پاکستان کی بدقسمتی کا آغاز 1951سے 1958 کے درمیان سے ہوتا ہے کہ جب پاکستان میں جمہوریت کا بتدریج خاتمہ کر دیا جاتا ہے لیکن یہ بدقسمتی تو اس سے بھی پہلے شروع ہو جاتی ہے جب قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی تقریر سے صریحاً انحراف کرتے ہوئے بنیاد پرستی کی داغ بیل ڈال دی جاتی ہے۔ اب ہم یہاں ڈسکس کریں گے کہ یہ سب اچانک ہوا ، بلا وجہ ہوا ، لاشعوری طور پر ہوا یا نادانستگی میں ہوا۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ یہ سب کچھ انتہائی چالاکی ہوشیاری منصوبہ بندی سے ہوا جس میں مقامی اور عالمی طاقتیں شامل تھیں۔ جس میں برطانیہ اورامریکا خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ قیام پاکستان سے اب تک کی پاکستان کی تاریخ کو دیکھتے جائیں ۔
جب بھی پاکستان نے آگے بڑھنے کی کوشش کی یا آگے بڑھا ایک شیطانی سازش کے تحت پاکستان کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔ یہ عمل بار بار دوہرایا گیا یہاں تک کہ ہم سیاسی و معاشی عدم استحکام سے مکمل طور پر محروم ہو کر آج بدترین حالات کو پہنچ گئے ہیں۔ سیاسی استحکام پر معاشی استحکام پروان چڑھتا ہے۔ اگر سیاسی استحکام نہیں تو معاشی استحکام بھی نہیں۔ یہ بنیادیں ہیں کسی ملک کی بقاء، سالمیت اور تحفظ کی۔ اس کے لیے صاف و شفاف جمہوریت اولین شرط ہے۔ یعنی عوام کو بغیر کسی جبر خوف و ڈر کے اپنے نمایندے چننے کا مکمل اور بھرپور اختیار دیا جائے۔ دنیا کے جن جن ملکوں میں ایسا ہوا ہے انھیں ترقی کے بام عروج پر پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکا۔
جب پاکستان وجود میں آرہا تھا اس وقت سرد جنگ کا آغاز ہو چکا تھا، یہ سرد جنگ سوویت یونین اور امریکی سامراج کے درمیان تھی۔ چنانچہ دنیا دو بلاکوں میں بٹ گئی ۔ دنیا کے زیادہ تر ملک امریکا کے ساتھ چلے گئے کیونکہ امریکا معاشی اور عسکری لحاظ سے طاقتور تھا اس لیے کہ دنیا کے بیشتر قدرتی وسائل اس کے تصرف میں تھے۔
ایک دوسرا گروپ بھی تھا جو سوویت یونین کے ساتھ تھا ۔ تیسرا غیر جانبدار ملکوں کا گروپ تھا جس میں سابق یوگو سلاویا کے مارشل ٹیٹو، مصر کے جمال عبدالناصر، بھارت کے جواہر لال نہرو اور انڈونیشیا کے سوئیکارنو وغیرہ شامل تھے۔ اس طرح سے یہ سرد جنگ اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ جھگڑا تھا دو نظاموں کا۔ سرمایہ دارانہ اور سوشلسٹ نظام کا۔ سامراج جو گزشتہ پانچ صدیوں سے دنیا کے وسائل پر قابض ہے بقول ہنگری کے وزیر اعظم کے۔ کالونیل ازم اور نیو کالونیل ازم کی شکل میں حالیہ دور میں دوسری جنگ عظیم کے بعد اس کا مائی باپ امریکا اور اس سے پہلے برطانیہ تھا۔ اب دنیا پر اس سامراجی بالادستی کو خطرہ روس اور چین سے ہے۔ تو اب کیا کیا جائے۔ تو یوکرین جنگ شروع کروا دی گئی اور چین کو بحر جنوبی چین میں گھیر لیا گیا۔
افغانستان کی بیس سالہ جنگ میں روس اور خاص طور پر چین معاشی اور عسکری طور پر بہت طاقتور ہو گئے کیونکہ امریکا کی ساری توجہ افغانستان پر مرکوز رہی اور وہاں ہزاروں ارب ڈالر جھونک ڈالے۔ لیکن صورتحال میں کوئی بڑی جوہری تبدیلی رونما نہ ہو سکی۔ وجہ افغانستان کا صدیوں پرانا پسماندہ قدامت پسند قبائلی پس منظر تھا۔ تو اس تمام صورتحال میں جب امریکی تھنک ٹینکوں نے چین اور روس کے عزائم کی خبر دی تو امریکا کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ فوری طور پر پاکستان کے ذریعے افغان طالبان سے ’’ڈیل ‘‘ہوئی اور اس ڈیل کو خفیہ رکھنے کے لیے آخری مرحلے میں پاکستان کو دودھ میں مکھی کی طرح نکال باہر کیا گیا۔ اس طرح بغیر کسی خون خرابے کے انتہائی پرامن طور پر تخت کابل پر افغان طالبان کا قبضہ ہو گیا۔ افغان طالبان کے امریکی اور اتحادی فوجوں کے کابل سے پُر امن انخلا پر اربوں ڈالر کا جدید ترین اسلحہ انعام کے طور پر افغان طالبان کے حوالے کر دیا گیا۔ جسے اب پاکستان کے خلاف تحریک طالبان پاکستان استعمال کر رہے ہیں۔
اس وقت 1971 سے زیادہ خطرناک صورتحال کا سامنا پاکستان کو ہے۔ تقریباً روزانہ پاکستانی فوج کے جوان تحریک طالبان کے دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہو رہے ہیں جن کی سرپرستی حکمران افغان طالبان کر رہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک اور المناک صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ہاں ان دہشت گردوں کے سہولت کار، ہمدرد پائے جاتے ہیں۔ یہ سب وہ ہیں جو پاکستان میں ان خوارج کا کنٹرول چاہتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں ڈیورنڈ لائن کا خاتمہ کرتے ہوئے اسلام آباد تک قبضہ۔ اس کے بعد پاکستان کے دوسرے شہروں میں دہشت گردی کرتے ہوئے ان پر کنٹرول۔ خطے کی موجودہ صورتحال ان دہشت گردوں کے لیے بڑی مددگار ہے پاکستان توڑنے کے لیے یہی امریکی ایجنڈا ہے۔ لیکن غزہ کی جنگ نے اس پر وقتی رکاوٹ ڈال دی ہے۔ پاکستان کی موجودہ بدترین سیاسی معاشی صورتحال اور مغربی سرحدوں پر ہونے والے سانحات پاکستان کو مسلسل اندر سے کھوکھلا کر رہے ہیں۔ عالمی اور خطے کی پاکستان کی دشمن قوتیں بے تاب ہیں تاریخ کے اس سنہری موقع کو استعمال کر کے اس کا خاتمہ کرنے کے لیے۔
تیسری عالمی جنگ کی بنیادیں اس سال کے آخر اور ا گلے سال کے شروع میں پڑجائیں گی۔