ہائے رے گرمی – ایکسپریس اردو

ہائے رے گرمی – ایکسپریس اردو


اس وقت جب یہ کالم تحریرکیا جا رہا ہے ملک کے بیشتر میدانی علاقوں میں قیامت خیز گرمی پڑ رہی ہے۔ لوگ العطش العطش کی صدائیں بلند کر رہے ہیں۔ گرمی کی شدت نے لوگوں کے دن کا چین اور رات کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔

دن بھر چلچلاتی ہوئی دھوپ پڑ رہی ہے اور آسمان سے غضب ناک سورج آگ برسا رہا ہے اور زمین آتش فشاں کا لاوہ اُگل رہی ہے۔ نہ پائے رَفتَن، نہ جائے ماندَن۔

بچپن میں طالب علمی کے زمانے میں ایک نظم پڑی تھی جس کا مطلع یہ تھا:

مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ

بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینا

ہندو کیلنڈر موسمیاتی تبدیلیوں کے لحاظ سے ترتیب دیا گیا ہے۔ ماہِ رواں جیٹھ کا مہینہ کہلاتا ہے جس میں گندم کی فصل پَک کر تیار ہو جاتی ہے اورکسان اس کی کٹائی کرتے ہیں۔موسمِ گرما میں وطنِ عزیز کے میدانی علاقوں میں پارہ انتہائی درجہ حرارت کو چھو لیتا ہے۔ گرم ہوائیں جو لُو کہلاتی ہیں اپنے تھپیڑوں سے انسان کو نڈھال کردیتی ہیں اور جسم و جاں کا رشتہ بحال رکھنا دوبھرکردیتی ہیں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ پانی پیا جائے تا کہ خدانخواستہ ڈی ہائیڈریشن کی وجہ سے موت واقع نہ ہو۔

اس موسم میں مشروبات کی طلب میں بے انتہا اضافہ ہوجاتا ہے۔ لوگ گلاس پر گلاس چڑھا رہے ہوتے ہیں اور مشروبات فروشوں کا کاروبار زوروں پر ہوتا ہے۔ پرانے وقتوں میں صراحیوں اور مٹکوں کی مدد سے پانی کو ٹھنڈا رکھا جاتا تھا اور لوگ کھجور کے پتوں سے تیار کیے گئے ہاتھ کے پنکھے جھل کر گرمی کا مقابلہ کیا کرتے تھے۔

ہم نے اپنے بزرگوں کی زبانی یہ احوال سنا ہے۔رفتہ رفتہ وقت تبدیل ہوتا رہا اور اس کے ساتھ حالات بھی بدلتے چلے گئے۔ موسم کوئی بھی ہو غریب غرباء ہی اس کی زد میں آتے ہیں۔ جب تک بجلی نہیں آئی تھی صاحبِ حیثیت لوگ گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے خس کی ٹٹیاں استعمال کرتے تھے۔

خس ایک طرح کی گھاس ہوتی ہے جس پر پڑ کر گرم ہوائیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں۔ چناچہ امراء طبقہ خس کی ٹٹیوں کا استعمال کرتا تھا۔بجلی کی ایجاد نے انقلاب برپا کردیا۔ برقی پنکھوں نے کایا ہی پلٹ دی۔ صاحبِ استطاعت لوگوں کی جان گرمی سے چھوٹ گئی۔ اس کے بعد جوں جوں وقت گزرتا گیا ترقی کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔ پہلے روم کولر آئے اور پھر اس کے بعد ایئرکنڈیشنر آگیا۔

پہلے لوگ بچے ہوئے کھانے کو سڑنے سے بچانے کے لیے اسے چھیکوں پر لٹکایا کرتے تھے یا پھر نعمت خانوں میں رکھ دیتے تھے۔ کھانے پینے کی چیزیں گرمی کی شدت سے خراب ہوجاتی تھیں لیکن فریج کی ایجاد نے یہ مسئلہ حل کردیا۔شروع شروع میں بجلی صرف بڑے بڑے شہروں میں دستیاب ہوتی تھی۔ چھوٹے چھوٹے گاؤں دیہات اس سے محروم ہونے کی وجہ سے موسمِ گرما میں سخت پریشانی اٹھاتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ بجلی وہاں بھی پہنچ گئی۔

بجلی مختلف ذرایع سے پیدا کی جاتی ہے جن میں پانی، ونڈ ٹربائنز، بھاپ اور کوئلہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تیل اور ایٹمی قوت بھی بجلی حاصل کرنے کا ایک انتہائی اہم ذریعہ ہیں۔ ملک میں بجلی کی شدید قلت نے ایک بحرانی کیفیت پیدا کر رکھی ہے جس کی وجہ سے صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔

نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومتیں آتی رہیں، جاتی رہیں اور کسی بھی حکومت نے اس جانب توجہ نہیں دی۔ بجلی کی شدید کمی کو پورا کرنے کے لیے متبادل ذرایع اختیارکیے جا رہے ہیں جن میں شمسی توانائی قابلِ ذکر ہے۔

عوام الناس کا رجحان شمسی توانائی کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ کراچی کیونکہ سمندرکے کنارے پر آباد ہے، اس لیے یہاں ہوا میں نمی کا تناسب بہت زیادہ ہوتا ہے، اسی لیے یہاں گرمی کی شدت زیادہ محسوس کی جاتی ہے۔مثال کے طور پر اگر درجہ حرارت 36 ڈگری ہو تو یہاں 40 ڈگری تک محسوس ہوگا۔

کراچی کا ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ان بلند و بالا عمارتوں میں رہائشی اور کمرشل فلیٹس بھی شامل ہیں جہاں ہوا کی رسائی بہت کم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کراچی میں درخت بھی ناپید ہیں۔ جو درخت پہلے سے موجود تھے، ان کا بھی کاٹ کاٹ کر صفایا کردیا گیا ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ جون 2015 میں کراچی سمیت سندھ کے جنوبی علاقوں میں شدید گرمی کی لہر سے تقریباً 1200 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ تعمیرات میں ایسا میٹریل استعمال کیا جائے جو عمارتوں کو ٹھنڈا رکھنے میں معاون ثابت ہو، مثلاً سیمنٹ کے بجائے چونا استعمال کیا جائے۔

مغلیہ دورکی عمارتوں میں چونے کے استعمال کی وجہ سے ٹھنڈک رہتی تھی۔ ملک کی مشہور و معروف آرکیٹیکٹ یاسمین لاری نے ہماری توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے۔ انھوں نے سندھ کے ضلع ٹھٹھہ میں مکلی قبرستان کے قریب ہیریٹیج فاؤنڈیشن نامی تنظیم کے تعاون سے اپنا ماڈل ولیج بنایا تھا جو کہ’’ زیرو کاربن‘‘ یا ’’ماحول دوست‘‘ تعمیرات کا ایک جیتاجاگتا نمونہ ہے۔

ان کی تعمیرات میں مٹی، چونے اور بانس کا استعمال عام ہے۔ چونے سے بنائے گئے گھر سستے پڑتے ہیں، لہٰذا یہ نسخہ کم خرچ بالا نَشِین ہے۔ 1990 کی دہائی سے سیمنٹ کا دور دورہ شروع ہوگیا تھا، اس لیے عام لوگ صرف سیمنٹ کو جانتے ہیں۔

چونے میں سے سب سے کم کاربن کا اخراج ہوتا ہے اور یہ ہوا سے کاربن کو جذب بھی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ گھروں کی چھتوں پر اگر سفید پینٹ کر دیا جائے تواس سے بیرونی درجہ حرارت 3 ڈگری تک کم ہو سکتا ہے اور گھرکے اندر کا درجہ حرارت 7 ڈگری تک گر سکتا ہے۔

یہ عمل سورج سے پیدا ہونے والی گرمی کو کم کرتا ہے تاکہ کم سے کم گرمی عمارت کے اندر پہنچے۔ جتنی گرمی عمارت نے جذب کی، چھت ٹھنڈا کرنے کا یہ عمل اس گرمی کو باہر نکال کر درجہ حرارت کم کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ جدید ریسرچ کے مطابق عمارت کی چھت کو سفید رنگ کرنے سے سورج کی گرمی اس پر پڑکر واپس ہوجاتی ہے جو درجہ حرارت کم کرنے کا سب سے درست طریقہ ہے۔ ٹھنڈی چھتیں آپ کے لیے اے سی کے بل کو 40 فیصد جب کہ بجلی کے بل کو 50 فیصد تک کم کرسکتی ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ اثر موسم پر ہوتا ہے۔ سردی و گرمی کے ایام تبدیل ہونے کے ساتھ ان کی شدت میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے یعنی سردیوں میں شدید سردی اور گرمیوں میں شدید گرمی۔ ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موسم کی شدت میں مزید اضافہ ہوگا جب کہ شدید گرمی کی لہر آیندہ کئی دنوں تک ملک کے مختلف شہروں میں لوگوں کو بے حال رکھے گی۔

جیسے ہی درجہ حرارت 50 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے تو بیماریاں پھیلتی ہیں، بجلی کا بے حد استعمال ہوتا ہے، اے سی کا استعمال بڑھ جاتا ہے، مطلب اخراجات میں اضافہ اور ماحولیات کے لیے نقصان ہی نقصان۔

حکومت کو چاہیے کہ چھتوں کو رنگنے کے لیے خصوصی سفید پینٹ کی تیاری کے احکامات جاری کرے اور اسے لازمی قرار دیا جائے۔





Source link