ویت نام میں خوفناک جنگ‘ تقریباً بیس برس تک جاری رہی ہے۔ 1955سے لے کر 1975 تک یہ ملک بربادی کا زندہ جاگتا نشان بن چکا تھا۔ دلدل‘مہیب جنگلات ‘ صنعت کی عدم موجودگی اور موت ہر طرف رقص کر رہی تھی۔ ترقی کرنا تو دور کی بات‘ لوگ ایک بے مقصد سی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ ان کی خواتین میں سے اکثریت ‘ دنیا کے قدیم ترین پیشہ سے منسلک ہوچکی تھیں۔
لوگ ملازمتیں تلاش کرنے کے لیے پوری دنیا میں ٹھوکریں کھانے کے لیے تیار تھے۔ کیونکہ ان کے ملک میں ترقی تو دور کی بات‘ کسی قسم کے کوئی بھی باعزت معاش کا وجود تک نہیں تھا۔ امریکا نے بنیادی طور پر اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اور اسے ایک قبرستان میں تبدیل کر ڈالا تھا۔ ایسا ملک جس کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی گئی تھی۔ کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ ویت نام اپنے پیروں پر کبھی کھڑا ہو سکے گا۔ چلنا تو دور کی بات‘ اپنے ضعف سے باہر نکل پائے گا۔ مگر آج 2024 میں ذرا اندازہ لگائیے کہ وہ مرد بیمار‘ کس شاندار ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔ اس ملک کے فارن کرنسی ذخائر ‘ آٹھ سو اسی (880) بلین یو ایس ڈالر ہیں۔ اس کی برآمدات تین سو پچاس بلین ڈالر تک بڑھ چکی ہے۔
دنیا کی کسی ملٹی نیشنل کمپنی کا نام لیں۔ اس کا وسیع کارخانہ ویت نام میں موجود ہے اور پھل پھول رہا ہے۔ یونی لیورسے لے کر آئی بی ایم‘ مائیکرو سوفٹ سے لے کر ایبٹ اور اس طرح کی سیکڑوں بین الاقوامی کمپنیاں ویت نام کو اپنا گھر بنا چکی ہیں۔ ملک کی بے مثال ترقی کا یہ معجزہ ‘ صرف چند دہائیوں کے اندر برپا ہوا۔ آج ویت نام ترقی پذیر ممالک کی فہرست سے نکلنے کے لیے بے تاب ہے۔ تھوڑے ہی عرصے میں وہ ایک حد درجہ ترقی یافتہ ملک کہلانے لگ جائے گا۔ دس دن پہلے‘ ویت نام کی حکومت نے پندرہ سو چالیس کلومیٹر لمبی ریلوے لائن کا اعلان کیا ہے ۔
اس کی لاگت 67 بلین ڈالر ہے اور یہ پندرہ سال میں مکمل ہو گی۔ ہنوئی سے شروع ہو کر یہ ہوچی مونہہ شہر تک جائے گی۔ مقصد ‘اس منصوبہ کی بابت بالکل عرض کرنا نہیں ہے۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ 67بلین ڈالر کی رقم کے لیے کسی بھی بیرون ملک یا مالیاتی ادارے سے ایک ڈالر قرض نہیں لیا جائے گا۔ تمام رقم‘ ویت نام اپنے قومی وسائل کو بروئے کار لا کر خود مہیا کرے گا۔ یہ زندہ اور کامیاب قوم کی سب سے بڑی نشانی ہے۔ایک خود دار وطن کا آبرو مندانہ فیصلہ ہے۔
اچھا نہیں لگتا کہ میں پاکستان کے حوالے سے کوئی منفی بات کروں۔ مگر پچاس برس پہلے‘ ہمارے ملک اور کسی بھی ایشیائی ملک کا ترقی کے حوالے سے کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ پاکستان حد درجہ برق رفتاری سے صنعتی انقلاب کی جانب گامزن تھا۔ساٹھ کی دہائی تک ‘ ملک میں غیر ملکی ماہرین‘ ہماری ترقی کے اسباب جاننے کے لیے وفود کی صورت میں آتے تھے۔ اور پاکستان کو دیکھ کر حیرت سے دانتوں میں انگلیاں دبا لیتے تھے۔ مگر اس کے بعد ہماری تنزلی کا سفر ایسا شروع ہوا۔ جس نے ہمارے خوبصورت ملک کو خاک اور خون کی دلدل میں دفن کر دیا۔ قیامت یہ ہے کہ ذلت کا یہ قافلہ جاری و ساری ہے اور رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ پاکستان کا بیرونی قرضہ ایک سو تیس بلین ڈالر ہے۔
