انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل ہے جس نے اپنی اہلیت اور صلاحیت کی بدولت دنیا کو تسخیر کیا، بعض انسان قدرتی یا دیگر وجوہات کی بنا پرمعذوری کا شکار ہوجاتے ہیں، ان میں احساس محرومی کو دور کرنے اورمعاشرے کو مضبوط تربنانے کے لیے انسانی حقوق سے متعلق قوانین معذورین کوعام انسان کی طرح مساوی حقوق اورمواقع فراہم کرتے ہیں، کسی بھی امتیازی سلوک کے منافی رویے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، معذورین کو برابری کی بنیاد پرسہولیات کی فراہمی بنیادی حق گردانا جاتا ہے، کھیل انسانی زندگی کا حصہ ہیں۔
ماضی قدیم سے اولمپک مقابلوں کو کھیلوں میں کلیدی حیثیت حاصل ہے، موجودہ دور میں اولمپک گیمز کی عالمی سطح پر قدرو منزلت ہے، دنیا بھر کے بہترین کھلاڑی اولمپکس میں شرکت اور تمغہ جیتنا باعث افتخار تصور کرتے ہیں، یہ امر قابل مسرت ہے کہ ہر چار سال بعد ہونے والے اولمپک گیمزکے فوری بعد میزبان ملک میں پیرالمپکس منعقد ہوتی ہیں، ان کا مقصد کسی بھی قسم کی معذوری کے شکار کھلاڑیوں کو صلاحیتوں اور اہلیت کے اظہار کے مواقع فراہم کرنا ہوتا ہے۔
یہ گیمزباور کراتے ہیں کہ معذور بھی عام کھلاڑی کی طرح معاشرے کا اہم حصہ ہوتے ہیں ،جسمانی معذوری کے باوجود وہ کسی سے ہرگز کم نہیں، دنیا کے مہذب معاشروں میں معذورین کو خصوصی اہمیت دینے کی پیش نظران کو کھیلوں کی مناسب تربیت کے بعد مقابلوں میں شرکت کے مواقع فراہم کر کے ثابت کیا جاتا ہے کہ ایسے کھلاڑی جسمانی یا ذہنی طور پر کمزور تو ہوسکتے ہیں لیکن ان کے ارادے اورحوصلے بلند ہوتے ہیں، پیرالمپکس میں شامل کھیلوں میں شریک کھلاڑیوں کو معذوری کے لحاظ سے مختلف درجات میں تقسیم کرکے اسی بنیاد پر مقابلوں کا انعقاد ہوتا ہے۔
پیرس اولمپکس 2024 کے شایان شان انعقاد کے بعد فرانسیسی دارلحکومت میں 17 روز تک 17 ویں پیرالمپکس گیمزمیں22 کھیلوں کے 549 ایونٹس میں دنیا بھر سے آئے ساڑھے چار ہزار سے زائد معذور مردو خواتین کھلاڑی شریک ہوئے، ان مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی 40 سالہ آل راؤنڈ ایتھلیٹ حیدرعلی نے کی، بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کے لیے 5 گولڈ، 2 سلور اور3 برانز میڈلز جیتنے والے حیدر علی نے ٹوکیو پیرالمپکس 2020 میں 55.26 میٹرز تھرو کرکے ملک کا پہلا گولڈ میڈل جیتا تھا، وہ پیرس پیراولمپکس میں اعزاز کادفاع تو نہ کر سکے لیکن اسی ایونٹ میں 52.54 میٹرز کے ساتھ برانز میڈل پانے میں کامیاب رہے۔
گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے دماغی فالج کے شکارحیدرعلی نے بیجنگ پیرالمپکس 2008 کی لانگ جمپ میں پاکستان کے لیے پہلا میڈل جیت کرتاریخ رقم کی تھی، انھوں نے پیرس گیمزمیں شریک ہو کر پاکستان کی جانب سے مسلسل 5 ویں پیرالمپکس میں شرکت کا منفرد ریکارڈ بھی قائم کیا، قبل ازیں منعقدہ پیرس اولمپکس میں پاکستان کے ایتھلیٹ 27 سالہ ارشد ندیم نے جویلین تھرومیں پاکستان کے لیے پہلا انفرادی گولڈ میڈل جیتا توپورے ملک میں خوشی کی لہر سی دوڑ گئی تھی، کھیلوں سے واجبی سا بھی شغف رکھنے والے ہر فرد نے بھرپور مسرت کا اظہار کیا، ارشد ندیم کی قومی سطح پر بھرپور پزیرائی ہونے کے ساتھ دولت کی بارش ہوگئی اور وہ کروڑوں میں کھیلنے لگے۔
