لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ اسموگ کے خلاف ہم اپنے اقدامات پر عمل کرلیں تب بھی ہوا کے رخ ہونے پر بھارتی پنجاب سے اسموگ یہاں آجاتی ہے، جو اقدامات ہم کر رہے ہیں وہ بھارتی پنجاب کو بھی کرنے چاہئیں تاکہ دونوں جگہ کے لوگ تکلیف بچیں۔
یہ بات انہوں نے لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے گرین پنجاب ایپ کا افتتاح کردیا، انہوں نے اسموگ ہیلپ لائن 1373 کا بھی افتتاح کیا، لیڈرانٹرن شپ پروگرام کے شرکا میں سرٹیفکیٹ تقسیم کیے۔
انہوں نے کہا کہ اسموگ کے سبب سانس کے امراض بڑھ جاتے ہیں اسکول بند کرنے پڑجاتے ہیں نظام زندگی مفلوج ہوجاتا ہے، محض بٹن دبانے سے اسموگ ختم نہیں ہوگی مختلف اقدامات کرنے ہوں گے اور مسلسل کرنے ہوں گے تب ہی اس کا خاتمہ ہوگا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہمارے پاس اسموگ کے خلاف مکمل پلان تیار ہے، ہم یہاں اس پر عمل کربھی لیں تب بھی ہوا کے رخ ہونے پر بھارتی پنجاب سے اسموگ ہوا کے تھرو آجاتی ہے، اسے کلائمیٹ ڈپلومیسی کہتے ہیں جو ہمیں انڈیا کے ساتھ کرنی چاہیے جو ایکشن ہم لوگ لے رہے ہیں وہ بھارتی پنجاب کو بھی لینے چاہیں تاکہ دونوں جگہ کے لوگ تکلیف بچیں۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ انٹرن شپ پروگرام کے تحت وظیفہ 25 ہزار سے بڑھا کر 60 ہزار روپے کیا جارہا ہے انٹرن شپ کے بعد ملازمت کے مواقع بھی پیدا کریں گے۔
ان کا کہنا تھاکہ میں کسی کے روزگار کے خلاف نہیں مگر اینٹوں کے بھٹوں سے پورے پنجاب کے عوام کی جانوں کو خطرہ ہے، اسی طرح بچی ہوئی فصل جلانے سے جس قدر اسموگ پیدا ہوتی ہے اس کا عوام کو اندازہ نہیں، اس پر ہم نے جرمانے لگائے اور گرفتاریاں بھی کی ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ ہم نے لازمی کردیا کہ جو سڑک بنے گی اس کے دونوں طرف درخت لگیں گے جس کے بعد اب تک صوبے میں 7 ماہ کے دوران 78 لاکھ تک درخت لگاچکے ہیں، ان درختوں نے سلیمانی ٹوپی نہیں پہنی ہوئی، وہ جو ایک ارب درخت لگانے تھے معلوم کہ اس کے پیسے لوگوں کی جیبوں میں چلے گئے۔
مریم نواز نے کہا یہ تو ماحولیاتی آلودگی تھی ایک سیاسی آلودگی بھی ہے جو نظر نہیں آتی مگر ملک کو تباہ و برباد کردیتی ہے، روز گھیراؤ، احتجاج کی باتیں سننے کو ملتی ہیں، احتجاج کرنے کے لیے انہیں کے پی سے سرکاری بندوں کو یہاں لانا پڑتا ہے اور وہ بھی سرکاری گاڑیوں میں۔
انہوں ںے کہا کہ یہ ہم نے کتنی غلط روایت قائم کی ہے کہ ہفتے کو احتجاج خیبرپختونخوا پولیس کے اہلکار پکڑے گئے جو اسلام آباد اور پنجاب پولیس پر حملہ کررہے تھے، کتنے پولیس والے زخمی ہوئے اور ایک شہید ہوا، ابھی ایس سی او کانفرنس شروع ہونے والی ہے ہم انہیں کیا چہرہ دکھائیں کہ ایک صوبہ دوسرے صوبے پر حملہ آور ہے، نہ خود کام کرنا ہے اور نہ کرنے دینا ہے، لوگوں نے ان کے احتجاج پر توجہ نہیں دی۔