اسلام آباد:
وفاقی وزارت خوراک نے وزیر اعظم شہباز شریف کو تجویز دی ہے کہ وہ فوری طور پر گندم کی امدادی قیمت اور اس کی خریداری کے اہداف کا اعلان کریں تاکہ ایک ارب ڈالر کی گندم درآمدکرنے سے بچا جاسکے۔
یہ تجویز ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب آئی ایم ایف نے زرعی منڈیوں میں مداخلت روکنے کی شرط عائد کر رکھی ہے۔ وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ نے وزیراعظم سے سفارش کی ہے کہ وہ کسانوں میں پائی جانے والی بے چینی اور غیر یقینی صورتحال کو ختم کرنے کیلیے فوری مداخلت کریں۔
وزارت کے ذرائع کے مطابق، کسانوں میں یہ واضح نہیں کہ آیا حکومت گندم کی نئی کم از کم امدادی قیمت طے اور خریداری کے اہداف مقرر کرے گی یا نہیں کریگی۔ وزارت خوراک نے وزیر اعظم سے کہا کہ مسلسل دوسرے سال امدادی قیمت اور خریداری اہداف مقرر نہ کرنے کا فیصلہ کسانوں کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ مقامی کھپت کیلیے کافی گندم کاشت نہ کریںاور اس کے نتیجے میں ایک ارب ڈالر مالیت کی گندم درآمد کرنا پڑ سکتی ہے۔
آئی ایم ایف کی رواں ماہ جاری ہونے والی سٹاف لیول کی رپورٹ میں آئی ایم ایف نے کہا کہ پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے خام اجناس کی امدادی قیمتوں کے اعلان سے گریز اور فوڈ سیکیورٹی کے مقاصد کی حد تک خریداری کے پروگراموں کو محدود کرنے پر اصولی طور پر اتفاق کیا ہے۔
اکنامک اینڈ فنانشل پالیسز کیلیے میمورنڈم (MEFP) میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بھی IMF کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ مالی سال 2026 کے آخر تک زرعی اجناس کیلیے وفاقی اور صوبائی حکومت کی قیمتوں کے تعین کو مرحلہ وار ختم کرنے کیلیے کارروائی کر رہے ہیں۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان تسلیم کرتا ہے کہ حکومت کی جانب سے زرعی منڈیوں بشمول کھادوں میں بڑے پیمانے پر مداخلت موزوں نہیں ہے۔ اس عمل نے نجی شعبے کی سرگرمیوں اور جدت کو دبا کر بگاڑ پیدا کیا ہے، قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور ذخیرہ اندوزی کو بڑھا دیا ہے، اور مالیاتی استحکام کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
وزیر خزانہ کے آئی ایم ایف کو یقین دلایا کہ حکومت2025 کے خریف فصل کے سیزن کیلئے توقعات طے کرنے اور رکاوٹیںکم کرنے کیلئے، ستمبر 2024 کے آخر تک عبوری انتظامات کیلئے اپنی حکمت عملی ترتیب دیگی۔
تاہم اس ہفتے، قومی وزارت خوراک نے وزیر اعظم کو تجویز دی کہ وہ صوبوں کی مشاورت سے ربیع سیزن 2024-25 کیلیے امدادی قیمت اور خریداری اہداف طے کرنے کی ہدایت کریں اور اس بات کی تشہیر کریں کہ آئی ایم ایف سے وعدوں کے مطابق یہ پالیسی ربیع 2025-26 سے بند کر دی جائیگی۔
دوسرا آپشن یہ ہے کہ وزیر اعظم یہ اعلان کر سکتے ہیں کہ اس سال گندم کی امدادی قیمت مقرر نہیں کی جائیگی تاہم حکومت صرف اس سال مارکیٹ ریٹ پر گندم خریدے گی تاکہ مارکیٹ اور کسانوں میں بے یقینی کا خاتم ہو۔ تیسرے آپشن کے تحت وزیر اعظم گندم کی امدادی قیمت اور خریداری کا معاملہ فیصلے کیلئے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کو بھیج سکتے ہیں۔