البتہ اسے قومی لاعلمی، بے حسی یا بے اعتناعی سمجھا جائے کہ پیرالمپکس میں ملک کے لیے میڈل جیتنے والے حیدرعلی کسی بھی عوامی یا سرکاری پذیرائی سے محروم رہے، جس سے ان کا دل ٹوٹ گیا ہے، کسی بھی معذوری کے شکار فرد کو مساوی درجہ ملنا اس کا حق ہے لیکن بدقسمتی سے حیدرعلی اس حق سے محروم ہیں، ان کا اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا ہے کہ اولمپئن ارشد ندیم کو ملنے والی محبت کے بعد مجھے امید تھی کہ میڈل جیتنے کے بعد وطن واپسی پر پزیرائی ملے گی لیکن ایسا نہ ہونے پربہت مایوسی ہوئی۔
دنیا بھرمیں اولمپئن کی طرح پیرا اولمپئن سے بھی مساوی رویہ اپنایا جاتا ہے، امید ہے کہ دیر آئے درست کے مترادف مجھے بھی وہ مقام ملے گا جس کا مستحق ہوں، پیرس پیرالمپکس میں اعزاز کا دفاع نہ کرنے کے حوالے سے حیدرعلی نے کہا کہ بھرپور پریکٹس کے باوجود بدقسمتی رہی کہ ایونٹ سے قبل بخار اور طبیعت کی خرابی کے ساتھ تکنیکی مسائل کے سبب میں گولڈ میڈل اپنے نام نہ کرسکا، اب اگلے عالمی مقابلوں کے ساتھ لاس اینجلس پیرالمپکس 2028 کی بھر پورتیاری کرکے ملک و قوم کے لیے اعزازات پانے کی کوشش کروں گا۔
واضح رہے کہ 12 دسمبر 1984 گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والے حیدر علی ایک ہمہ جہت پاکستانی پیرا ایتھلیٹ ہیں، انھوں نے بیجنگ، چین میں 2008 کے سمر پیرالمپکس میں پاکستان کا پہلا میڈل حاصل کیا اور چاندی کا تمغہ جیت کرتاریخ رقم کی، حیدر علی نے 6.44 میٹرکی چھلانگ لگا کر ایک نیا عالمی ریکارڈ بھی بنایا، ان کے پاس کسی ملک کے پہلے پیرالمپکس میں سونے، چاندی اور کانسی کے تمغے جیتنے کا منفرد ریکارڈ بھی ہے، وہ ورلڈ پیرا ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2019 میں چاندی کا تمغہ جیتنے والے پہلے پاکستانی پیرا ایتھلیٹ بنے، حیدر علی کی ایتھلیٹک صلاحیت کو کھیلوں کے حکام نے 2005 میں فیصل آباد میں ایک تربیتی کیمپ میں دریافت کیا۔
ڈاکٹر رباب کی طرف سے درجہ بندی کے بعد حیدر علی نے ٹریک اور فیلڈ ایونٹس لانگ جمپ، ڈسکس تھرو، ہائی جمپ سو میٹرز، 2 سو میٹرز کی دوڑ میں خصوصی تربیت حاصل کی، انھوں نے کوچ علی مغل علی کی زیر نگرانی 2006 میں انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز ایک طلائی اور تین سلور میڈلز جیت کر کیا، سمرلمپکس 2008 میں حیدرعلی نے لانگ جمپ میں پاکستان کے لیے پہلا سلورمیڈل جیتا اور 1104 پوائنٹس حاصل کیے ،یہ معذور افراد کے لیے کھیلوں میں ایک نیاعالمی ریکارڈ بھی ہے۔
ایشین پیرا گیمز 2010 میں حیدر علی نے لانگ جمپ میں گولڈ، سو میٹرز میں برانز، ڈسکس تھرو اور جویلین تھرو میں گولڈ میڈل جیتا، لندن پیراولمپکس میں وہ کوئی میڈل نہ پاسکے لیکن 2016 کے پیرالمپکس میں لانگ جمپ میں پاکستان کا پہلا برانز میڈل جیتا، وہ دبئی میں منعقدہ عالمی پیرا ایتھلیکٹس چیمپئن شپ 2019 میں ڈسکس تھرو میں سلور میڈل جیت کر میڈل پانے والے پہلے پاکستانی بنے،حیدرعلی نے 2020 پیراولمپکس میں تاریخ رقم کرتے ہوئے ملک کا پہلا گولڈ میڈل جیتا، انہوں نے یہ اعزاز 55.26 میٹر کے ساتھ ڈسکس تھرو میں حاصل کیا، پیرس میں منعقدہ پیرالمپکس 2024 میں اسی ایونٹ میں 52.54 میٹرز کے ساتھ وہ برانز میڈل پانے میں کامیاب رہے۔
پاکستان پیرا کمیٹی کے روح رواں جمیل شامی کا کہنا ہے کہ حیدرعلی نے پاکستان کا بین الاقوامی سطح پرنام روشن کیا، ارباب اختیارکی جانب سے عالمی قوانین اورقومی پالیسی کے مطابق معذورین کے لیے مساوی حقوق پرعمل درآمد وقت کی ضرورت ہے، پاکستان کے معذور کھلاڑیوں میں بہت زیادہ ٹیلنٹ موجود ہے، مستقبل میں 15 سے 20 معذوری کے شکار کھلاڑیوں کو مناسب تربیت فراہم کرکے اگلے پیرالمپکس میں شرکت کو یقینی بنایا جائیگا۔n