ا دنیٰ واقعات کا ایک تسلسلِ گراں ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ایک سے ایک مکروہ جہت قوم کے تقدس کو پامال کرتی ہے۔ ہر پاکستانی‘ انگلیاں ‘ دانتوں کے نیچے دبا لیتا ہے۔ کیا یہ دن بھی دیکھنے تھے۔ مگر صاحبان ! اب تو کسی بات پر بھی حیرت نہیں ہوتی۔ رنج نہیں ہوتا‘ لگتا ہے کہ بدقسمتی ‘ ہماری قوم کے ہر خاص و عام کے نصیب میں لکھ دی گئی ہے۔ اب کیا بات لکھوں۔بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کیا کیا لکھوں۔ اب سوال تو یہ بھی ہے کہ کیوں لکھوں۔ نوحہ گری سے اپنا دل بھی تو دکھتا ہے۔ موجودہ حکومت کے لفاظی کے بادشاہ چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ ملک کا اہم ستون یعنی عدلیہ اب مکمل طور پر آزاد ہو گیا ہے۔
پوری رعایا کو عدل مل چکا ہے۔ بلکہ شیر اور بکری ‘ ایک گھاٹ پرہی پانی پینے لگے ہیں۔ مگر اجازت ہو تو عرض کروں‘ کہ ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں بائیس لاکھ مقدمات عدالتوں میں فیصلوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان میں سے تقریباً انیس لاکھ ‘ ضلعی عدلیہ کے پاس ہیں۔ یعنی اسی فیصد کے لگ بھگ مقدمات‘ ماتحت عدالتوں میں فائلوں میں دبے ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار لااینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے ہیں۔ غور سے سنئیے ‘ صرف اور صرف اٹھارہ فیصد مقدمات‘ ہائی کورٹس‘ فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ میں فیصلوں کے منتظر ہیں۔ سپریم کورٹ میں محض پچاس سے ساٹھ ہزار مقدمات موجود ہیں۔ یعنی بائیس لاکھ کے صرف چند فیصد مقدمات۔ خود فیصلہ فرمایئے ۔ حکومت کی نیت اگر عدالتی اصلاحات کی ہوتی تو یہ نیک کام ضلعی عدلیہ سے شروع ہوتا۔ پھر ہائی کورٹس کی باری آتی ‘ اور اگر عدلیہ کا بنیادی ڈھانچہ درست ہو جاتا تو پھر عدالت عظمیٰ تک اصلاحات کا دائرہ پہنچتا۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی بالکل الٹ ہے۔ وہ مقام‘ جہاں مقدمات کی حددرجہ معمولی تعداد موجود ہے۔
وہاں درستگی بتائی جا رہی ہے۔ گلہ صرف موجودہ حکومت تک محدود نہیں۔ سابقہ حکومت بھی شخصیات کے پیچھے چھپ کر اداروں کو زندہ درگور کر رہی تھی۔ اس سے پہلے بھی یہی حال تھا۔ یعنی ملک میں عدالتی نظام کو عوام کے لیے معتبر بنانے سے زیادہ‘ ہر حکومت کا سارا زور صرف اس بات تک محدود تھا اور ہے کہ چیف جسٹس ’’اپنا بندہ‘‘ ہونا چاہیے۔ معاملہ کا اصل خلاصہ صرف یہی ہے ۔ اس نکتے سے آگے‘کسی بھی حکومت کی سوچ نہیں ہے۔
