’’میں کچھ کہنا چاہتا ہوں سر‘‘ میٹنگ کے دوران جب ایک کرکٹر نے یہ کہا تو پی سی بی حکام کی جانب سے انھیں فورا اجازت دے دی گئی، انھوں نے سوچا ہوگا کہ یہ بھی ہماری تعریفیں ہی کرے گا، البتہ وہ کھلاڑی کسی اور ہی موڈ میں تھا، اس نے لیگز کے این او سی میں لاحق ان مشکلات کا ذکر کیا جس کا تمام اسٹار پلیئرز کو سامنا تھا،سب بیٹھے سنتے رہے لیکن 2 چہرے بالکل اترے ہوئے محسوس ہو رہے تھے.
یہ دونوں پاکستانی کرکٹ کی اسٹیبلشمنٹ کے اہم کردار سی او او سلمان نصیر اور ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ عثمان واہلہ تھے، کئی چیئرمین آئے اور گئے، ان دونوں کو کوئی نہیں ہلا سکا،ان کا ادارے پر مضبوط کنٹرول ہے، بڑے بڑے کرکٹرز کو این او سی و دیگر مسائل میں ان کے در پر آواز لگانا پڑتی ہے، کبھی صاحب کا موڈ اچھا نہ ہو تو وہ کال ریسیو بھی نہیں کرتے، پھرلوگوں کو فخر سے بتاتے ہیں کہ ’’تمہارا بھائی اتنا بزی رہتا ہے کہ کل بابر اعظم کا فون آیا وہ بھی ریسیو نہ کر سکا‘‘.
چیئرمین محسن نقوی ملکی کرکٹ کو ٹھیک کرنے کیلیے مثبت اقدامات کر رہے ہیں، عنقریب پی سی بی میں بھی تبدیلیاں ہوتی نظر آئیں گی لیکن اس کنیکشن کیمپ میں ہی فخرزمان کو پیغام مل گیا تھا کہ آپ نے غلط لوگوں سے ٹکر مول لی ہے، کرکٹ میں ٹائمنگ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے،اگرآپ کا بیٹ پہلے سامنے آ گیا تو بولڈ بھی ہو سکتے ہیں،فخر کی بیٹنگ میں تو ٹائمنگ زبردست ہے لیکن ٹویٹ کرتے ہوئے ان سے چوک ہو گئی،انھوں نے بابر اعظم کو ٹیم سے باہر نہ کرنے کا مشورہ دیا اور کچھ دیر بعد بابر ڈراپ ہو گئے، یوں یہ تاثر سامنے آیا کہ فخر نے پی سی بی کے فیصلے کی مخالفت کر دی ہے.
اگر آپ کامن سینس استعمال کریں تو یہ بات دماغ میں نہیں سماتی کہ وہ بندہ جو پہلے ہی بورڈ کی اسٹیبلشمنٹ سے الجھ چکا ہے وہ اپنے کیریئر کو داؤ پر لگاتے ہوئے فورا ایک بڑی غلطی کرے گا، بابر سے زیادہ شاہین شاہ آفریدی کی فخر سے قربت ہے، دونوں ایک ہی فرنچائز لاہور قلندرز کی پی ایس ایل میں نمائندگی کرتے ہیں، جب شاہین کوکپتانی سے ہٹایا گیا تب تو فخر نے کوئی ٹویٹ نہ کی، اگر آپ بابر والی ٹویٹ کی انگریزی دیکھیں تو وہ فخر کی نہیں لگتی،ان سمیت بابر اعظم و دیگر اسٹار کرکٹرز کے ایک ہی ایجنٹ ہیں، شاید انھوں نے ہی ٹویٹ بنا کر دی.
فخر زمان جذباتی انسان ہیں، دوستوں کے دوست ہیں، کیا یہاں انھیں استعمال کیا گیا؟ جانتے بوجھتے ہوئے کہ اس ٹویٹ سے فخر کو بھاری نقصان ہو سکتا ہے کیوں ایسا کیا گیا؟ یہ بات سمجھ سے باہر ہے، فخر کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ جنھیں اپنا قریبی سمجھتے ہیں کہیں وہ ان کا استعمال تو نہیں کر رہے،اس کیس میں کسی اور کو فائدہ پہنچانے کیلیے کہیں انھیں نقصان تو نہیں پہنچایا گیا.
چند روز قبل ہی عاقب جاوید اوریونس خان سمیت کئی سابق کھلاڑی فخر زمان کو کپتانی کیلیے موزوں امیدوار قرار دے رہے تھے، اب انھیں کنٹریکٹ لسٹ اور اسکواڈ دونوں سے ہی باہر کر دیا گیا، اگر تانے بانے ملائے جائیں تو کوئی اور ہی کہانی بنتی ہے، کرکٹ میں فٹنس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس میں سے ایک فٹنس ایتھلیٹ والی ہوتی ہے دوسری عام میچ فٹنس ہے.
