انسانی معاشروں کو نظم اجتماعی کے بارے میں کسی حد تک متفقہ خدّوخال تراشنے میں صدیاں بیت گئیں۔ ہزارہا سالوں کے جنگ وجدل اور غوروخوض کے بعد انسانوں کی اجتماعی دانش اس نتیجے تک پہنچی کہ فیصلے تلوار سے نہیں جمہور کی رضامندی سے ہونے چاہئیں۔ نظامِ سلطنت طاقت سے نہیں باہمی مشاورت سے چلایا جائے گا اور ریاست کے امور چلانے والے نمایندوں کا چناؤ بلُٹ کے زور پر نہیں بیلٹ کے ذریعے ہوگا۔
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہم آج اکیسویںصدی میں بھی اجتماعی دانش سے کیے گئے فیصلے سے روگردانی پر تلے ہوئے ہیں۔ مہذب اور ترقی یافتہ ممالک آگے کی جانب رواں دواں ہیں جب کہ ہم پیچھے کی جانب دوڑ رہے ہیں۔ کیا ہم نے اپنے لیے صدیوں پرانے اُسی طریقۂ کار کا انتخاب کرلیا ہے جس میں فیصلہ صرف طاقت سے ہوتا تھا اور جہاں بھینس پر صرف لاٹھی بردار کا حق تسلیم کیا جاتا تھا۔ کیا امورِ سلطنت چلانے والا صدیوں پرانا انداز آج کارگر ہوسکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ ریاست کو صدیوں پرانے فرسودہ طریقوں سے چلانے کی کوشش کی جائے گی تو وہی نتیجہ نکلے گا جو ہمیں نظر آرہا ہے۔ بدامنی پھیلے گی، بے چینی ہوگی اور انتشار کو فروغ ملے گا، عدمِ اطمینان میں اضافہ ہوگا تو روشن دماغ افراد ریاست کی حدود سے باہر نکل جائیں گے۔
رُولز آف گیم کے بغیر تو ایک معمولی سی کمپنی نہیں چل سکتی، ایک چھوٹا سا ادارہ نہیں چلایا جاسکتا پوری ریاست کیسے چلائی جاسکتی ہے۔ اسی لیے ہر ملک کے باشندوں نے باہمی مشاورت سے رولز آف گیم طے کیے اور ان کا نام CONSTITUTION رکھا۔ اس اہم ترین دستاویز میں ریاست کے اہم ترین اداروں مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ، آرمڈ فورسز اور الیکشن کمیشن وغیرہ کی ذمے داریاں اور اختیارات طے کردیے۔ آج نظر دوڑا کر دیکھ لیں رولز آف گیم کا احترام کرنے والے یعنی ریاست کو رُول آف لاء کے مطابق چلانے والے ممالک ترقی کے اوجِ کمال پر ہیں اور گیم کے تحریر کردہ ضابطوں کو روندنے اور پامال کرنے والے تنزلی اور بربادی کا شکار ہیں۔
جمہوریت صرف پیسے اور دھونس سے ووٹ ڈلوا کر اقتدار حاصل کرنے کا نام نہیں ہے۔ جمہوریت جمہور کی رائے کو تسلیم کرنے اور دوسرے اداروں کے اختیارات کا احترام کرنے کا نام ہے۔ اگر مجھے وزیراعظم کے یا اسپیکر کے اختیارات اور مراعات حاصل ہیں تو یہ دولت کے زور پر نہیں، آئین میں لکھی ہوئی تحریر کی بدولت ہیں۔ اگر میں آئین کی کچھ شقوں کی بدولت بااختیار ہوں تو میرا یہ بھی فرض ہے کہ اُسی آئین کی چند دوسری شقوں کے مطابق دوسرے اداروں کے اختیارات کا بھی دل سے احترام کروں۔
اگر میں اپنے اختیارات سے لطف انداز ہوتا رہوں اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا فیصلہ ماننے کے بجائے اس آگے بند باندھنا شروع کردوں اور نئے قانون بنانے لگوں تو یہ طرزِ عمل نامناسب ہوگا اور اس کا نتیجہ اداروں میں تصادم، اور ملک میں انارکی کی صورت میں نکلے گا۔ کوئی فرد اور کوئی ادارہ ملک سے زیادہ اہم نہیں۔ ایسا زعم تو پاکستان بنانے والے قائدین کو بھی نہیں تھا، نہ وہ اپنے آپ کو ملک سے زیادہ اہم سمجھتے اور نہ ہی وہ یہ خیال کرتے تھے کہ ان کے اٹھ جانے سے خدانخواستہ ملک ختم ہوجائے گا۔ افراد یا اداروں کی انا ریاست سے بڑی ہوجائے تو ریاست ان کے بوجھ تلے پِس جاتی ہے۔
ہدف، اگر اپنے ادارے کی برتری قائم کرنا اور دوسروں کو نیچا دکھانا ہی رہا تو ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے، اگر بڑوں نے اپنے اپنے ادارے کو قبیلہ سمجھ کر قبائلی عصبیت کی چادر اوڑھ لی اور اسی عصبیت کی عینک سے دیکھنا بند نہ کیا تو ہم خدانخواستہ پھر کسی بڑے حادثے کا شکار ہوجائیںگے ۔ پارلیمنٹ ہو، عدالت عظمیٰ ہو یا کوئی اور آئینی ادارہ ان کے سربراہ اور نمایندے قائدؒ کے پاکستان کے وارث اور محافظ ہیں۔ اُن پر لازم ہے کہ وہ کوئی بھی قدم اُٹھانے سے پہلے وطنِ عزیز کے سبز ہلالی پرچم کو ایک نظر دیکھ لیا کریں اور کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے قائدؒ کی تصویر پر نظر ڈال کر سوچا کریں کہ میرے اس اقدام کا پاکستان کے مستقبل پر کیا اثر پڑے گا اور قائدؒ زندہ ہوتے تو اس اقدام کے بارے میں اُن کا ردِّعمل کیا ہوتا! لقمۂ تَرکی ہَوس میں مبتلا چند مفاد پرستوں کو نظر انداز کردینا چاہیے۔
پوری قوم صرف آئین اور قانون کی بالادستی چاہتی ہے۔ عوام سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ، عدلیہ اور فوج سب قابلِ احترام ادارے ہیں۔ سب کی عزّت بجا مگر ملک کی عزّت ان سب سے کہیں زیادہ بلند، برتر اور مقدس ہے۔ سب سے اہم پاکستان کی بقاء اور مستقبل ہے۔ ہماری 75 سالہ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی وطنِ عزیز کے مفاد کو اپنی اناؤں پر قربان کیا گیا تو وطنِ عزیز کے جسم پر گہرے گھاؤ لگے۔ یہ حقیقت کسی کو بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ یہ جدید ترین ابلاغ کا دور ہے اور اب ریاستوں کو چلانے کا فیصلہ آئین، قانون اور جمہور کی اجتماعی دانش سے ہوتا ہے۔ اور پھر ہم یہ کیوں فراموش کردیتے ہیں کہ پاکستان مختلف زبانیں بولنے والے مختلف خطوں اور صوبوں پر مشتمل ہے۔ یہ چھ اکائیوں کا مجموعہ ہے جسے ایک ایسی دستاویز نے یکجا رکھا ہوا ہے جسے آئین کہا جاتا ہے۔
آئین کو پامال اور بے توقیر کیا جائے گا تو خدانخواستہ اکائیاں بکھر جائیں گی۔ ہر ادارے میں اصلاحِ احوال کی بڑی گنجائش ہے۔ سیاسی حکومت کو فرسودہ عدالتی نظام کی اصلاح کرنی چاہیے تھی جو وہ نہیں کرسکی۔ موجودہ کریمنل جسٹس سسٹم کیا ڈلیور کررہا ہے اور اس کی برکات سے عوام النّاس کس قدر مستفیض ہورہے ہیں، اس کا اندازہ ملک کی کسی بھی ضلع کچہری یا عدالت کے باہر کھڑے ہزاروں لوگوں کی زبوں حالی سے لگایا جاسکتا ہے، وہ ہر شام نئی تاریخ لے کر رخصت ہوجاتے ہیں اور دوسری صبح ان کی جگہ لینے کے لیے افتادگانِ خاک کا ایک اور انبوہِ کثیر آجاتا ہے۔
برسوں سے یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔ نہ کبھی پارلیمنٹ میں بیٹھے قانون سازوں کو ووٹ دینے والے ان عوام کی حالت پر ترس آیا اور نہ ہی مسندِعدل پر بیٹھے ہوئے جج صاحبان کو! ایسے فرسودہ نظام کا خاتمہ اور نظامِ عدل کی اصلاح ہماری سیاسی قیادت کی ترجیحِ اوّل کیوں نہ بن سکی؟ اسی طرح ملک کا تعلیمی نظام ہی ہجوم کو ایک قوم بناتا ہے، اس میں اصلاح کیوں نہیں کی جاسکی؟ پورے ملک کے لیے ایک نصاب کیوں نہ رائج کیا جاسکا؟ کرائم اور کرپشن عروج پر ہیں لیکن اسے کنٹرول کرنا کسی بھی صوبائی حکومت کی ترجیحات میں ہی نہیں۔