یہاں ایک حد درجہ اہم نکتہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ کیا عام آدمی عدلیہ کی کارکر دگی سے مطمئن ہے؟ اس کا جواب مکمل نفی میں ہے۔ ضلعی عدلیہ جہاں مقدمات کا اصل بوجھ ہے۔ وہاں کیا حالات ہیں۔ اس پر تبصرہ کے لیے‘ آپ کو زیادہ غور کی ضرورت نہیں۔ کسی بھی کچہری میں چلے جایئے۔ مخلوق خدا‘ پھٹی ہوئی آنکھوں کے ساتھ عدالتوں کے برآمدوں میں مجبوری کی تصویر بنی نظر آئے گی۔ فیصلوں میں تاخیر کا ذکر ہی کیا‘ وہ تو خیر ہر ایک کو معلوم ہے ۔ مگر جتنی تذلیل لوگوں کی عدالتوں میں ہوتی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ کیا ‘ کسی بھی حکومت کے وزیر قانون نے ماتحت عدلیہ کے معاملات کو بہتر بنانے کی ذرا بھر بھی کوشش کی ہے ۔ ہرگز نہیں ۔ آگے چلیے ۔ اعلیٰ عدالتوں تک عام آدمی کا پہنچنا‘ تقریباً ناممکن ہے۔ وکلاء کی بھاری فیس‘ ججوں کا لوگوں کے ساتھ متکبرانہ سلوک اور سالہاسال کی ذلت ۔ عدالت کی اونچی کرسی پر بیٹھ کر‘ سائل کو انسان سمجھنے کا چلن ہی ختم ہو چکا ہے۔ دل دکھتا ہے کہ عدالتوں میں انصاف تو دور کی بات‘ عام آدمی کی توہین کا نظریہ پختہ معلوم ہوتا ہے۔
حالیہ ترمیم میں‘ جب حکومت نے عدلیہ کے پر کاٹے ہیں۔ تو یقین فرمائیے سنجیدہ لوگوں نے اس پر کوئی اظہار افسوس نہیں کیا۔ اس کی وجہ صرف یہ کہ عدلیہ ‘ بحیثیت ادارہ اپنا کردار ادا نہیں کر سکا۔ اب اگر اس کا سر پارلیمنٹ کی تلوار سے کٹتا ہوا نظر آ رہا ہے تو عوامی سطح پر کسی قسم کا منفی ردعمل نہیں ہے۔ ہاں وہ معدودے چند وکلا‘ جو اپنے ذاتی مفادات پر زد پڑتی ہوئی دیکھ رہے ہیں بالکل غصے میں معلوم ہوتے ہیں۔ عدلیہ کے پاس عوامی تائید نہ ہونے سے کوئی بھی بھونچال نہیں آنے والا۔ یہ وقت ہے کہ عدلیہ اپنے آپ کو خود ٹھیک کرے۔ ضلعی عدالتوں اور ہائی کورٹس میں عوام کے دکھوں پر مرہم رکھا جائے۔ عدل فراہم کیا جائے‘ باقی سب باتیں ہیں۔
دراصل اب ہمار ا ملک اس ڈگر پر جا چکا ہے۔ جس میں مسائل کوئی بھی حکومت حل نہیں کر سکتی۔ ہائبرڈ حکومت تو خیر مثبت فیصلہ سازی سے ویسے ہی محروم ہے۔ یہ تو محض تقریری مقابلے اور فوٹو شوٹ کے اہتمام میں لگے رہتے ہیں۔ حکومتی ڈھانچے کو بہتر بنانا ان کی ترجیحات میں شامل ہے‘ اور نہ ہی یہ اس استطاعت کے مالک ہیں ۔ جو کہ عام لوگوں کے لیے انقلابی اصلاحات کی طرف جا سکیں۔ بڑے فیصلوں سے ان کو ذاتی طور پر نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جو ہمارے ادارے اور بونے سیاست دان برداشت نہیں کر سکتے۔ عدلیہ کو چھوڑیے۔ معمولی سے مسائل کی طرف رخ موڑیے۔ ذرا ٹریفک کے بے ہنگم معاملات کو دیکھیے ۔ آپ کو ہر چوک اور موڑ پر ‘ ٹریفک کا ہولناک بگاڑ نظر آئے گا۔ ہولناک ٹریفک کی بدولت ‘ لاکھوں لوگ ہر برس‘ ملک عدم کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ کیا کوئی صوبائی حکومت کا وزیراعلیٰ ‘ واقعی ٹریفک کے معاملات کو درست کرنے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ کیا کوئی بھی پولیس کا آفیسر ‘ آپ کو اس معاملہ میں سنجیدہ نظر آتا ہے۔ چھوڑیئے‘ ٹریفک جیسے مسئلہ پر کیا بات کرنی۔ اس میں عوام ہی مرتے ہیں۔ کوئی حادثہ وزیراعظم یا صوبے کے حاکم کو تو نہیں چھوتا۔ لہٰذا یہ معاملہ ایسے ہی رہے گا ۔
