جس نے بھی یہ بہترین آئیڈیا دیا وہ داد کا مستحق ہے، نئے نویلے قذافی اسٹیڈیم کی باؤنڈری کے ساتھ ٹیبل لگی جس پر پریس کانفرنس کیلیے چیئرمین پی سی بی محسن نقوی براجمان ہوئے، عقب میں اسٹیڈیم کی بہترین عمارت صاف دکھائی دے رہی تھی۔
محسن نقوی کے چہرے کا اطمینان بھی یہ بتا رہا تھا کہ وہ ٹاسک پورا کر چکے ہیں،انھوں نے صحافیوں کے سوالات پر پْراعتماد انداز میں جوابات دیے، چند قدم کے فاصلے پر سلیکٹرز بھی موجود تھے، اسی دن ٹرائنگولر سیریز کیلیے پاکستانی اسکواڈ کا اعلان ہونا تھا۔
میڈیا کو گمان تھا کہ شاید غیراعلانیہ چیف سلیکٹر عاقب جاوید بھی گفتگو کریں لیکن وہ اور دیگر سلیکٹرز الگ ہی موجود رہے،اس دن کی سب سے بڑی خبر یہی تھی کہ قذافی اسٹیڈیم تیار ہو گیا اور بہترین لگنے لگا لیکن کچھ دیر بعد اسکواڈ کی پریس ریلیز جاری کر دی گئی جس پر کرکٹ کو سمجھنے والے سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ یہ کیسی ٹیم منتخب کی جس میں توازن ہی نہیں ہے۔
بعض کھلاڑیوں کے انتخاب پر سوالات اٹھنے لگے، سیاسی مداخلت کے الزام بھی لگے، یوں چیئرمین پی سی بی نے مختصر وقت میں اسٹیڈیم بنانے کا جو کارنامہ انجام دیا وہ اسکواڈ کا اعلان ہونے پر پس منظر میں چلا گیا۔
اسد شفیق کی ایک ویڈیو بھی جاری ہوئی جس میں وہ ٹیم کا بتا رہے ہیں،دنیا بھر میں جب کبھی میگا ایونٹس کیلیے کھلاڑیوں کا انتخاب ہو تو سلیکٹرز اپنے فیصلوں کی وضاحت کیلیے میڈیا کانفرنس کرتے ہیں،ہمارے سلیکٹرز ایسے چھپ رہے تھے جیسے کرکٹنگ کیریئر کے دور والے خطرناک بولرز کا سامنا کرنا ہے۔
شاید انھیں احساس تھا کہ غلطیاں کی گئی ہیں جس پر سوال ہوں گے، لوگ سوشل میڈیا پر فہیم اشرف کی بعض تصاویر کو ان کے انتخاب کی وجہ قرار دیتے رہے، خوشدل شاہ کا معاملہ بھی کسی کو سمجھ نہیں آیا، عثمان خان سے شاید کوئی ایسا معاہدہ ہوا ہے جس کے مطابق یو اے ای کو چھوڑنے پر اتنے عرصے بغیر کچھ کیے بھی وہ منتخب ہوتے رہیں گے۔
صرف ایک ریگولر اوپنر فخر زمان کا انتخاب ہوا، ان کے سوا ٹاپ آرڈر میں کوئی ایسا نظر نہیں آ رہا جو چھکے لگا سکے، بابر اعظم کا اعتماد ان دنوں ویسے ہی کم ہے انھیں زبردستی اوپنر بنا دیا گیا، ٹیسٹ کرکٹر سعود شکیل کیلیے بھی گرین شرٹس سلوا لی گئی، اسپنر کے نام پرصرف ایک کھلاڑی ابرار احمد کو لیا گیا۔
البتہ پیس اٹیک بہتر نظر آتا ہے لیکن پاکستان اور یو اے ای کی پچز پر پیسرز کو کون سی مدد ملتی ہے کہ وہ تن تنہا میچ جتوا سکیں؟ جس وقت اسٹیڈیم کی تعمیر میں تاخیر ہو رہی تھی تو میں جب کبھی چیئرمین کے قریبی ساتھیوں سے پوچھتا تو وہ یہی کہتے ’’ محسن کر لے گا‘‘ اور بعد میں ایسا ہی ہوا، کچھ ایسا ہی اعتماد محمد رضوان کو بابر اعظم پر بھی ہے۔
ان سے جب پریس کانفرنس میں سوال ہوا کہ اوپننگ کون کرے گا تو انھوں نے جواب دیا ’’ کنگ (بابر) کر لے گا، کم از کم نیوزی لینڈ کیخلاف پہلے میچ میں تو ایسا نہ ہو سکا، بابر کی صلاحیتوں پر کسی کو شک نہیں لیکن ان دنوں ان سے اسکور نہیں ہو رہا، ایسے میں پوزیشن تبدیل کر کے چیلنجز میں مزید اضافہ کر دیا گیا۔
