تزکیہ کے بنیادی معنی پاک صاف کرنا، نشو و نما دینا اور پروان چڑھانا ہیں۔ یہ لفظ قرآن پاک میں متعدد مرتبہ مختلف صورتوں میں وارد ہوا ہے۔
چناں چہ اس کا مفہوم ہمہ گیر اور اس کے میدان وسیع ہیں۔ کسی ایک چیز کا تزکیہ مقصود نہیں بل کہ انسانی، شخصیت یعنی اس کا نفس زبان، قلب، ان سب کا تزکیہ مقصود ہے۔ یہ لفظ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر مطلقاً وارد ہوا ہے۔ فرمان باری تعالی کا مفہوم: ’’کام یاب ہُوا وہ جس نے تزکیہ کیا۔‘‘ (سورہ اعلیٰ) اسی طرح نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقاصدِ بعثت میں ایک ’’یُزَکیھم‘‘ بھی ہے، یعنی پیغمبر انھیں پاک کرتا ہے۔
تزکیے کا سب سے پہلا میدان انسان کا اپنا نفس ہے۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس کی کئی جگہ صراحت فرمائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے، مفہوم: ’’یقیناً فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا۔ اور نامراد ہُوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا۔‘‘ (الشمس)
قرآن مجید میں یہ لفظ جسمِ انسانی کے لیے بھی استعمال ہُوا ہے، خواہشاتِ نفس کے لیے بھی اور ضمیر کو بھی نفسِ لوامہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
نفس سے مراد پوری انسانی شخصیت ہی لی جائے گی۔ جس میں عقل، قول و فعل سب شامل ہیں۔ عقلِ انسانی فکر کا مسکن ہے۔ یہ سوچ سمجھ، غور و فکر اور تدبر کا ذریعہ ہے۔ یہی انسانیت کے لیے وجۂ شرف ہے۔ عقل ہی سے انسان مختلف نظریات کو پرکھتا ہے۔ یہیں عقائد و نظریات رہتے ہیں۔ اسی کے ذریعے انسان خیر و شر، نیک و بد، اندھیرے اور اُجالے میں فرق کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ چناں چہ سب سے پہلے اسی عقل کا تزکیہ ضروری ہے۔ شیطان سب سے پہلے انسانی عقل پر حملہ آور ہُوا ہے۔ شیطان عقائد کو مشکوک بنانے کے لیے وسوسہ اندازی کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اُس کے وساوس سے پناہ مانگتے رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔
تزکیہ، عقل کے لیے ضروری ہے کہ غیر اسلامی افکار اور نظریات کی تشخیص کی جائے اور اس کو درست کیا جائے جو عقل میں جڑ پکڑ چکے ہیں یا جن کو شیطان اپنے آلہ کاروں کے ذریعے پوری قوت سے پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس کا علاج قرآن پاک سے مضبوط تعلق، رسول اﷲ ﷺ کی احادیث اور آپ ﷺ کی پاکیزہ سنّت اور سیرت پر عمل اور قرآنِ پاک اور احادیث کا گہرا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ اور صرف یہی نہیں کہ صرف ایک بار کا مطالعہ کرنے سے بات بن جائے بل کہ جب تک جسم اور سانس کا رشتہ استوار و برقرار رہے۔ یہ مطالعہ برابر جاری رہے تو توقع ہے کہ کسی نہ کسی حد تک تزکیہ ہوتا رہے گا۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
صدق و صفائے قلب سے محروم ہے حیات
کرتے ہیں بندگی بھی جہنم کے ڈر سے ہم
قلب، جذبات کا مرکز ہے۔ اس کے اندر محبت، رشک، بُغض اور نفرت جیسے جذبات جنم لیتے رہتے ہیں۔ تزکیۂ قلب یہ ہے کہ انسان دل میں پنپنے والے جذبات کا مسلسل جائزہ لیتا رہے۔ محبت کا جائزہ لے کہ دل میں محبت کی کیفیت کیا ہے۔ کیا اﷲ اور اُس کے رسول ﷺ کی محبت غالب ہے یا دنیا کی ۔۔۔ ؟ یہی معاملہ خوف کا ہے۔ دل میں اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا خوف اہلِ علم کی نشانی اور دانائی کی دلیل ہے۔
قرآن حکیم میں ہمیں راہ نمائی فراہم کی گئی ہے، مفہوم:
’’حقیقت یہ ہے کہ اﷲ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں‘‘۔ (فاطر)
جسم کی ظاہری حالت، ہاتھ اور پاؤں، آنکھیں اور کان اور زبان کا بھی تزکیہ ضروری ہے۔ اِن سے ہونے والے اعمال کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا، بل کہ قیامت کے دن یہ اعضاء خود اپنے جسم کے خلاف گواہی دیں گے۔ چناں چہ جسم کے ان حصوں کا تزکیہ بھی ضروری ہے۔
زبان کا تزکیہ یہ ہے کہ اس سے خلافِ حق بات نہ نکلے۔ کوئی جھوٹ، جھوٹی گواہی، بہتان، غیبت یا فساد کی بات برآمد نہ ہو۔ اگر ایسا ہے تو یہی زبان جہنم میں لے جانے کا باعث بنے گی۔ یہی حال آنکھوں اور کانوں کا ہے۔ اﷲ تعالیٰ آنکھوں
کی خیانت سے باخبر ہے، کان جو کچھ سنتے ہیں اُس کی گواہی دیں گے۔
گھر اُس کا ماحول کا تزکیہ بھی بہت ضروری ہے۔ انسان اپنے اردگرد کے ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ ماحول ہی انسان کے بناؤ اور بگاڑ میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ چناں چہ گھر کے ماحول کو درست رکھنا گھر کے سربراہ کی ذمے داری ہے۔ گھر کے افراد کی تعلیم و تربیت، بچوں اور بڑوں میں قرآن فہمی کے لیے رغبت، نمازوں کی حفاظت، حلال و حرام کے حوالے سے گھر کے افراد کی تربیت، یہ سب خاندانوں کے تزکیہ کا سبب بنتا ہے۔ تزکیے کی تکمیل کے لیے نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے ایمان کی دعوت دی، پھر بہ تدریج اپنی تعلیم و تربیت کے ذریعے سے اہلِ ایمان میں عملی اطاعت و فرماں برداری، اخلاقی طہارت، یعنی تقویٰ اور اﷲ کی محبت و وفاداری کے اوصاف پیدا فرمائے۔
نبی کریم ﷺ کے اس اندازِ تربیت کو سمجھتے ہوئے ہمیں بھی خود اپنا، یعنی اپنے نفس، عقل، قلب یہاں تک کہ قول و فعل کا تزکیہ کرنا چاہیے، پھر گھر کے افراد کا پھر اس دائرے کو وسیع کر کے پورے معاشرے تک پھیلایا جائے۔
اﷲ تعالی ہمیں تزکیۂ نفس کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین