کراچی میں زلزلے کا خدشہ!

کراچی میں زلزلے کا خدشہ!


 12، اپریل 2025ء بروز ہفتہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف حصوں میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے جس کے بعد لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ رپورٹ کے مطابق وفاقی دارالحکومت کے علاوہ جڑواں شہر راولپنڈی میں بھی زلزلے کے شدید جھٹکے آئے۔ نیز خیبر پختونخوا کے ضلع سوات و گردونواح، ضلع صوابی ضلع بونیر اور گردونواح میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے، ستم اور گردونواح میں بھی زلزے کے جھٹکے آئے، سانگلہ ہل شہر اور گردونواح میں بھی زلزلہ محسوس کیا گیا۔

زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر5 اعشاریہ 5 ریکارڈ کی گئی، زلزلے کی گہرائی 12 کلو میٹر تھی۔ زلزلہ پیما مرکز نے بتایا کہ زلزلے کا مرکز راولپنڈی کے شمال مغرب میں 60 کلو میٹر کا علاقہ تھا، زلزلے کے جھٹکے 12 بج کر 31 منٹ پر محسوس کیے گئے۔ دوسری جانب محکمۂ موسمیات پاکستان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 5.5 ریکارڈ کی گئی، زلزلے کا مرکز راولپنڈی کا شمال مشرقی علاقہ ہے۔

محکمۂ موسمیات نے مزید کہا کہ زلزلے کا مرکز راولپنڈی سے شمال مغرب میں 60 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ علاوہ ازیں پی ڈی ایم اے پنجاب کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اسے زلزلے کے بارے میں ابتدائی رپورٹس موصول ہوگئیں جن کے مطابق لاہور، راولپنڈی، گجرات فیصل آباد سمیت پنجاب کے دیگر علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے آئے۔ پی ڈی ایم اے پنجاب نے کہا کہ ریکٹر سکیل پر زلزلے کی شدت 5.5 ریکارڈ کی گئی، زلزلے کا مرکز راولپنڈی شمال مغرب جب کہ گہرائی 12کلومیٹر تھی۔ اسی طرح گذشتہ دنوں میانمار میں آنے والے 7.7 شدت کے زلزلے نے تو بڑی تباہی مچائی۔ قدرتی آفت کے نتیجے میں ہزاروں اموات ہوئیں جب کہ ہزاروں ہی افراد زخمی ہوئے۔ تاہم، سائنس دانوں نے اس زلزلے کے سبب کا پتا لگا لیا ہے۔

سائنس دانوں کے مطابق یہ زلزلہ ’سپر شیئر‘ رپچر کی وجہ سے آیا۔ سپرشیئر زلزلے ایسے زلزلے ہوتے ہیں جن میں فالٹ (زیرزمین چٹانوں کے درمیان دراڑ) کے پھٹنے کی رفتار، زلزلے کے بعد پیدا ہونے والی لہروں (ایس-ویوز) سے زیادہ ہوجاتی ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زلزلے کے دوران ٹوٹنے والی ارضیاتی فالٹ (وسیع ساگائینگ فالٹ جو کہ برما اور سنڈا ٹیکٹونک پلیٹس کے درمیان ہے) ممکنہ طور پر بہت تیزی سے اور 400 کلو میٹر تک کے فاصلے پر پھٹی جو اس شدید زلزلے کا سبب بنی۔

علاوہ ازیں عیدالفطر کے پہلے دن کراچی کے علاقے اسکیم 33، گلشن اقبال، گلستان جوہر، ملیر، لانڈھی سمیت مختلف علاقے زلزلے کے جھٹکوں سے لرز اٹھے، کراچی میں زلزلے کے جھٹکے 04:11 بجے محسوس کیے گئے۔ ریکٹر اسکیل پر زلزلے کے جھٹکوں کی شدت 4.7 ریکارڈ کی گئیزلزلے کا مرکز کراچی سے شمال کی جانب 75 کلومیٹر تھا۔ زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زمین میں زلزلے کی گہرائی 19 کلومیٹر ریکارڈ کی گئی۔

 زلزلے کراچی کو ممکنہ طور پر متاثر کر سکتے ہیں۔ اگرچہ کراچی میں زلزلوں کی تعداد اور شدت دیگر علاقوں کے مقابلے میں کم رہی ہے، تاہم اس خطے کی زلزلہ خیزی کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

کراچی بحر عرب کے ساحل پر واقع ہے اور یہاں سے قریب مکران سبڈکشن زون موجود ہے۔ یہ سبڈکشن زون وہ جگہ ہے جہاں انڈین پلیٹ یوریشین پلیٹ کے نیچے سرکتی ہے، جو زلزلے اور سونامی کا باعث بن سکتی ہے۔ اگرچہ کراچی میں زلزلے عام نہیں ہیں، لیکن اس کا ساحلی مقام اور قریبی فالٹ لائنز مستقبل میں بڑے زلزلوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ مکران سبڈکشن زون کراچی سے تقریباً 400-500 کلومیٹر دور بحیرہ عرب میں واقع ہے۔