مگر اِس وقت سوال معیشت کی نشوونما کا نہیں ملک کی بقاء ہے۔ ریاست کی اکائیوں میں بے چینی ہو اور عوام کی اکثریت ریاست کے بارے میں عدمِ اطمینان اور قومی اداروں کے بارے میں عدِم اِعتماد کا شکار ہوں تو گھر کے بڑوں کو سر جوڑ لینا چاہیے ،گھر بچانے کے لیے سب قربانی دیں اور تھوڑا تھوڑا پیچھے ہٹیں۔ گھر کے بڑے یعنی سیاسی قیادت (پارلیمنٹ میں موجود ہر پارٹی کی قیادت) عدلیہ کی قیادت (سپریم کورٹ کے سینئر موسٹ دو جج اور ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان) اور عسکری قیادت (سروس چیفز اور نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ارکان) اکٹھی بیٹھے۔ مگر انھیں اکٹھا کون کرے؟ اس سلسلے میں نظریں ملک کے تین بار وزیراعظم رہنے والے سب سے سینئر سیاستدان میاں نوازشریف کی جانب اٹھتی ہیں کہ عسکری قیادت بھی ان کا احترام کرتی ہے اور چھوٹے صوبوں کی قیادت بھی ان پر اعتماد کرسکتی ہے۔
ان کے دامن میں طویل جدوجہد، قربانیوں، جلاوطنیوں، جھوٹے کیسوں میں گرفتاریوں، ہتھکڑیوں اور قیدوبند کے قیمتی اثاثے ہیں، کیا وہ چاہیں گے کہ ان کے گرانقدر اثاثے برباد ہوجائیں اور پینتیس سال قبل پھینکی گئی بیساکھیاں وہ پھر اٹھالیں، کیا وہ چاہیں گے کہ ’’ووٹ کو عزّت دو‘‘ کے اپنے نظرّئیے کا اپنے ہی ہاتھوں گلہ گھونٹ دیں اور کوئی ایسا ناقابلِ رشک کردار اپنالیں کہ انھیں زندگی کے آخری سالوں میں کسی کی بی ٹیم یا آلۂ کار کے طور پر یاد کیا جائے۔ نہیں وہ ایسا ہرگز نہیں چاہیں گے نہ ہی انھیں کوئی ایسا کردار اپنانا چاہیے۔ انھیں اس ملک نے وہ عزّت اور عہدے دیے ہیں جو کسی اور کے حصے میں نہیں آسکے اس لیے ان سے توقّع کی جانی چاہیے کہ پارٹی کے وقتی مفاد سے بلند ہو کر وہ ایک statesman کی طرح سوچیں اور ملک کی خاطر تاریخی کردار ادا کردیں۔ دو کام ملک میں سیاسی استحکام لانے کا موجب بن سکتے ہیں۔ مسلم لیگ ن ملک کی خاطر حکومت سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہوجائے اور پی ٹی آئی عمران کی قیادت پر اصرار نہ کرے اور شاہ محمود قریشی کی قیادت میں مخلوط حکومت بنالے ۔چار سال بعد نیا الیکشن کمیشن منصفانہ الیکشن کرادے۔
میاں صاحب! آپ خود آگے بڑھیں اور فوری طور پر گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ (ریاست کے تمام بڑوں کی قومی کانفرنس) کا اہتمام کریں، جہاں دو تین دن تک کھل کر تبادلۂ خیال ہو۔ چاہے نئے سرے سے رولز آف گیم طے ہوںمگر جب طے ہوجائیں تو بابائے قوم کی قبر پر جاکر قوم کے سامنے اُن کی روح کے مطابق ان پر عمل کرنے کا عہد کریں۔ ہمیں بنگلہ دیش سے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ جبر اور دھونس کا شدید ردِّعمل بھی آسکتا ہے۔ پاکستان نے ان بڑوں کو بہت کچھ دیا ہے کیا یہ بڑے ملک کی خاطر اپنی انا اور ضد کی قربانی دینگے؟