اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ انگیج ہیں، ہماری آؤٹ لائن ہے مذاکرات بیک چینل رکھنا چاہیے، رہنما پی ٹی آئی

اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ انگیج ہیں، ہماری آؤٹ لائن ہے مذاکرات بیک چینل رکھنا چاہیے، رہنما پی ٹی آئی



اسلام آباد:

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سابق سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن نے پارٹی کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے آؤٹ لائن مرتب کی ہے اگر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات ہونے ہیں تو اس کو بیک چینل رکھنا چاہیے کیونکہ اس سے عوام میں اچھا تاثر نہیں جاتا۔  

ایکسپریس نیوز کے پروگرام ‘سینٹر اسٹیج’ میں گفتگو  کرتے ہوئے رہنما پی ٹی آئی رؤف حسن  نے کہا ہے کہ مذاکرات ناگزیر ہیں ملک کی بہتری کے لیے مذاکرات ہونے چاہئیں، اگر پارٹی کی اجازت  نہ ہو تو اعظم سواتی کوئی مذاکرات  نہیں کر سکتے، ہم کسی ڈیل کے لیے مذاکرات نہیں کر رہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی آوٹ لائن مرتب کی ہوئی ہے، اگر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات ہونے ہیں تو اس کو بیک چینل رکھنا چاہیے، ان معاملات کو  پبلک ڈومین میں نہیں لانا چاہیے، اس سے اچھا تاثر نہیں جاتا۔  

انہوں نے کہا کہ ہم مذاکرات کا خیرمقدم کریں گے، ہم اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ انگیج بھی ہیں، خیبرپختونخوا (کے پی) میں ہماری حکومت بھی ہے، ریاست کو آگے لے جانے کے لیے بنیادی اصول طے ہونے  چاہئیں، انہی اصولوں کے تحت ہم مذاکرات کریں گے۔

اپنا موقف دہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم ڈیل نہیں مانگ رہے ہیں، ہم مذاکرات کے ذریعے صاف و شفاف  انتخابات چاہتے ہیں، جس کا مینڈیٹ ہو اس کو حکومت دی جائے۔

رؤف حسن نے کہا کہ سیاسی عدم استحکام میں کوئی ملک میں پیسہ نہیں لگائے گا، ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہے، ملک میں سیاسی استحکام لانا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے  اعتراضات سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ مذاکرات کا مقصد کیا ہے، اگر صاف و شفاف انتخابات ہو جائیں تو کسی جماعت کو اس پر اعتراض نہیں ہو گا، اگر صرف اپنے لیے ڈیل مانگیں تب کسی دوسری جماعت کو اعتراض ہو گا، میرا  نہیں خیال کہ صاف و شفاف انتخابات پر کسی جماعت کو اعتراض ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے ہم  سے 15 اپریل تک وقت مانگا ہوا ہے اور وہ اپنے فیصلے سے 15 اپریل کو ہمیں آگاہ کریں گے، مولانا کے جواب کے بعد ہم اپوزیشن اتحاد کی لیڈر شپ ترتیب دینے اور دیگر فیصلے کریں گے۔

رؤف حسن نے کہا کہ میں پر امید ہوں لیکن فیصلہ ہمیں نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمان کریں گے۔





Source link