اس کی مثال یہ ہے کہ عماد وسیم برسوں سے انٹرنیشنل کرکٹ کھیل رہے ہیں لیکن وہ پی سی بی کے روایتی ٹیسٹ پاس نہیں کر پاتے تھے، فخرزمان کے گھٹنے میں مسئلہ ہے، گوکہ یہ اتنی بڑی انجری نہیں کہ وہ کرکٹ نہ کھیل سکیں لیکن وہ خود احتیاط سے کام لیتے ہیں،فٹنس ٹیسٹ کا ایک اہم جزو 8 منٹ میں 2 کلومیڑ دوڑ مکمل کرنا ہے، فخر اسے پورا نہ کر پائے، یوں انھیں ان فٹ قرار دے دیا گیا.
بالکل ایسا ہی نعمان علی اور زاہد محمود کے ساتھ بھی ہوا، دونوں ملتان میں پہلے ٹیسٹ کے دوران 2 بار دوڑ مکمل نہ کر پائے، انھیں بھی ان فٹ کہتے ہوئے گھر بھیج دیا گیا،پھر ضرورت پڑی تو بلوا لیا اور نعمان نے عمدہ بولنگ سے تاریخ رقم کردی، اس طرح فخر کے ساتھ بھی ہو سکتا تھا، وہ میچ فٹ ہیں، انھیں آسٹریلیا لے جاتے اور سینٹرل کنٹریکٹ بھی دے دیتے.
نعمان کی طرح فخر کے نام پر بھی لکھ دیتے کہ فٹنس سے مشروط لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ کیا گیا کیونکہ انھوں نے کسی کی انا کو ٹھیس پہنچا دی تھی،اسی طرح شاہین شاہ آفریدی کو کنٹریکٹ کی اے سے بی کیٹیگری میں کردیا گیا، اگر صرف کارکردگی پیمانہ ہے تو بابر اعظم نے کون سے تیر مارے کہ اب تک اے میں برقرار ہیں،اگر آپ 2023 سے اب تک تمام پاکستانی بولرز کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو شاہین ہی سب سے آگے نظر آتے ہیں لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے جان بوجھ کر انھیں تنگ کیا جا رہا ہے.
شان مسعود کی قیادت میں ٹیم نے ابھی انگلینڈ کیخلاف سیریز جیتی اور انھیں بی کیٹیگری میں رکھتے ہوئے ساتھ لکھ دیا کہ قیادت سے مشروط، اس کا مطلب ہوا کہ حکام کو خود بھی یقین نہیں ہے کہ شان کپتان برقرار رہیں گے یا نہیں، بورڈ اور رمیز راجہ میں فرق ہی کیا ہے دونوں نے ہی الگ انداز میں کپتان کا مذاق ہی اڑایا،امام الحق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں سابق ٹیم ڈائریکٹر محمد حفیظ کی رپورٹ پر باہر کیا گیا.
البتہ اب یہ پتا چلا کہ بورڈ میں سے کوئی ان سے ناراض ہے اور حفیظ کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی جا رہی ہے، شاداب خان پر آپ نے اتنی انویسمنٹ کی اور اب دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال دیا، اگر وہ اتنے اچھے نہیں کہ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی اسکواڈز میں شامل ہو سکیں تو سینٹرل کنٹریکٹ کیوں دیا؟ بہرحال عاقب جاوید نے سلیکشن میں بعض اچھے فیصلے بھی کیے جنھیں سراہنا چاہیے، زمبابوے جیسی کمزور ٹیم کیخلاف اسٹارز کو آرام دینا زبردست اقدام ہے،
اس سے نوجوانوں کو صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملے گا، محمد رضوان اور سلمان علی آغا کو بورڈ نے وائٹ بال میں کپتان و نائب مقرر کیا ہے، امید ہے کہ یہ فیصلہ ٹیم کیلیے اچھا ثابت ہو گا،سلیکٹرز سے یہی درخواست ہے کہ آپ بھی کرکٹر رہے ہیں اس لیے سوچ سمجھ کر فیصلے کریں، فخر کے جیسے ملک کیلیے کھیلنے والے کرکٹرز کم ہی ملتے ہیں، ان کا کیا قصور ہے جو ایسا سلوک کر رہے ہیں،امید ہے اس فیصلے پر نظرثانی کی جائے گی۔
(آپ مجھے ٹوئٹر saleemkhaliq@ پر فالو کر سکتے ہیں)