جنگ عظیم اول سے پہلے تاج برطانیہ دنیا کی قوی ترین سلطنت تھی ۔ ایشیا ء ‘ افریقہ ‘ یورپ اس کے زیر تسلط تھے ۔اسی سال حکومت برطانیہ نے فیصلہ کیا کہ یوگنڈا اور کینیا کو ریل کے توسط سے جوڑ دیا جائے۔
برصغیر اس وقت مکمل طور پر برطانیہ کے زیر اثر تھا۔ چنانچہ مزدور اور دیگر افرادی قوت ہندوستان سے منگوائی گئی۔ مقصد یہ تھا کہ کینیا میں دریائے ٹساؤ کے اوپر پل بنایا جائے۔ دیکھا جائے تو برصغیر ‘ اکثر اوقات صرف مزدور یا درمیانے درجے کے اہل ہنر ہی مہیا کرتا رہا ہے۔
کیونکہ 2025 میں بھی یہی حالات ہیں ۔ یہ پل حد درجے اہمیت کا حامل تھا۔ چنانچہ اس کے لیے ایک اچھے انتظامی افسر کو منتخب کیا گیا۔ کرنل جان ہینری پیٹرسن اس پروجیکٹ کا سربراہ بنایا گیا ۔
مزدوروں کے لیے 13کلو میٹر کے علاقے پر کیمپ قائم کیا گیا۔ برطانوی سامراج کیونکہ غلام قوموں سے خوب استفادہ کر رہاتھا ۔ لہٰذا وسائل کی کوئی کمی نہیں تھی۔ مگر مزدوروں نے کام کرنے سے انکار کر دیا۔
اس کی وجہ حد درجہ اہم تھی ۔ٹساؤ کیمپ کے اردگرد دو ایسے شیر پہنچ گئے جن کو انسان کے سوا کوئی اور چیز پسند نہیں تھی۔ شیر بہت مہارت سے کیمپ میں آتے اورموقعہ پا کر کسی مزدور کو چیرپھاڑ ڈالتے ۔
اس ہیبت ناک شکار میں شیر اتنے ماہر ہو چکے تھے کہ ایک شیر مزدوروں کا جسم کیمپ سے باہر لاتا دوسرا شیر رہائشی خیموں کے باہر پہرہ دیتا ۔ یہ شیر دہشت اور خوف کی علامت بن چکے تھے ۔ ان کو دور رکھنے کے لیے متعدد کوششیں کی گئیں ۔
جیسے رہائشی خیموں کے اردگرد آگ کے آلاؤ جلائے جاتے ۔ ساتھ ساتھ کانٹوں بھری حفاظتی دیوار بھی بنائی گئی ۔ مگر اس کا کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ شیر دیوار جو ایک مخصوص درخت کی بنی ہوئی تھی،
اس کے نیچے سے نکل کر مسلسل مزدوروں کو کھاتے رہے ۔ اس سارے معاملے کو نو مہینے گزر گئے ۔ شیر اتنے بے خوف ہو گئے کہ انھوں نے دن میں بھی لوگوں پر حملہ کرنا شروع کر دیا ۔ پیٹرسن نے بیس مسلح شکاری منگوائے تاکہ اس مصیبت کا مقابلہ کیا جاسکے ۔
مزدوروں میں بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ بہت قلیل عرصے میں ایک سو اٹھتیس لوگ لقمہ اجل بن چکے تھے۔ اب پیٹرسن نے دن اور رات ان شیروں کو مارنے کا کام شروع کر دیا اور اس میں ہر حربہ استعمال کیا ۔
مختلف مقامات پر جال بھی بچھائے گئے تاکہ شیر کسی طریقے سے قابو آ جائیں ۔ مگر یہ صرف ایک خواب رہا۔ پیٹر سن لکھتا ہے کہ متعدد ناکام کوششوں کے بعد 9دسمبر 1898 کو ایک طاقتور رائفل سے ایک شیر کو زخمی کر دیا گیا۔ گولی اس کی ٹانگ پر لگی مگر وہ بچ کر نکل گیا ۔
مگر اسی رات کو زخمی شیر جب کیمپ کی طرف آ رہا تھا، تو پیٹر سن نے اس کے سامنے والے بازو پر گولی چلائی جو اس کے دل تک پہنچ گئی۔ صبح جب مچان سے نیچے اترا تو نزدیک ہی شیر مرا پڑا تھا ۔