یہاں پلیٹوں کی حرکت کراچی کو سونامی کے خطرے سے دوچار کر سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر اس سبڈکشن زون میں8.0 یا اس سے زیادہ شدت کا زلزلہ آیا تو کراچی کے ساحلی علاقے سونامی سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ 1945 میں ایسا ہی ایک زلزلہ آیا تھا جس سے سونامی کا خطرہ پیدا ہوا۔ کراچی براہ راست فالٹ لائنز پر نہیں ہے، لیکن اس کے قریب چند اہم فالٹ لائنز موجود ہیں جو شہر کو ممکنہ طور پر متاثر کر سکتی ہیں۔ بلوچستان میں موجود یہ فالٹ کراچی کے قریب ہے اور اس پر زلزلے کا امکان موجود ہے۔ کراچی کے مشرق میں پریالیس فالٹ فالٹ لائن واقع ہے اور زلزلوں کا سبب بن سکتی ہے۔

اگرچہ کراچی میں بڑے زلزلے کم آئے ہیں، لیکن 1945ء کے مکران زلزلے نے سونامی کے ذریعے شہر کو متاثر کیا تھا۔ اس کے علاوہ 2001ء اور 2013ء میں بھی درمیانے درجے کے زلزلے آئے، جن کے اثرات محدود رہے۔ ماضی کے ان واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ کراچی میں زلزلوں کا خطرہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا، خاص طور پر ساحلی علاقوں میں۔

زلزلے کے ممکنہ اثرات

عمارتوں کا نقصان: کراچی میں زیادہ تر عمارتیں زلزلہ مزاحم نہیں ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر ایک بڑا زلزلہ آیا تو یہ عمارتیں شدید نقصان اٹھا سکتی ہیں۔

بنیادی ڈھانچے کا خطرہ: کراچی کا انفرااسٹرکچر، جیسے پل، سڑکیں، اور بجلی کے کھمبے، بھی زلزلے کے دوران خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔

سونامی کا خطرہ: اگر مکران سبڈکشن زون میں کوئی بڑا زلزلہ آیا تو سونامی کراچی کے ساحلی علاقوں کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔

 سائنسی تحقیق اور ماہرین کی رائے

سائنسی تحقیقات اور ماہرین کے مطابق کراچی اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں زلزلے کے امکانات موجود ہیں، لیکن بڑے زلزلوں کا خطرہ خاص طور پر مکران سبڈکشن زون سے وابستہ ہے۔ سونامی کی پیش گوئیوں کے مطابق کراچی جیسے ساحلی شہر کو زیادہ خطرہ ہے۔ کچھ تحقیقات کے مطابق مکران سبڈکشن زون میں مستقبل میں آنے والے زلزلے کی شدت 8.0 یا اس سے زیادہ ہو سکتی ہے، جو کہ سونامی کا باعث بنے گی۔

کراچی، جو کہ فلیٹوں اور بلند و بالا عمارتوں کا ایک بڑا شہر ہے، کسی طاقت ور زلزلے کی صورت میں شدید نقصان کا سامنا کر سکتا ہے۔ زلزلے کی صورت میں اس نقصان کی نوعیت متعدد عوامل پر منحصر ہے، جیسے عمارتوں کی تعمیر کا معیار، آبادی کا دباؤ، اور انفرااسٹرکچر کی حالت۔ آئیے مختلف پہلوؤں سے یہ جائزہ لیتے ہیں کہ زلزلے کے نتیجے میں کراچی کو کس قسم کے نقصانات ہو سکتے ہیں: کراچی میں بہت سی بلند عمارتیں زلزلہ مزاحم ڈیزائن کے بغیر تعمیر کی گئی ہیں۔ ان عمارتوں کا زیادہ تر ڈھانچا غیرمعیاری مواد سے بنا ہے، جس کی وجہ سے زلزلے کی شدت برداشت کرنے کی صلاحیت کم ہے۔

