یہ نوجوانوں کا دور ہے لیکن ا ب سے پہلے ہمارے وزرائے اطلاعات بڑے تجربہ کاراور سینئر لوگ ہوا کرتے تھے۔ پی ڈی ایم کی حکومت بنی تو ایک نوجوان کو یہ منصب دیا گیا۔ یہ مریم اورنگ زیب تھیں۔
وہ بڑا مشکل دور تھا لیکن اس نوجوان وزیر اطلاعات نے ان مشکل حالات کا خم ٹھونک کر مقابلہ کیا۔ ایک طرف سوشل میڈیا کا پروپیگنڈا، ڈس انفارمیشن، توہین آمیز رویے اور دوسری طرف اس سب سے نمٹتی ہوئیں تنہا مریم اورنگ زیب۔ عام انتخابات کے بعد مریم پنجاب چلی گئیں تو سوال پیدا ہوا کہ اب ان جیسا جی دار کون ہوگا؟ پھر عطا اللہ تارڑ کا نام سامنے آگیا۔ کار سرکار میں وزارت اطلاعات ایک ایسا محکمہ ہے جس میں کسی وزیر کی اہلیت اور صلاحیت کو جانچنے کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ دو تین واقعات میں ہی سب کچھ کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ نوجوان تارڑ کے معاملے میں تو اتنا بھی نہیں ہوا۔ وہ پہلی پریس کانفرنس میں ہی رنگ جمانے میں کام یاب رہے۔ وہ لوگ جو چند روز پہلے ان کے بارے میں تشویش میں مبتلا تھے،اب پر خاموش ہیں۔
بات دوسری طرف جا نکلی، اصل میں ذکر تو جشن آزادی کا تھا۔ یہ درست ہے کہ اس بار جشن آزادی کئی اچھی خبریں ایک ساتھ لایا۔ باتیں بہت سی ہیں، پیٹرول کی قیمت میں نمایاں کمی ہوئی، زرمبادلہ کے ذخائر میں غیر معمولی اضافہ ہوا، اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی شان دار رہی۔ مہنگائی میں کمی ہوئی اور اس سب سے بڑھ کر ارشد ندیم اولمپک گیمز سے صرف طلائی تمغہ نہیں لائے بلکہ انھوں نے اولمپک کھیلوں کا اب تک کا ریکارڈ بھی توڑ ڈالا۔ اس کے ساتھ ہی یا اس سے متصل قبل ایک واقعہ اور بھی ہوا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے جشن آزادی کی تقریبات کے سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کر دی۔ اس کمیٹی کے اجلاس ہوئے تو وزیر اعظم پاکستان نے بھی ان کی صدارت کی جب کہ بہت سے دیگر سینیئرز بھی اس میں شریک رہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دن اور اس دن سے وابستہ تقریبات کے اہتمام اور انعقاد کے لیے عطا اللہ تارڑ نے ایک وزیر اور سیاسی کارکن سے بڑھ کر کام کیا۔
اہل اقتدار کی تعریف ہوا ہی کرتی ہے لیکن 2024 ء کے جشن آزادی کی تقریبات کو ملک کی مخصوص صورت حال کے تناظر میں ایک خاص شکل دینے کا کارنامہ انھوں نے ہی نے انجام دیا۔ جشن آزادی کی مرکزی تقریب میں شرکت کا موقع تو نہیں ملا لیکن اس حقیقت کو تو سب تسلیم کرتے ہیں کہ اس تقریب کی تین باتیں خاص تھیں۔ اس موقع پر وزیر اعظم پاکستان عمومی روایت کے مطابق اسٹیج پر نہیں بیٹھے بلکہ ہال کے وسط میں عوام کے عین درمیان بیٹھے اور ایسا کرتے ہوئے کوئی خصوصی حفاظتی انتظامات بھی نہیں کیے گئے۔ اس تقریب کی دوسری خاص بات یہ تھی کہ روایت کے مطابق وزیراعظم کو گارڈ آف آنر پیش کرنے کے بہ جائے تقریب میں موجود بچوں اور نونہالوں کو دیا گیا۔ اس تقریب کی تیسری اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اولمپئن ارشد ندیم کو اس تقریب کا مہمان خصوصی بنایا گیا۔
ارشد ندیم کو میاں چنوں سے اسلام آباد لانے کا فیصلہ ہوا تو وزیر اعظم نے اپنا جہاز پیش کر دیا۔ باقی معاملات عطا اللہ تارڑ نے سنبھال لیے۔ ارشد ندیم اسلام آباد سے نکلے اورپشاور سے ہوتے ہوئے کراچی تک گئے۔ خود اسلام آباد میں بھی انھوں نے پے درپے کئی تقریبات میں شرکت کی۔ اس سب کا اہتمام عطا اللہ تارڑ نے بہ خوبی کیا جس کے لیے وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں نے بھی کھل کر ان کی تحسین کی لیکن یہ ان کا حتمی کارنامہ نہیں ۔ ایک کام انھوں نے اس سے بھی بڑھ کر کیا۔
