پاکستان نے ہزاروں قربانیاں دے کر دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی ہے جس کے نتیجے میں ملک میں امن و استحکام کی راہ ہموار ہوئی مگر بدقسمتی سے گزشتہ دنوں بلوچستان میں ایک ہی روز دہشت گردی کے متعدد افسوسناک واقعات ہوئے جن پر ہر پاکستانی گہرے دکھ میں ہے ۔
ان واقعات پر حکومت اور ریاستی ادارے فوری حرکت میں آئے اور حالات پر قابو پالیا۔ حالیہ افسوسناک واقعات کے پیش نظر ’ ’ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر اور اس کا حل‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی و دفاعی ماہرین کو مدعوکیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹرمحبوب حسین
(چیئرمین شعبہ تاریخ، جامعہ پنجاب)
کافی عرصے بعد ایک ہی دن میں ہمارا اتنا بڑا نقصان ہوا جو افسوسناک ہے۔میرے نزدیک مسائل کی وجہ پالیسیوں میں عدم تسلسل ہے۔نئی حکومت آنے سے پرانی حکومت کی پالیسیاں ختم کر دی جاتی ہیں یا پھر ہر آنے والی حکومت اپنی پالیسیاں لاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم لانگ ٹرم پالیسیوں کی طرف نہیں بڑھ سکے۔ 2016ء میں ایک پالیسی لائی گئی جس کے تحت ریاست نے باغیوں کیلئے عام معافی کا اعلان کیا۔ ہم اس پالیسی کا نقصان آج تک بھگت رہے ہیں۔
اس سے دہشت گردوں کو نئی زندگی ملی اور انہوں نے خود کو پھر سے منظم کر لیا۔ ایسا لگتا ہے کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے دہشت گردآپس میں مل گئے ہیں، تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ان کا گڑھ جوڑ ہے جس کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔ اب بھی بلوچستان میں جو حملے ہوئے، ان میں بھی تحریک طالبان پاکستان نے ذمہ داری قبول کی۔ ہمارے اپنے لوگ، اپنے ہی ملک میں مارے جا رہے ہیں۔ باغیوں کے پاس جدید اسلحہ ہے۔
یہ وہی اسلحہ ہے جو امریکا، افغانستان میں چھوڑ گیا۔ اب افغانستان کی زمین اور وہاں موجود اسلحہ ہمارے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ ہمارے باغی وہاں جا کر پناہ لے لیتے ہیں ، یہ دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ ہمیں انسداد دہشت گردی کے ساتھ ساتھ اس کے تدارک کیلئے بھی کام کرنا ہے۔ آپریشن وقتی حل ہوتا ہے، دیر پا امن کیلئے تدارک ضروری ہے۔ اس کیلئے سب سے اہم سیاسی استحکام ہے۔ ہمیں ملک میں سیاسی خلفشار کا خاتمہ کرکے استحکام کی طرف بڑھنا ہوگا۔ 2012ء میں جامعہ پنجاب نے ایک نئی پالیسی بنائی جس کے تحت ہر شعبے میں بلوچ طلبہ کے لیے ایک نشست مختص کی۔ ان طلبہ کو ہاسٹل کی سہولت کے ساتھ ساتھ جیب خرچ بھی دیا جاتا ہے۔
بلوچ طلبہ نے امتحانات میں ٹاپ بھی کیا۔ ان میں سے بعض طلبہ ریاستی امور میں شامل ہوئے، کچھ نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا ۔ جامعہ پنجاب میں تعلیم حاصل کرنے والے بلوچ طلبہ ریاست کے سفیر بنے۔ ہماری کیس سٹڈی ہے کہ ان کی سوچ اور رویوں میں تبدیلی آئی، یہ نہ صرف پنجاب بلکہ پاکستان کے حوالے سے ہے ، وہ واپس جاکر اپنے لوگوں کو بھی سمجھاتے ہیں۔موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا لازم ہے کہ معاشرتی تبدیلی کی ضرورت ہے، ہمیں لوگوں کے نظریاتی رجحانات بدلنا ہونگے۔ ہمیں پاکستانیت پر مبنی بیانیہ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ دشمن کے بیانیے کو شکست دی جا سکے۔ فیصلہ سازی کیلئے بہترین فورم پارلیمنٹ ہے،ا س میں ہر چیز پر بحث ہونی چاہیے اور یہاں ہی فیصلے ہونے چاہئیں۔