پیٹرسن نے مردہ شیر کو اٹھانے کے لیے آٹھ آدمیوں کا دستہ بنایا کیونکہ شیر نو فٹ سے زیادہ لمبا تھا ۔اتنا بڑا شیر پیٹر سن اور اس کی ٹیم نے پہلے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔ مگر دوسرا آدم خور شیر زندہ تھا۔ دوسرا شیر پہلے والے سے بھی زیادہ طاقتور تھا ۔
بدستور مزدوروں کے کیمپ پر حملہ کرتا اور اپنا شکار کر کے اطمینان سے واپس چلا جاتا ۔ایک مہینے کی مسلسل جدوجہد کے بعد پیٹر سن کو وہ شیر بھی مل گیا ۔ جانور کی طاقت کا اندازہ لگایئے کہ مچان سے کھڑے ہو کر جب اسے پہلی گولی ماری گئی تو بڑے اطمینان سے واپس چلا گیا ۔
گیارہ دن بعد اس کا شکاری دستے سے آمنا سامنا ہوا تو اسے دو بار رائفل سے گولی ماری گئی۔مگر پھر غائب ہو گیا۔ اگلے دن جب وہ نظر آیا تو اس کو رائفل سے تین گولیاں ماری گئیں مگر وہ دھاڑتا رہا۔ آخری گولی اس کے سر میں ماری گئی۔
جس کے باعث انسانوں کو کھانے والا یہ شیر فوری طور پر مر گیا۔ اس واقع کی اہمیت اس قدر زیادہ تھی کہ برطانوی وزیراعظم لارڈ سیلس بیری نے ہاؤس آف لارڈ میں بیان دیا کہ برطانوی شکاریوں نے دو آدم خور شیروں کو ٹھکانے لگا دیا ہے ۔ اس کے بعد مزدوروں نے اطمینان کا سانس لیا۔ دریا پر پل بننا شروع ہو گیا۔ مگر یہ واقعہ ٹساؤ آدم خور شیروں کے نام سے آج تک یاد کیا جاتا ہے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ برطانوی سامراج نے ایک خونخوار درندے کی طرح مختلف ملکوں پر قبضہ کر رکھا تھا ۔ ان کا خون بڑے سوچ سمجھ کے پی رہا تھا ۔ یہ شعوری قتل عام آج تک جاری ہے۔ نقطہ ذہن نشین ہونا چاہیے کہ فرنگی حکومت نے نو آبادیاتی نظام کو خون آشام مسائل سے سینچا۔
دو مسائل آج تک حل نہیں ہوپائے۔اسرائیل کی طرف دیکھئے ۔بنیادی طور پر اسے برطانوی طاقت نے ‘ سازش ‘ ٹیکنالوجی اور فریب سے مشرق وسطیٰ میں قائم کر دیا۔ یہ خنجر جو پہلی جنگ عظیم کے بعد مسلمانوں کے سینے میں گھونپا گیا آج تک مسلسل رس رہا ہے ۔ روزانہ آدم خور درندے کی طرح اسرائیل نہتے غزہ کے لوگوں پر حملہ کرتا ہے ، جہازوں سے بمباری کرتا ہے ۔ روز زندگی اور موت کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ عملی طور پر اسرائیل پورے مشرق وسطیٰ کو روند چکا ہے ۔ خون مسلم پانی کی طرح ہر لمحے سفاکی سے بہایا جاتا ہے۔ فلسطین کے مسلمان اتنے کمزور ہیں کہ کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ اسرائیل ہر جگہ دندناتا پھر رہا ہے ۔
برصغیر سے نکلتے وقت برطانوی حکومت نے زیادہ چالاکی کا مظاہرہ کیا ۔ قصداً کشمیر کا فیصلہ کیے بغیر برصغیر کے قلب میں ایسا خنجر گھسیڑ دیا جس سے آ ج تک خون ٹپک رہا ہے۔ اس میں کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں کہ کشمیر کا مسئلہ ‘ اس وقت مختلف حلقوں کی جانب سے سوچ سمجھ کرنامکمل رکھا گیا۔