قرض لینے کی یہ رسم 1988 سے ایک انتقامی رویے جیسی برپا ہے۔ آپ کسی بھی اقتصادی ماہر سے دریافت کر لیں۔ ذرا پوچھیے کہ یہ 130 ارب ڈالر کہاں خرچ ہوئے ہیں۔ چلیے۔ اس سوال کو کم تیکھا کر لیتے ہیں۔ اس خطیر رقم سے ملک میں کون کون سے ترقیاتی منصوبے شروع ہوئے ہیں؟ لوگوں میں ذریعہ معاش کی کتنی جہتیں کھلی ہیں؟بالاخر یہ پیسہ کہاں گیاہے؟ جواب سادہ سا ہے۔ کچھ نمائشی منصوبہ جات شروع کیے گئے۔ جن سے لوگوں کو بے وقوف بنایا جا سکے۔اور باقی رقم بڑی آسانی سے ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل ہوتی چلی گئی۔ ٹھہریے۔ اس میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے رشوت خور لوگوں کے مابین دمڑی تک کا فرق نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) ‘ پیپلز پارٹی ‘ تحریک انصاف‘ مذہبی جماعتیں‘ سب اس دعوت شیراز سے لطف اٹھاتی رہی ہیں۔ اور اب حال یہ ہے کہ سات بلین ڈالر کی رقم بطورقرض ملنے پر ہماری حکومت‘ خوشی سے پھولے نہیں سما رہی۔ داد وصول کر رہی ہے۔
انصاف کی نظر سے دیکھیں تو ملک میں سب سے طویل حکومت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی رہی ہے۔ قرض لینے میں ان کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ اگر آپ ان کے سربراہان سے صرف پوچھ لیں کہ جناب‘ آپ کی حکمرانی کے دوران جو بیرونی قرض لیا گیا تھا۔ اس کے تناسب سے ملکی ترقی بھی دکھا دیجیے۔ یقین فرمائیے وہ آپ کو ملک دشمن اور غدار بنا کر پیش کر دینگے۔ مگر آپ کے سادہ سے سوال کا کوئی جواب دینا پسند نہیں فرمائے گا۔
بلکہ آپ کے لتے لینے شروع کر دینگے۔ یہاں میں ایک بات ضرور کہوں گا۔ سندھ‘ پنجاب اور کے پی میں ایک ہی سیاسی جماعت مسلسل حکومت کر رہی ہے۔ کیا پی ٹی آئی‘ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے قائدین فرمائیں گے اگر ان کے دور میں جو ابھی تک جاری و ساری ہے۔ عام لوگوں کی عملی طور پر زندگی کس قدر بہتر ہوئی ہے۔ لیپا پوتی کی بات نہیں کر رہا۔ ٹھوس اقدامات کی بابت عرض کر رہا ہوں۔ آپ ان کے جواب کو جب دلیل اور حقیقت کی کسوٹی پر پرکھیں گے تو مایوسی کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔
آج اب سی پیک کی طرف نظر دوڑایئے ۔ دس بارہ برس پہلے‘ مسلم لیگ ن کے سربراہ اور ان کے برادر خورد نے ٹی وی پر فرمایا تھا کہ سی پیک ایک ایسا منصوبہ ہے جس سے پاکستان ترقی کے سنہرے دور میں زقند لگا کر شامل ہو جائے گا۔ مسلم لیگ کی اول نمبر کی قیادت‘ سارادن‘ سی پیک کی شان میں قصیدے پڑھتی تھی۔ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ نے تو اسے ملک کے لیے امرت دھارا قرار دے دیا تھا۔ مگر دہائی سے زیادہ عرصہ گزر چکاہے ۔ کسی کو معلوم ہی نہیں کہ سی پیک ہے کیا‘ اور اس کے بننے سے ملک کو اقتصادی طور پر کتنا فائدہ ہو گا ۔