اگر پارلیمنٹ سے باہر پالیسیاں بنیں گی تو سوال اٹھیں گے۔ سینیٹ میں ملک بھر کی نمائندگی ہوتی ہے ۔ سینیٹرز براہ راست عوام سے الیکشن کے ذریعے منتخب ہونے چاہئیں اس سے بہتری آئے گی۔سب سے اہم یہ ہے کہ بلوچستان کی قیادت صحیح معنوں میں عوامی ہونی چاہیے، جس کی جڑیں عوام میں ہوں، ایسی قیادت ہی لوگوں کی سوچ بدل کر مسائل حل کر سکتی ہے۔ دہشت گردی کی جنگ سے نمٹنے کیلئے ہمیں جامع حکمت عملی بنانی ہے، سول ملٹری ایجنسیوں کی کووارڈینیشن کو مزید بہتر کرنا ہوگا۔
بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی
(دفاعی تجزیہ کار)
جغرافیائی پوزیشن، قومی مقاصد، مفادات اور سٹرٹیجک معاملات کو ملکی فوائد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ممالک کمزور اس وقت ہوتے ہیں جب سٹرٹیجی میں دفاعی پوزیشن پر ہوں۔ جغرافیائی لحاظ سے پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی سرحدیں مختلف ممالک،چین، افغانستان، بھارت، ایران، وسطی ایشاء و دیگر سے ملتی ہیں۔ ہماری یہ پوزیشن بڑے فوائد دے سکتی ہے لہٰذا اس وقت سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس سے فائدہ اٹھایا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا دنیا نے ہمیں فائدہ اٹھانے دیا؟تاریخ کا جائزہ لیں تو جواب یہ ہے کہ ہاں! ہم نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔
یہ الگ بات ہے کہ ہم نے دنیا کو فائدہ دیا مگر خود فائدہ نہیں اٹھاسکے، الٹا نقصان ہوا۔ہم نے امریکا کو چین سے رابطے کا راستہ دیا۔ ہنری کسنجر کو پی آئی اے کی فلائٹ کے ذریعے چین پہنچایا گیا۔ یہ خفیہ دورہ تھاجس کے بارے میں پاکستان میں موجود امریکی سفارتخانے کو بھی معلوم نہیں تھا۔ ان کے علم میں یہی تھا کہ وہ سیاحت کیلئے پاکستان میں موجود ہیں۔ اسی طرح جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس وقت ہنری کسنجر کے الفاظ تھے کہ شیر اپنے جال میں پھنس گیا ہے، ہم اسے شکست دے سکتے ہیں۔ اس کیلئے پاکستان کو استعمال کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنے قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سب کیا؟ ہمیں صرف چونتیس ایف 16طیارے دیے گئے۔
اس وقت امریکا پیسے دے رہا تھا، جنرل ضیاء الحق نے کہا کہ ہم پیسے لے کر سودہ نہیں کریں گے۔ وہ موقع تھا جس میں ہم ملک کیلئے بہت کچھ لے سکتے تھے مگر ہم نے موقع ضائع کیا۔ اس جنگ میں جانے کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ یہ سوال کہ دنیا نے ہمیں اس کا فائدہ کیوں نہیں اٹھانے دیا تو اس کے مختلف پہلو ہیں۔ ہم واحد مسلمان تھے جو تقسیم کے ذریعے آزاد ہوئے اور ایک الگ ملک بنایا۔ بھارت یہ کہتا تھا کہ پاکستان واپس اس میں شامل ہو جائے گا۔ بھارتی ماہرین دنیا میں پراپیگنڈہ کرتے تھے اور یہ مثال دیتے تھے کہ بھارت میں باہر سے جتنے بھی مسلمان حکمران آئے، وہ ریاستیں بنانے کے بعد بھارت میں ہی شامل ہوئے اور اسی کے رنگ میں رنگے گئے، پاکستان کا مستقبل بھی ایسا ہی ہوگا۔