کشمیر میں چونکہ مسلمانوں کی اکثریت تھی اور ہے ۔ چنانچہ مجاہدانہ تحریکیں 1948سے ہی چلنا شروع ہو گئیں۔ برطانیہ کی اصل غلطی یہ تھی کہ ان کے گمان میں ایک کمزور پاکستان کا تصور تھا ۔ اس کے متضاد پاکستان عسکری طور پر آہستہ آہستہ اپنی قوت بڑھاتا گیا ۔ دن رات کی محنت سے ایک ایٹمی قوت بن گیا ۔
مگر ہمارے ملک کو ہمیشہ بین الاقوامی طاقتوں نے شک اور حقارت کی نظر سے دیکھا۔ 1948اور 1965 کی جنگیں کشمیر کے مسئلے پر ہوئیں ۔ کارگل جنگ بھی اسی نقطے پر دونوں ملکوں کے درمیان لڑی گئی۔ مگر کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہو پایا۔ 1970-71میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا پس منظر کشمیر سے مختلف تھا ۔
اسی پس منظر میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک مڈھ بھیڑ ہفتہ پہلے وقوع پذیر ہوئی ہے۔ دیکھا جائے تو پاکستان پر حملے کی امریکا اور برطانیہ کی طرف سے مکمل حمایت موجود تھی ۔ ہندوستان نے یہ قدم بین الاقوامی قوتوں کو اعتماد میں لے کراٹھایا تھا۔
مگر یہ سب فراموش کر گئے کہ ہمارا ملک ایک نیوکلیئر ملک ہے ۔ جس کے پاس ایٹم بم کے علاوہ ہر طرح کے میزائل اور جدید اسلحہ موجود ہے ۔ پاکستان ایئرفورس اور بری فوج کے ایس پی ڈی ادارے نے جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کی اور ہمسایہ ملک کے لیے بہت مشکلات پیدا کر دیں۔
مگر یہ عجیب جنگ ہے جس میں بھارت اور پاکستان دونوںممالک اپنی اپنی فتح پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں ۔ اصل سچ کیا ہے ‘ کم از کم یہ حقیقت شاید کبھی بھی لوگوں کے سامنے نا آ سکے ۔ اس فضائی اور میزائل حملے میں پاکستان کے 31سے زیادہ افراد شہید ہوئے ۔
اور تقریباً اتنے ہی انسان ہندوستان کی طرف سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ متضاد اعلانات آ ج بھی کیے جا رہے ہیں۔بی بی سی سیٹلائٹ رپورٹنگ یہ ظاہر کرتی ہے ‘ کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے دعوؤں میں مبالغہ آرائی کر رہے ہیں ۔ دونوں کا نقصان بہت کم ہوا ہے۔
غور کیجیے کہ دونوں طرف انسان مارے گئے جن کے خون کا رنگ ایک جیسا تھا ۔ جن کی موت پر ان کے اہل خانہ آج تک ماتم کر رہے ہیں ۔ اس محدود جنگ میں اگر کوئی قتل ہوا ہے تو وہ دراصل امن ہے۔ دونوں طرف سے خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
غور کیجیے کہ حاصل کیا ہوا ۔ کشمیر کا مسئلہ جیسے تھا‘ ویسے ہی آج بھی موجود ہے۔ رنج اور تباہی کا زخم آج بھی ہرا ہے۔ دراصل دونوں ملک آپس میں سنجیدہ مذاکرات کی استطاعت سے محروم ہیں۔ مسئلہ کشمیر ‘خطے کے مختلف ملکوں کو ایک آدم خور جانور کی طرح گردن پر سوار انسانی خون پی رہا ہے۔ یہاں کوئی پیٹر سن جیسا انسان نہیں جو خونخوار آدم خوروں سے اس خطے کو چھٹکارا دلا سکے۔ جب تک ہم کشمیر کے مسئلے کو سنجیدہ مذاکرات سے حل نہیں کرتے خون ‘ موت اور بربادی کا یہ کھیل جاری رہے گا۔