لاہور:
پاکستان کی معیشت شدید مشکلات سے دوچار ہے اور مالی سال 2024-25 کے لیے مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو محض 2.44 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جو گزشتہ سال کی 1.7 فیصد شرح کے مقابلے میں معمولی بہتری ضرور ہے مگر اب بھی تسلی بخش سطح سے نیچے ہے۔
یہ اعداد و شمار لاہور اسکول آف اکنامکس کی ماڈلنگ لیب کی رپورٹ میں پیش کیے گئے، جن کے مطابق معیشت کی سست روی بنیادی طور پر صنعتی اور زرعی شعبوں کی خراب کارکردگی، اور حکومتی پالیسیوں کی کمزوریوں کا نتیجہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ تخمینے پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس اور عالمی اداروں جیسے عالمی بینک، آئی ایم ایف، اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے اندازوں سے مطابقت رکھتے ہیں، جو بھی شرح نمو کو 2.5 تا 2.7 فیصد کے درمیان دیکھ رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: آئی ایم ایف کی نئے مالی سال میں پاکستان کی معاشی شرح نمو 3.6 فیصد تک جانے کی پیشگوئی
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بڑی صنعتوں کی پیداوار (LSM) رواں مالی سال میں 1.9 فیصد کم ہو چکی ہے، جو گذشتہ دو سال سے جاری تنزلی کے رجحان کو مزید بڑھا رہی ہے۔ اہم فصلوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی،گندم کی پیداوار 9 فیصد گھٹ کر 29 ملین ٹن رہ گئی،مکئی میں 15 فیصد کمی،گنا میں 4 فیصد کمی،چاول میں 1.4 فیصد کمی جبکہ روئی کی پیداوار میں 31 فیصد کی شدید کمی رپورٹ ہوئی ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ کمی موسمی حالات کا نتیجہ نہیں بلکہ حکومت کی جانب سے امدادی قیمتوں کے خاتمے جیسی پالیسی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے، جس نے کسانوں کے لیے فصل اگانا غیرمنافع بخش بنا دیا۔
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس فصلوں کی پیداوار کا اندازہ صرف مقدار کے حساب سے لگاتا ہے، قیمتوں میں کمی کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔
مثال کے طور پر گندم کی قیمت میں فی 40 کلو تقریباً 1,000 روپے کی کمی کے باعث کسانوں کو تقریباً 25 فیصد مالی نقصان ہوا، جس سے زراعت کی حقیقی صورتحال مزید خراب نظر آتی ہے۔
مزید پڑھیں: آئی ایم ایف کے بعد عالمی بینک نے پاکستان کی معاشی شرح نمو 2.7 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کر دیا
رپورٹ کے مطابق مالی سال 2024-25میں مہنگائی کی شرح 8.37 فیصد تک رہنے کا امکان ہے جو کہ حکومت کے 7.5 فیصد اور آئی ایم ایف کے 5.1 فیصد کے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔
ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ مہنگائی پر قابو پانے کی پالیسیوں نے زرعی شعبے کی کارکردگی پر منفی اثر ڈالا ہے۔ ایسی صورتحال میں، جب صنعتی پیداوار پہلے ہی مندی کا شکار ہے، زرعی شعبے کو مزید دباؤ میں لانا معیشت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق جب بھی پاکستان کی شرح نمو 5 فیصد سے تجاوز کرتی ہے، درآمدات میں غیرمعمولی اضافہ ہوتا ہے جس کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ جاتا ہے۔ ایل ایس ای کی رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ حکومت کو سرمایہ کاری پر مبنی ترقیاتی ماڈل اپنانا ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق اگرچہ مہنگائی میں کسی حد تک کمی لائی گئی ہے، لیکن پائیدار اور جامع ترقی کا راستہ تاحال واضح نہیں۔ صنعتی اور زرعی شعبے کو متوازن پالیسی سپورٹ فراہم کیے بغیر معیشت کو مستحکم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