دنیا، بھارت کے بیانیے کی وجہ سے ہمارے ساتھ معاہدوں اور منصوبوں میں ہچکچاتی تھی۔ دوسرا یہ ہوا کہ پاکستا ن ایٹمی طاقت بن گیا۔ ہمارے نیوکلیئر ہتھیاروں کے خلاف پراپیگنڈہ ہوا کہ دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جائیں گے۔ اس طرح پاکستان کیلئے مزید مسائل کھڑے کرنے کی کوشش کی گئی۔ تیسری چیز یہ کہ ہم معاشی اصلاحات اور ترقی کی طرف نہیں گئے۔ جنرل (ر) ایوب خان کے دور میں بڑی ڈویلپمنٹ ہوئی اس کے بعد نہیں ہوئی۔ اس وقت پاکستان ایشئین ٹائیگر بنا مگر بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں نیشنلائز یشن سے سب کچھ ختم ہوگیا اور ڈویلپمنٹ کا ایجنڈہ پلٹ گیا۔ پاکستان کے حالات یہ تھے کہ ملا ئیشیا نے ہمارا معاشی ماڈل اپنایا ، آئی ایم ایف سے بچا اور ترقی کی۔
افسوس ہے کہ ہم مسائل کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ یہاں فرقہ واریت کی چنگاری لگی اور بہت نقصان ہوا۔ لشکر جھنگوی اور سپاہ محمد کی لڑائی میں نقصان ہوا، شیعہ سنی فسادات ہوئے۔ امریکا خود تو افغانستان سے چلا گیا مگر ہمارے لیے مسائل چھوڑ گیا۔ یہاں مختلف ممالک کی ایجنسیاں، ان کے لوگ اپنی مرضی چلانے کی کوشش کرنے لگے۔ دہشت گردی سے ہماری ہزاروں قیمتی جانیں گئیں۔ پھر سوات آپریشن، آپریشن ضرب عضب جیسے بڑے آپریشنز کے ذریعے ملک میں امن لانے کی کوشش کی گئی۔ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ امریکا اور بھارت کو پر امن پاکستان پسند نہیں۔ بھارت نے ’ٹو اینڈ آ ہالف‘فرنٹ وار کے ذریعے پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش کی ہے۔ اس جنگ کے ذریعے پاکستان کو پراکسی، دہشت گردی اور معیشت سمیت مختلف محاذوں پر انگیج کرکے معاشی اور دفاعی طور پر کمزور کرنے کی سازش جاری ہے۔
اس کے پیچھے سٹرٹیجی یہ ہے کہ پاک فوج کو جگہ جگہ انگیج کیا جائے، جس سے اس کے اسلحہ اور وسائل میں کمی ہوگی اور پھر بھارت بیرونی محاذ پر انگیج کرے گا۔بی ایل اے اور بی آر اے کیوں بنی؟ کس نے بنائی؟ کون انہیں سپورٹ کر رہا ہے؟ ’بی ایس او‘ طلبہ کی تنظیم تھی۔ روس کی ’کے جی بی‘ نے انہیں تربیت دی، پھر بی ایل اے اور بی آر اے بنی۔ جاوید مینگل، اللہ نذر بلوچ آئے ، جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ اسلم بلوچ عرف اچھو، بالاچ مری اور بشیر زیب افغانستان میں مارے گئے۔ اچھو تو افغان آرمی چیف کے گھر میں مقیم تھا۔ ان لوگوں کا علاج دہلی کے ہسپتال میں ہوتا رہا۔ راجستھان، گجرات میں 39 تربیتی کیمپ تھے جہاں بلوچوں کو تربیت دی جاتی تھی۔ 5 ٹریننگ کیمپ کابل و دیگر علاقوں میں تھے۔
را، موساد اور سی آئے اے اس سب میں شامل تھے۔ طالبان نے جب ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا تو اس میں اسرائیلی مارے گئے تھے۔ افغان طالبان کے اسلحہ دینے کے حوالے سے امریکی کانگریس کی رپورٹ بھی موجود ہے۔ ان سارے معاملات سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہوئی ہے اور ہو رہی ہے،ا س میں امریکا، اسرائیل، بھارت و دیگرشامل ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کرنا کیا ہے؟ دہشت گردی کا معاملہ پیچیدہ ہے لہٰذا سیاسی قیادت کو اسے سمجھنا اور سنجیدگی سے لینا ہوگامگر بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادت کے پاس ویژن نہیں۔وزیر داخلہ بلوچستان آپریشن کو ایک ’ایس ایچ او‘ کی مار قرار دیتے ہیں جو سمجھ سے باہر ہے۔ میں بلوچستان آپریشن کا حصہ رہا ہوں،یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔
بلوچستان میں جدید آلات، ٹیکنیکل سسٹمز کی مدد سے مانیٹرنگ و دیگر معاملات بہتر کرنا ہوں گے۔ دنیا میں مواصلات کا جدید نظام موجود ہے جس کے ذریعے ہائی ویز کی مانیٹرنگ ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے نظام میں جدت لانی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں تعلیم، ترقی و دیگر حوالے سے بھی کام کرنا ہے تاکہ ان کی محرومیوں کو ختم کیا جاسکے۔ حالت تو یہ ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں بلوچستان کیلئے مختص کیا گیا تعلیم کا آدھا بجٹ بغیر استعمال ہوئے واپس آجاتا تھا۔
بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی میں ہماری 40 قیمتی جانیں گئی ہیں جو معمولی نہیں۔ یہ پاکستان پر حملہ ہے لہٰذا فوری آپریشن کرنا ہوگا۔ اس میں انٹیلی جنس کا مسئلہ بھی ہے، سول و دیگر انٹیلی جنس ادارے بھی ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ مسئلہ کہاں ہوا۔ایک ہی روز میں مختلف اور بڑی کارروائیاں ہوئیں۔ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے نیکٹا بنائی گئی، سوال یہ ہے کہ نیکٹا کہاں ہے؟ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے تاحال سٹرٹیجی کیوں نہیں بنائی جا سکی؟ اس وقت ضروری ہے کہ سول ملٹری کمیٹی بنائی جائے، سمگلنگ اور دہشت گردی کا گٹھ جوڑ توڑا جائے ، بلوچوں کو انگیج کیا جائے اور اسمبلیوں میں بلوچستان کی نمائندگی بڑھائی جائے ۔ گوادر میں بلوچوں کو ملازمت کے مواقع دیے جائیں۔ بلوچستان میں ترقیاتی کام کیے جائیں اور لوگوں کی محرومیاں ختم کی جائیں۔
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
(سیاسی تجزیہ کار)
منیر نیازی مرحوم کا یہ شعرپاکستان کے حالات کی بھرپور عکاسی کرتا ہے:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان پر امن رہے، ترقی کرے، آگے بڑھے اور دنیا کی بڑی طاقتوں میں شمار ہو لیکن ہماری جغرافیائی پوزیشن بڑے چیلنجز کھڑے کر دیتی ہے اور ہمیں آئے روز مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ پاکستان جہاں واقع ہے یہاں دنیا کے ٹریڈ زونز آپس میں ملتے ہیں، برا عظموں کا ملاپ ہے، یہاں گریٹ گیم کی تاریخ بھی موجود ہے۔ یہ سارے معاملات اور بڑی طاقتوں کے معاشی مفادات ہمیں کمزور بناتے ہیں لہٰذا ہمیں اپنی بقاء، استحکام اور ترقی کیلئے دیگر ممالک کی نسبت 300 گنا محنت کرنی ہے۔ ہمارے پاس آنکھ جھپکنے کا وقت نہیں، ہر وقت چوکنا رہنا ہے کیونکہ کوئی نہ کوئی چیلنج ہمارے لیے تیار کھڑا ہوتا ہے۔ بلوچستان میں شروع سے ہی کشمکش رہی ہے۔ یہاں قوم پرست قوتیں رہتی ہیں۔ ماضی میں باغیوں کا افغانستان چلے جانا،بغاوت کرکے پہاڑوں پر چڑھ جانا جیسی مثالیں موجود ہیں۔ نواب نوروز خان کا واقعہ تاریخ کا حصہ ہے۔