وزارت قومی فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کا ردعمل اس خبر کے فائل ہونے تک حاصل نہیں کیا جا سکا۔ گزشتہ سال وفاقی حکومت نے گندم کی امدادی قیمت 3,900 روپے فی 40 کلو گرام مقرر کی تھی جس کی تخمینہ اوسط پیداواری لاگت 3,304 روپے فی 40 کلو گرام ہے۔ گزشتہ سال وفاقی حکومت نے گندم کی امدادی قیمت 3,900 روپے فی 40 کلو گرام مقرر کی تھی اور اوسط پیداواری لاگت کا تخمینہ3,304 روپے فی 40 کلو گرام لگایا تھا۔
اس سے کسانوں کو تقریباً 18 فیصد منافع ملا۔ وزارت خوراک کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت مالی سال 2025-26 سے مکمل ڈی ریگولیشن درکار ہے اس لئے صوبوں کی مشاورت سے امدادی قیمت اور خریداری کے حوالے سے واضح پالیسی اختیار کرنا ہوگی۔
وزارت خوراک نے وزیراعظم کو آگاہ کیا کہ ایگریکلچر پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق گندم کی پیداواری لاگت 3,312 روپے فی 40 کلوگرام ہے۔ پچھلے چار سالوں میں، گندم کی مقامی پیداوار کم ہو رہی ہے اور ملکی ضروریات پوری کرنے کیلیے سالانہ تقریباً 1 ارب ڈالر کی درآمدات درکار ہیں۔
گزشتہ سال پنجاب نے گندم نہیں خریدی، اس کے ساتھ پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے گندم کی درآمدات نے مارکیٹ میں گندم کی قیمتوںمیں گراوٹ کی صورتحال پیدا کردی۔ اس سے کسانوں کو بہت نقصان ہوا اور حکومت کی طرف سے واضح پالیسی نہ آنے کی صورت میں آئندہ ربیع کے سیزن میں گندم کی بوائی کے حوالے سے کسانوں میں عدم اعتماد اور بدگمانیاں پیدا ہوئیں۔
وفاقی وزارت خوراک نے گزشتہ ماہ زراعت و خوراک کے صوبائی محکموں اور کسانوں کے نمائندوں کے ساتھ گندم پیداوار کی تخمینی لاگت، درآمدی مسابقتی قیمت، مقامی قیمتوں اور آئندہ ربیع کے موسم میں گندم کی بوائی کے منصوبوں پر تبادلہ خیال کرنے کیلیے ایک میٹنگ کی۔ تاہم، صوبائی نمائندے ربیع 2024-25 کیلیے گندم کی قیمتوں اور خریداری سے متعلق اپنی متعلقہ حکومتوں کی پالیسی کے حوالے سے واضح نہیں تھے۔
کسان نمائندوں نے گزشتہ ربیع سیزن کے دوران گندم خریداری کی پالیسی، منڈی کی موجودہ صورتحال اور آئندہ ربیع سیزن کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی پالیسی پر تحفظات کا اظہار کیا۔ انھوں نے خبردار کیا کہ گندم کی امدادی قیمت مقرر نہ ہونے کی صورت میں آئندہ ربیع کے سیزن میں گندم کی بوائی کے رقبے میں نمایاں کمی کا خدشہ ہے۔
گزشتہ سال تک وفاقی اور صوبائی حکومتیں تقریباً 6.2 ملین میٹرک ٹن گندم خرید رہی تھیں۔ آئندہ ربیع سیزن کیلئے پنجاب اور سندھ حکومت کی طرف سے امدادی قیمت اور خریداری اہداف مقرر ہونا یقینی نہیں ہے۔
وفاقی حکومت کے پاس 30 ستمبر تک 2024 تک 2.7 ملین میٹرک ٹن گندم کا ذخیرہ موجود ہے، جبکہ گزشتہ چار سال میں اسی عرصہ میں1.4 ملین میٹرک ٹن کا اوسط ذخیرہ تھا۔ وزارت خوراک نے کہا کہ آئندہ ربیع سیزن میں کم رقبہ پر گندم بوائی کا خدشہ ہے اور ممکنہ شارٹ فال پورا کرنے کیلیے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی گندم کی درآمد کی ضرورت ہے جس سے ادائیگیوں کے توازن کی صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔
وزارت خوراک نے اس بات پر زور دیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ربیع 2024-25 میں گندم کی بوائی کے رقبے میں کمی کو روکنے کے لیے فوری طور پر پالیسی مداخلت کر سکتی ہیں۔