ان کا انداز ویسے ہی دیکھ بھال کر کھیلنے کا ہے، ایسے میں پاور پلے بھی ضائع ہو جاتا ہے، پہلے میچ میں وہ 10 اوورز تک کریز پر رہے اور 10 ہی رنز بنائے، وہ تو بھلا ہو فخر کا جنھوں نے روایتی جارحانہ انداز اپنایا ورنہ مزید بدترین شکست ہوتی۔
کیویز نے 2 سلو بولرز کھلائے جو کامیاب بھی رہے ہم نے ایک ریگولر اسپنر کو کھلایا، نام نہاد آل راؤنڈر خوشدل شاہ بولنگ اور بیٹنگ دونوں میں ناکام رہے، اب اگلے میچ میں فہیم اشرف کو بھی آزمانا چاہیے تاکہ ان کی ’’صلاحیتیں‘‘ بھی دنیا کے سامنے آ جائیں۔
محسن نقوی نے سلیکٹرز کو اختیار دیا ہے کہ وہ چاہیں تو اسکواڈ میں تبدیلی کر لیں، اب آئی سی سی کی جانب سے بغیر وجہ بتائے تبدیلی کرنے کیلیے صرف ایک دن باقی ہے، البتہ عاقب نے اسکواڈ کا اعلان ہونے کے چند دن بعد جب میڈیا کا سامنا کیا تھا تو واضح کر چکے کہ کوئی تبدیلی نہیں کریں گے۔
اب اس کی وجہ ان کی انا ہے یا کسی کا دباؤ یہ تو وہ خود ہی جانتے ہوں گے،اس وقت چیئرمین پی سی بی ملک کی دوسری طاقتور ترین شخصیت ہیں، اگر سلیکٹرز پر کسی کا پریشر ہے تو انھیں بتانا چاہیے وہ مسئلہ حل کر سکتے ہیں، رہی بات انا کی تو وہ تو بڑوں بڑوں کو فنا کر دیتی ہے۔
محسن نقوی سلیکٹرز کے کام میں دخل نہیں دیتے ورنہ خود ہی تبدیلی کر دیتے، اب اگر اسی اسکواڈ کے ساتھ پاکستان نے چیمپئنز ٹرافی میں حصہ لیا اور خدانخواستہ نتائج اچھے نہ رہے تو اس کی مکمل ذمہ داری سلیکٹرز پر ہی عائد ہو گی۔
میں کسی کا نام نہیں لیتا ورنہ لوگ کہیں گے کہ اپنے پسندیدہ پلیئر کو پروموٹ کر رہا ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ ریگولر اوپنر اور اسپنر کی شمولیت ضروری ہے، پیراشوٹ سے براہ راست پاکستانی کیمپ میں اترنے والے نام نہاد آل راؤنڈز کی جگہ بھی باصلاحیت پلیئرز کو میرٹ پر لینا چاہیے۔
طویل عرصے بعد ملک میں اتنا بڑا آئی سی سی ایونٹ ہو رہا ہے لوگ ٹیم سے فتح کی آس لگائے بیٹھے ہیں لیکن نیوزی لینڈ کیخلاف کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی، مہمان پلیئرز ایسے چھکے لگا رہے تھے جیسے بچوں کیخلاف کھیل رہے ہوں، بیٹنگ کے وقت ہمارے پلیئرز ڈرے سہمے نظر آئے۔
پی سی بی نے قذافی اسٹیڈیم کی عمارت، کرسیاں، لائٹس ،اسکرینز سب تبدیل کر دیں مگر ٹیم آفیشلز اور پلیئرز تو وہی پرانے ہیں اسی لیے نئے اسٹیڈیم میں سابقہ پرفارمنس ہی نظر آئی۔
عاقب جاوید اینڈ کمپنی کو اپنے باس محسن نقوی سے ہی کچھ سیکھنا چاہیے، انھوں نے کتنی اسپیڈ میں اسٹیڈیم کا کام کرایا، لوگ باتیں بناتے رہے انھوں نے کوئی اثر نہ لیا،سلیکٹرز ریورس گیئر لگانے کا الزام سہنے سے بچنے کیلیے خاموش ہیں۔
وقت گذرتا جا رہا ہے11 تاریخ گذر گئی تو پھر انجری وغیرہ کی صورت میں ہی کوئی تبدیلی ہو سکے گی، عاقب اسپیڈ نظر آئے گی یا خاموشی رہے گی یہ تو 2 دن میں پتا چل جائے گا لیکن برسوں بعد پاکستانی کرکٹ شائقین کے چہروں پر جو خوشی نظر آ رہی ہے اسے کسی کی انا کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہیے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)