ان لوگوں نے بغاوت کی، قرآن پاک کی ضمانت دے کر باغیوں کو پہاڑوں سے نیچے اتارا گیا، پھر ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، انہیں پھانسیاں دی گئیں، یہ سب بلوچستان کی تاریخ کا حصہ ہے۔ اس کی اگلی قسط نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت ہے۔ انہوں نے تو بطور گورنر بلوچستان میں آپریشن و دیگر کارروائیوں میں تعاون کیا تھا مگر ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ بلوچوں کے ذہنوں میں ہے۔ یہ دونوں بڑے واقعات بلوچ قوم پرستوں کے منفی جذبات ابھارتے ہیں۔26 اگست کو نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت ہوئی لہٰذا اگست میں بلوچستان میں لازمی کوئی نہ کوئی کارروائی ہوتی ہے ۔
اب بھی اگست میں بلوچستان میں دہشت گردی کی بڑی اور افسوسناک کارروائیاں ہوئی ہیں۔ بلوچستان کا رقبہ زیادہ ہے اور آبادی فاصلوں پر ہے ۔صوبے میں جتنی کھلی جگہ ہے وہاں دہشت گردوں کیلئے جگہ بنانا آسان ہے لہٰذا جب تک پورا صوبہ ’پرو پاکستان‘ نہیں ہوگا، تب تک وہاں کے مسائل پر قابو پانا مشکل ہے۔ بلوچستان میں پنجابیوں کو قتل کر دیا گیا۔ پاکستان میں پنجابیوں کو مارنے کا سلسلہ نیا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو پاکستان کی بات کرے اسے دشمن کہا جائے اور اگر کارروائی کی جائے تو پھر محرومیوں کا بیانیہ بنایا جائے کہ پنجابیوں کی وجہ سے ہمارے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ پنجابیوں کو مارنا واضح کرتا ہے کہ پاکستان کی حدود میں پاکستانیت کی بات کرنے والوں کو مارا جا رہا ہے۔ مغربی پاکستان میں بھی پنجاب مخالف بیانیہ تھا اور کہا جا رہا تھا کہ پنجابی ہمیں مار رہے ہیں اور بلوچ بچا رہے ہیں۔
حالانکہ اس وقت صرف ایک بلوچ کیپٹن تھا جسے زبحہ کر دیا گیا تھا اور پنجابی ہی بچا رہے تھے۔حالیہ دہشت گردی کے واقعات سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت ہوئے ہیں، ہمیں اس معاملے کی نزاکت کو سمجھنا اور اس کے ہر پہلو کو دیکھنا ہے۔ مسنگ پرسنز کا معاملہ اٹھایا جاتا ہے، سوال یہ ہے کہ اگر مسنگ پرسنز ریاست کے پاس ہیں تو پھر مارنے والے کہاںسے آرہے ہیں؟ یہ مسنگ پرسنز ہی ہیں جو دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ یہ بڑی گنجلک سازش ہے، دوست، دشمن، اس میں ملوث لگتے ہیں، ہمیں سمجھداری کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ اس مسئلے کے حل کیلئے ہمیں آؤٹ آف دا باکس سوچنا ہوگا۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا 44 فیصد ہے مگر اس کا حصہ 6 فیصد ہے۔
ہمیں مسائل کے حل اور محرومیوں کے خاتمے کیلئے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بلوچستان کی نشستیں بڑھانا ہوں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ملازمتوں کا کوٹہ اور بجٹ بھی بڑھنا ہوگا۔ وہاں ترقیاتی منصوبے لانا ہوں گے۔ بلوچوں کو مقامی سطح پر انگیج کرنا ہوگا ، ان کی محرومیاں دور کرنا ہونگی اور پاکستانیت کا بیانیہ بنانا ہوگا۔ بلوچستان کا معاملہ نازک ہے۔ وہاں کی نوجوان نسل بھی مخالف جذبات رکھتی ہے لہٰذا سمجھداری سے معاملات کو ڈیل کرنا ہوگا۔ ہمارے باغی ایران اور متحدہ عرب امارات میں چلے جاتے ہیں، ان سے کون تعاون کر رہا ہے؟ افغانستان کی سرزمین استعمال ہونے کے شواہد بھی ہیں۔ یہ واضح ہونا چاہیے کہ خود کو مضبوط بنائے بغیر کسی سے تعاون کی امید رکھنا درست نہیں۔ سوچنا یہ ہے کہ ہمیں اپنے مسائل کو کس طرح سے حل کرنا ہے۔ ہمیں بردباری سے فیصلے کرنا ہوں گے۔