سی پیک کو ایک سرکاری راز بنا دیا گیا ہے۔ اب میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ سی پیک چین سے کسی مدد کا نام نہیں۔ بلکہ وہاں کے بینکوں اور تجارتی کمپنیوں سے قرض لینے کادوسرا نام ہے۔ اس منصوبہ کے لیے پاکستان نے امریکا اور دیگر اہم اتحادی ممالک کو ناراض کر لیا۔ مگر اس منصوبہ کی جزئیات پر عوام کو اعتماد میں قطعاً نہیں لیا۔ ہاں یہ الزام ضرور لگا‘ کہ چینی کمپنیوں سے دبئی اور دیگر غیر ممالک میں بھاری رشوت اور کمیشن وصول کی گئی۔ اس حرکت کی باز گشت پورے میڈیا میں سنائی دیتی رہی مگر پھر پراسرار سی خاموشی چھا گئی۔ اب سی پیک کا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ بالکل اسی طرح گوادر بندرگاہ پر اتنا ادھم مچایا گیا‘ کہ خدا کی پناہ۔ ہماری پروپیگنڈا مشین نے کہنا شروع کر دیا کہ بس گوادر بندرگاہ شروع ہوئی تو دبئی اور ایران کی بہترین بندر گاہیں برائے نام ہی رہ جائیں گی۔
بلوچستان کی قسمت بدل جائے گی۔ مگر آج بھی وہاں معاملات جوں کے توںہیں۔ گوادر بندرگاہ پر سرکاری سامان آنے کے علاوہ دیگر ترسیلات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ صوبے اور ملک کا کیا ذکر کرنا‘ گوادر کی مقامی آبادی تک کو بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ کیا پینے کے پانی کی فراہمی واقعی جان جوکھوں کا کام ہے؟ اگر مقامی بلوچ آبادی اس ناانصافی پر شور شرابا کرتی ہے ۔ تو اسے وطن دشمن ایجنڈے کی طرف رخ دینے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے قائدین ‘ ہمارے اصل دشمن ہیں۔ جب تک یہ قبیل ہمارے وسائل پر قابض رہے گی۔ ہم مزید ڈوبتے چلے جائیں گے۔کوئی بھی سنجیدہ سوال کرتا ہے تو اسے خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ خیر اب تو مالیاتی جرائم کی ویسے ہی کھلی آزادی دے دی گئی ہے۔
حل کیا ہے۔ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ کسی سیاسی جماعت کے پاس اس کا کوئی ٹھوس جواب نہیں ہے۔ خیر اب تو ابتری کی انتہا یہاں تک ہو چکی ہے کہ آئینی ادارے بھی حددرجہ متنازعہ بن چکے ہیں۔ چند اہم افراد‘ ایک سیاسی جماعت کو امرت دھارا مانتے ہیں اور دوسری مقبول ترین سیاسی جماعت کو ا چھوت گردانتے ہیں۔ ترقی کیا خاک ہو گی۔ جب ہر طرف‘ جھوٹ‘ بیان بازی ‘ فریب کاری اور منافقت کا راج ہو گا۔
اب پاکستان سے تمام اہم ترین مماک نے نظریں پھیر لی ہیں۔ تمام بین الاقوامی قوتیں‘ ہندوستان کے ساتھ ہمہ وقتی وابستہ ہو چکی ہیں۔ ہماری سالمیت بھی خطرے میں محسوس ہوتی ہے۔اس کے باوجود ہماری ملکی قیادت باز نہیں آ رہی۔ ان حالات میں ویت نام جس ترقی کی توقع تو دور کی بات ۔ اپنے آپ کو برما بننے سے بچانا بھی کافی مشکل نظر آتا ہے۔ حضور یہاں سچ کا کوئی گاہک نہیں‘ آپ جتنا جھوٹ بولیں گے‘ اتنے ہی کامیاب قرار دیے جائیں گے!