پاکستان کے عوام اور حکومت کا اصل مسئلہ تو معیشت ہے۔ عوام کو کوئی حقیقی سہولت اس وقت تک نہیں مل سکتی جب تک معیشت بہتر نہیں ہو جاتی۔ معیشت کے استحکام کی ایک مضبوط بنیاد تو آئی ایم ایف سے ملنے والی سہولت ہے۔ اب یہ تو ایک حقیقت ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کا اسٹینڈ بائی پروگرام کام یابی کے ساتھ مکمل کر لیا ہے اور اگلا طویل المیعاد پروگرام شروع ہونے ہی والا ہے۔ توقع یہی ہے کہ آئندہ تین برس کے دوران یہ پروگرام بھی کام یابی کے ساتھ مکمل ہو جائے گا، یوں پاکستان اور اس کے عوام کا ایک درد سر تو ختم ہو جائے گا لیکن ترقی کی حقیقی بنیاد اس وقت تک مضبوط ہو نہیں سکتی اگر ملک میں بڑے پیمانے پر اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری نہ ہو اور یہ کام اس وقت تک ہو نہیں سکتا جب تک سرمایہ کار کا اعتماد بحال نہ ہو۔
پاکستانی اور غیر ملکی سرمایہ کار کے اعتماد کی بحالی کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ ان میں ایک بڑی رکاوٹ پروپیگنڈے کا وہ طوفان ہے جو پی ٹی آئی اور اس کے اندرون ملک و بیرون ملک آپریٹرز اور ان کے پاکستانی و غیر پاکستانی سہولت کاروں کے ہاتھوں انجام پا رہا ہے۔ ان سہولت کاروں کی ایک صورت پی ٹی آئی کے سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن کے غیر ملکی رابطوں کی صورت میں سامنے آ چکی ہے۔ اس سلسلے میں حالیہ دنوں میں رائن گرم کا نام سب سے نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے۔ یہ صاحب مسلسل اس پروپیگنڈے میں مصروف ہیں کہ پاکستان کی حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے اور اس پر پابندیاں عاید کی جائیں۔
رائن گرم کا نام تو اب سامنے آیا ہے لیکن یہ کوئی ایک شخص نہیں، پورا نیٹ ورک ہے جس کی سرپرستی ایک بہت بڑی پاکستان دشمن لابی کر رہی ہے۔ یہ وہی لابی ہے جس کی تفصیلات فارن فنڈنگ اور ممنوعہ فنڈنگ کیس میں سامنے آ چکی ہیں۔ یہ پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کی ایک مربوط بین الاقوامی سازش ہے۔ اس کے مظاہر آئی ایم ایف کے دفتر کے باہر پاکستان کے خلاف مظاہروں کی صورت میں بھی سامنے آ چکے ہیں۔
اس سب کا مقصد یہی ہے کہ سرمایہ کار پاکستان سے مایوس ہو جائے۔ اس جشن آزادی کے موقع پر عطا اللہ تارڑ کا ایک ہدف یہ پروپیگنڈا تھا جس کے مقابلے لیے ‘ اکنامک افیئرز ‘ کے عنوان سے ایک ضخیم جنرل شائع کیا گیا ہے۔ اس جرنل میں بین الاقوامی شہرت رکھنے والے کئی اہم ماہرین معاشیات نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے روشن مستقبل کو اجاگر کیا ہے۔ان میں ڈاکٹر عبد الحفیظ پاشا، طلعت انور، ڈاکٹر ظفر محمود ، پاکستان آٹو انڈسٹری کے مشہود خان، راولپنڈی چیمبر آف کامرس کے ثاقب رفیق، اسلام آباد چیمبر کے غلام مرتضیٰ اور بہت سے دیگر نمایاں ماہرین اقتصادیات شامل ہیں۔ جرنل میں وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کا خصوصی انٹرویو بھی شامل ہے جس میں انھوں نے پاکستان کے معاشی لینڈ اسکیپ کو بڑی مہارت اور خوبصورتی سے اجاگر کیا ہے۔
اس جرنل کے مخاطبین پاکستان میں واقع تمام غیر ملکی سفارت خانے، پاکستانی اور غیر ملکی سرمایہ کار اور بین الاقوامی اقتصادی ادارے ہیں۔ قومی معیشت کے تعلق سے وفاقی وزیر اطلاعات کا یہ قدم غیر معمولی اور جرات مندانہ ہے۔ انھوں نے بڑی مہارت سے کام لیتے ہوئے جشن آزادی کی مرکزی تقریب کے فوراً بعد اس جرنل کی لانچنگ وزیر اعظم پاکستان کے ہاتھوں کرائی۔ میرا خیال ہے کہ قومی معیشت کے خلاف پروپیگنڈے کے مقابلے کے لیے یہ پہلا بڑا قدم آخری قدم نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح کی خصوصی اشاعتوں کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے ۔ اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا کے علاوہ سرکاری اور غیر سرکاری الیکٹرانک میڈیا بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ توقع یہی ہے کہ اس سلسلے میں بھی ایک جامع حکمت عملی ان کے پیش نظر ہو گی۔