتے ہیں۔ یہ سرگرمی 2017ء سے جاری ہے۔ شکورکہتے ہیں کہ وہ عام طور پر ہر سال تقریباً پانچ ایسے دورے ضرور کرتے ہیں اور بعض اوقات ان کی تعداد دس تک پہنچ جاتی ہے۔
یہ کوئی معمولی سرگرمی نہیں جیسی بظاہر دکھائی دیتی ہے۔پہلے تو شکور صاحب مع ٹیم کثیر مقدار میں کھانے پکاتے اور انھیں ڈبوں میں پیک کرتے ہیں۔ پھر جیل کی افسر شاہی سے نمٹنے کا سخت مرحلہ آتا ہے۔ وہ کڑی جانچ پڑتال کے بعد ہی انھیں قیدیوں سے ملنے کی اجازت دیتی ہے۔
مسائل اور تکالیف کے باوجود شکور صاحب نے قیدیوں کی خدمت کرنا اپنا شعار بنا لیا ہے۔ دراصل اس طرح اول انھیں قیدیوں کی رفاقت میسّر آتی ہے۔ پھر وہ اپنے قول وفعل سے قیدیوں میں اُمید و خوشی کے پھول کھلا دیتے ہیں۔ ورنہ جیل کی عام زندگی تو قیدیوں کو مایوسی اور غصّے سے بھر دیتی ہے۔
سان کوینٹن جیل خانے میں قید کے دوران سجاد شکور اکثر صحن میں موجود ایک چٹان کے قریب بیٹھتے تھے۔ تب انھیں یقین تھا کہ وہ اپنی باقی زندگی سلاخوں کے پیچھے گزاریں گے۔تبھی چٹان پر ایک پودا لگا جس پہ پھول بھی کھل گئے۔ ان پھولوں نے شکور صاحب کو متحیرکر دیا۔ وہ کہتے ہیں:
“ہم ہمیشہ اپنے ماحول کو تبدیل نہیں کر پاتے جیسے کہ وہ پھول نہیں کر سکتے تھے۔لیکن ہم ان چیزوں سے اوپر اٹھنا سیکھ سکتے ہیں جو ہمیں روکے رکھتی ہیں اور اپنے اردگرد کے ماحول کو اپنی ترقی و بہتری کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔”
ہم رنگ برنگے غباروں سے سجے سولانو جیل والے کمرے میں واپس آتے ہیں جہاں69 سالہ کالی نامی قیدی بڑے مزے سے اپنا بوریتو کھا رہا ہے۔ شکور اسے اس وقت سے جانتے ہیں جب وہ دونوں پلیزنٹ ویلی اسٹیٹ جیل میں قید تھے۔ان دونوں کی گفتگو کا محور اکثر وہ سکون و اطمینان اورامن کا احساس ہوتا جو انھوں نے اسلام کے ذریعے پایا۔
کالی مذہباً عیسائی تھا۔ قید میں اس نے پھر بائیبل اور قران ، دونوں کا مطالعہ کیا تاکہ خود کو اخلاقی طورپہ سدھار سکے۔ قرانی تعلیمات سے وہ اتنا متاثر ہوا کہ اس نے 1992 ء میں اسلام قبول کر لیا۔دراصل بہت سے قیدی مایوسی ، ڈپریشن اور ناامیدی کا مقابلہ کرنے کے لیے مذہب کا سہارا لیتے ہیں کیونکہ وہ انھیں مقصد ِ زندگی کے ساتھ ساتھ اُمید بھی عطا کرتا ہے۔
قیدی صرف کھڑکی کے راستے آزاد دنیا سے رابطہ رکھتے ہیں۔ قید انھیں اکثر غم وغصّے میں بھی مبتلا کر دیتی ہے۔ایسے میں مذہبی تعلیم ان کے دکھوں کا مداوا بن کر انھیں پیار ومحبت، رحم، قناعت، ایثار کے لافانی جذبوں سے آشنا کراتی ہے۔ یوں کئی قیدی سکون کی دولت سے مالامال ہو کر مذید کوئی شر انگیز حرکت کرنے سے باز رہتے ہیں۔
یہ ایک ایسا جادوئی احساس ہے جسے سجاد شکور گہرائی سے سمجھتے ہیں اور ان کا دوست کالی بھی۔ کالی کا کہنا ہے کہ اب وہ سولانو جیل میں غصّے کو قابو میں کرنا سکھلانے والی کلاسز کی قیادت کر کے دوسروں کی مدد کرتا ہے۔جبکہ سجاد اکثر قرآن کی اپنی پسندیدہ آیت کا حوالہ دیتے ہیں:’’بے شک، مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے۔‘‘