کراچی کے پرانے علاقوں میں جیسے صدر، لیاقت آباد، اور اورنگی ٹاؤن میں زیادہ تر عمارتیں پرانی ہیں اور ان کا ڈھانچا زلزلے کی مزاحمت کے لیے تیار نہیں۔ نتیجتاً، یہ عمارتیں زلزلے کے دوران گر سکتی ہیں، جس سے بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہو سکتا ہے۔ جدید علاقے جیسے کلفٹن، ڈیفنس، اور شاہراہ فیصل پر موجود بلند و بالا عمارتیں بھی خطرے میں ہیں۔ اگر زلزلے کی شدت زیادہ ہو تو اونچی عمارتیں توازن کھو سکتی ہیں اور منہدم ہوسکتی ہیں، جس سے ہزاروں افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔ کراچی میں فلیٹوں اور بلند عمارتوں میں رہائش پذیر لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ کسی بڑے زلزلے کی صورت میں ان عمارتوں کے گرنے سے بہت زیادہ جانی نقصان کا خطرہ ہے۔

 بہت سے علاقے، جیسے گلشنِ اقبال، لیاقت آباد، اور کورنگی، میں فلیٹوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، جہاں ایک ہی عمارت میں کئی خاندان رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ زلزلے کے نتیجے میں ان عمارتوں کے منہدم ہونے سے ہزاروں جانوں کا ضیاع ہو سکتا ہے۔ کراچی کا بنیادی ڈھانچا، جیسے پل، سڑکیں، اور پلرز بھی زلزلے کے دوران شدید نقصان اٹھا سکتے ہیں۔ پلوں کے گرنے، سڑکوں کے ٹوٹنے اور گیس، پانی اور بجلی کی لائنوں میں خرابی سے شہر میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیل سکتی ہے۔ شہر میں بہت سے پُل اور فلائی اوورز ہیں جو زلزلے کے جھٹکوں کے دوران شدید نقصان اٹھا سکتے ہیں۔

پل گرنے سے ٹریفک کی روانی میں خلل پیدا ہو گا اور ایمرجینسی سروسز کی رسائی مشکل ہوجائے گی۔ زلزلے کے دوران بجلی اور پانی کی لائنوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے، جس سے پانی کی کمی اور بجلی کی طویل بندش ہو سکتی ہے۔ اگر مکران سبڈکشن زون میں زلزلہ آتا ہے تو اس کے نتیجے میں کراچی کے ساحلی علاقوں میں سونامی آنے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ ساحلی علاقے جیسے کلفٹن، سی ویو، اور ڈیفنس میں زلزلے کے بعد آنے والی سونامی سے عمارتوں اور بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کراچی کے ساحلی علاقوں میں موجود فلیٹس اور اونچی عمارتیں سونامی کی زد میں آ سکتی ہیں، جس سے ان عمارتوں کے تباہ ہونے کا خدشہ ہے۔ کراچی پاکستان کا صنعتی، مالیاتی، اور تجارتی مرکز ہے، لہٰذا زلزلے کی صورت میں معاشی نقصان بھی بہت زیادہ ہو سکتا ہے۔

شہر کے صنعتی علاقوں میں فیکٹریاں، کاروباری دفاتر اور کارخانے تباہ ہوسکتے ہیں، جس سے ملکی معیشت کو بڑا دھچکا لگے گا۔ کراچی کے کاروباری علاقوں جیسے آئی آئی چندریگر روڈ، شاہراہِ فیصل اور صدر میں موجود کمرشل بلڈنگز بھی زلزلے کے اثرات سے متاثر ہو سکتی ہیں، جس سے کاروبار کو بھاری نقصان پہنچ سکتا ہے۔ زلزلے کے بعد ایمرجینسی سروسز جیسے ایمبولینس، پولیس، اور فائر بریگیڈ کے لیے رسائی ایک بڑا مسئلہ ہوسکتی ہے۔ کراچی کی تنگ اور رش والی سڑکیں بچاؤ کے کاموں میں رکاوٹ بن سکتی ہیں، جس سے جانی نقصان میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ زلزلے کے بعد شہر میں ٹریفک کا دباؤ مزید بڑھ جائے گا اور امدادی ٹیموں کو متاثرہ علاقوں تک پہنچنے میں مشکلات پیش آئیں گی۔ کراچی میں پہلے ہی ایمرجینسی سروسز کی کمی ہے، اور زلزلے کے دوران ان کی کارکردگی محدود ہو سکتی ہے، جس سے متاثرین کو بروقت مدد نہیں مل پائے گی۔

کراچی جیسے شہر میں زلزلے کے ممکنہ خطرے کے پیشِ نظر پیشگی اقدامات کرنا ضروری ہیں تاکہ جانی و مالی نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے۔ ذیل میں کچھ اہم پیشگی اقدامات بیان کیے گئے ہیں جو زلزلے کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اٹھائے جا سکتے ہیں:

حکومت کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ نئی عمارتیں زلزلہ مزاحم تعمیراتی اصولوں کے مطابق تعمیر ہوں۔ تعمیراتی معیارات کو عالمی سطح پر زلزلہ مزاحم عمارتوں کے اصولوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔

پرانی عمارتوں اور فلیٹوں کی تعمیرات کو جدید زلزلہ مزاحم ٹیکنالوجیز کے مطابق دوبارہ تیار کیا جائے یا ان میں ضروری تبدیلیاں کی جائیں تاکہ ان کی زلزلہ مزاحمت میں اضافہ ہو۔

 حکومت کو عمارتوں کا باقاعدہ معائنہ کرنا چاہیے تاکہ یہ یقین ہو کہ عمارتوں میں کسی قسم کی ساختی کم زوری نہیں ہے۔

 عوام کو زلزلے کے دوران بچاؤ کی تدابیر سکھانے کے لیے آگاہی مہمات چلائی جائیں۔ اسکولوں، کالجوں اور دفاتر میں زلزلے سے بچاؤ کی تربیت فراہم کی جائے تاکہ ہنگامی حالات میں لوگ بہتر طریقے سے ردعمل دے سکیں۔ عوام کو سکھایا جائے کہ زلزلے کے دوران کیسے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے، جیسے کہ کسی مضبوط جگہ کے نیچے چھپنا، کھڑکیوں سے دور رہنا، اور عمارتوں سے فوری طور پر باہر نکلنے کی کوشش کرنا۔

کراچی کی ایمرجینسی سروسز جیسے ایمبولینس، فائر بریگیڈ، اور پولیس کو جدید آلات اور تربیت فراہم کی جائے تاکہ وہ زلزلے کے بعد فوری طور پر امدادی کارروائیاں کر سکیں۔

 خصوصی ریسکیو ٹیمیں تیار کی جائیں جو زلزلے کے بعد عمارتوں کے ملبے میں پھنسے افراد کو نکالنے کے لیے جدید آلات استعمال کر سکیں۔

 حکومت اور بلدیاتی اداروں کو ایک جامع ایمرجینسی ایکشن پلان بنانا چاہیے جو زلزلے کی صورت میں فوری طور پر نافذ کیا جا سکے۔ اس پلان میں ہنگامی پناہ گاہوں، اسپتالوں، اور دیگر اہم جگہوں کی نشان دہی کی جائے۔

ہر عمارت میں ایمرجینسی راستے اور سیڑھیوں کی دستیابی یقینی بنائی جائے تاکہ زلزلے کے دوران لوگ عمارت سے باحفاظت نکل سکیں۔

 جدید عمارتوں میں زلزلہ الارم سسٹم نصب کیا جائے جو زلزلے کی صورت میں فوری طور پر لوگوں کو خبردار کر سکے۔ عمارتوں میں ہنگامی خروج کے پوائنٹس کی نشاندہی کی جائے اور انہیں ہمیشہ کھلا رکھا جائے تاکہ زلزلے کے دوران لوگ جلدی نکل سکیں۔

 کراچی کے ساحلی یا زلزلے کے لحاظ سے حساس علاقوں میں نئی تعمیرات پر پابندی عائد کی جائے یا انہیں سخت قواعد کے تحت کیا جائے تاکہ زلزلے سے ہونے والے نقصان کو کم کیا جا سکے۔ شہر میں زیادہ آبادی والے علاقوں میں بلند عمارتوں کی تعداد محدود کی جائے تاکہ زلزلے کی صورت میں زیادہ نقصان نہ ہو۔

شہر کے بنیادی ڈھانچے جیسے پانی، بجلی، اور گیس کی لائنوں کو مضبوط کیا جائے تاکہ زلزلے کے دوران یہ خدمات متاثر نہ ہوں یا کم سے کم متاثر ہوں۔

 پل اور سڑکوں کو زلزلہ مزاحم بنایا جائے تاکہ ہنگامی حالات میں ٹرانسپورٹیشن کا نظام برقرار رہے اور امدادی ٹیمیں بروقت پہنچ سکیں۔

جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے زلزلے کی پیش گوئی کرنے والے آلات نصب کیے جائیں، جیسے کہ سیسموگراف اور وارننگ سسٹم، تاکہ ممکنہ زلزلے سے پہلے لوگوں کو خبردار کیا جا سکے۔

ساحلی علاقوں میں سونامی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے وارننگ سسٹم نصب کیا جائے تاکہ زلزلے کے بعد فوری طور پر لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جا سکے۔

 حکومت کو زلزلوں سے بچاؤ اور پیشگی اقدامات کے لیے مضبوط پالیسی سازی کرنی چاہیے۔ تعمیراتی صنعت کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں اور ان پر عملدرآمد کروایا جائے۔

 زلزلے سے ممکنہ نقصانات کو کم کرنے کے لیے انشورنس کا نظام متعارف کرایا جائے، جس سے عمارتوں اور کاروباروں کو مالی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔





Source link