اب ذرا حکومتی دعوؤں کے برعکس‘ ورلڈ بینک کی اکتوبر 2024 میں شایع شدہ رپورٹ کو پڑھیے۔ ورلڈ بینک کے مطابق ہمارے عظیم ملک میں 40.5فیصد لوگ انتہائی غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ یہ شرح 2023سے 0.3 فیصد زیادہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ‘ ہماری معیشت میں اتنا دم ہی نہیں کہ وہ عوام کی اصل صورت حال کو بہتر بناسکے۔ معاشی اعداد و شمار حد درجہ مایوس کن ہیں۔ مہنگائی کے کم ہونے کے حکومتی دعوؤں کی بھی اس رپورٹ میں تردید کی گئی ہے۔
Core inflationبڑھنے کی وجہ بالکل سادہ سی بتائی گئی ہے۔ بجلی کی قیامت خیز قیمت‘ ہماری معیشت اور عوام کے لیے زہر قاتل بن چکی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق‘ حکومت ‘ بجلی کی قیمت کو کم کرنے کی جرأت اور ہمت سے محروم ہے۔ ورلڈ بینک والے کتنے سادہ سے لوگ ہیں؟ انھیں معلوم ہی نہیں ہے کہ ہمارے نجی بجلی گھر‘ کتنے بڑے لوگوں کے ہیں۔ کیا وہ اپنے مالی مفادات پر ضرب پڑنے دینگے۔ ہرگز نہیں۔ بھیڑیئے‘ کمزور جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں۔ اپنا اور ایک دوسرے کا نہیں۔ لہٰذا بھول جایئے کہ ورلڈ بینک کی ’’تخریب کاری‘‘ پر مشتمل رپورٹ پر حکومت کوئی قدم اٹھائے گی۔ پیسہ تو اب چند مخصوص گھرانوں کی جیبوں میں جا رہا ہے۔ اور وہی ہمارے حکمران ہیں۔
دوبارہ اپنے اصل موضوع یعنی عدلیہ کی طرف آتا ہوں۔ ہائی کورٹ کے ججوں کی تعیناتی کے عمل میں غیر شفافیت ہے۔ سسر‘ داماد‘ بیٹا‘ سمدھی اور قریبی رشتہ داروں کی ایک ادنیٰ قطار ہے جو آپ کو جج بنتے نظر آئے گی۔ ہاں ایک اور نکتہ بھی ہے۔ جج‘ چند مخصوص‘ وکلاء کے چیمبر سے بنتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اعلیٰ عدالتوں میں پچاس ساٹھ سال سے ججوں کی سلیکشن کا اصل معیار دیکھیں تو سوائے رشتے داری اور یکساں چیمبر کے علاوہ کچھ بھی اہم نہیں ہو گا۔ مگر اب کھیل کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ ہائی کورٹ میں سے ہی جج سپریم کورٹ جاتے ہیں۔ یعنی بگاڑ کی اصل جگہ ہائی کورٹ ہے۔ اور ہاں ‘ ماتحت عدلیہ سے قابل ترین سیشن ججوں کو ہائی کورٹ میں جانے نہیں دیا جاتا۔ ان کو کوٹے کے مطابق کبھی بھی ترقی نصیب نہیں ہوئی۔ مگر یہ دور دراصل انفارمیشن کا ہے۔
اگر عدالتیں حقیقت میں عام لوگوں کوانصاف مہیا کر رہی ہوتیں تو شاید کوئی بھی دوسرا ادارہ عدالتوں کے اختیار سلب نہیں کر سکتا تھا۔ مگر جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہو۔ نہ محنت کرنے کی عادت ہو‘ نہ اپنی اصلاح کرنی ہو۔ جذبہ صرف چند لوگوں کو مسلسل خوش رکھنے کا ہو۔ تو وہاں‘ عام لوگوں کی دعا تو ساتھ نہیں ہوگی۔ بددعا کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ مگر اصل لفظ یہی بنتا ہے۔ عدلیہ کے پہاڑ کے نیچے آنے پر کون دکھی ہو گا؟ ادنیٰ‘ مہنگا اور بے جواز ’’انصاف‘‘کی فراہمی پر کون فریق خوش نظر آئے گا؟ دراصل عدلیہ اپنی گروہ بندی کی بدولت ساکھ کھو چکی ہے۔ اسے اب واپس لانا ناممکن ہے۔ اب تو موجودہ ججوں کو پارلیمنٹ کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ اب واویلہ کیسا! حضور ناراض نہ ہوں ۔ ذرا اپنی اداؤں پر بھی غور فرمایئے؟