اسلام آباد: عدالتی پیکیج پر مجوزہ آئینی ترمیم کی منظوری میں ناکامی کے بعد وفاقی حکومت کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کے طور پر توسیع کے بارے میں اتحادیوں کی مخالفت کا سامنا ہے۔
حکومتی ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو انکشاف کیا ہے کہ وفاقی حکومت کا بھی خیال ہے کہ مجوزہ وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کے طور پر قاضی فائز عیسیٰ کی تعیناتی مناسب نہیں ہوگا۔
ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ حکومتی قانونی ٹیم کو جمعہ کے روزآئینی ترمیم کا مسودہ موصول ہوا ۔ حکومت میں ایک طبقہ نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ جسٹس سید منصور علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تقرری کا نوٹیفکیشن فوری جاری کیا جائے، دوسری جانب ایک وکیل کا کہنا ہے کہ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے باوجود جج صاحبان شکوک و شبہات کا شکار ہوں گے اگرچہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدت میں توسیع کے انتہائی کم چانسز ہیں پھر بھی حکومت وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی کوشش کر ے گی۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن میں حکومت کے حامی آزاد گروپ نے اس حوالے سے ایک کنونشن کا اہتمام کیا جس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو بھی مجوزہ آئینی ترمیم سے متعلق سوالات کے جوابات دینے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ آزاد گروپ کے سربراہ احسن بھون نے حیرانگی کا اظہار کیا کہ وزیر اعظم مجوزہ آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی تقرری کیسے کر سکتے ہیں۔
احسن بھون نے تجویز پیش کی کہ مجوزہ ایف سی سی کے چیف جسٹس کی تقرری پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے کی جائے دوسری جانب 16 ریٹائرڈ ججوں نے سینئر وکیل منیر اے ملک کو مجوزہ ایف سی سی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ منیر اے ملک 2007 می وکلاء تحریک کی قیادت کر رہے تھے۔
صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج نے ایکسپریس ٹریبیون کو تصدیق کی ہے کہ انہوں نے منیر اے ملک کو وفاقی آئینی عدالت کے قیام کو چیلنج کرنے کا اختیار دیا ہے، سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر جے یو آئی (ف) ترمیم پر متفق نہیں تو ایف سی سی کے قیام کے بارے میں مجوزہ آئینی ترمیم ممکن نہیں۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف بھی مولانا فضل الرحمٰن سے رابطے میں ہے۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ چیف جسٹس عیسیٰ 25 اکتوبر کو رٹائر ہوجائیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت سپریم کورٹ کے اختیارات میں کمی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