اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ دنیا میں ایک ارب سے زیادہ افراد شدید غربت کی زندگی گزار رہے ہیں جن میں نصف سے زیادہ بچے ہیں۔جنگ زدہ ممالک میں غربت کی شرح نسبتاً تین گنا زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی آکسفورڈ پاورٹی اینڈ ہیومن ڈویلپمنٹ انیشیٹو (او پی ایچ آئی)کے تعاون سے تیار کردہ رپورٹ کے حوالے سے میڈیا نے بتایا ہے کہ جنگ زدہ ممالک میں غربت کی شرح تین گنا زیادہ ہے کیونکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا بھر میں سب سے زیادہ تنازعات 2023میں دیکھنے میں آئے۔
یواین ڈی پی اور اوپی ایچ آئی کے باہمی اشتراک سے تیارکردہ رپورٹ کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو بھی یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ دنیا کے پسماندہ، غیرترقی یافتہ اور جنگ زدہ ملکوں میں غربت اور اموات کی شرح خطرناک حد تک بلند ہے جب کہ بچوں کی شرح پیدائش بھی بہت زیادہ ہے۔ کمسن بچیوں کی شادیاں، بچوں کے اغوا، بچوں پر تشدد، ان کے ساتھ زیادتی اور انھیں قتل کرنے کی شرح بھی خوفناک حد تک بلند ہے۔
لہٰذا اگر یواین ڈی پی اور او ایچ آئی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں ایک ارب افراد شدید غربت کی زندگی گزار رہے ہیں،تو یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے، ممکن ہے کہ گراس روٹ لیول پر اعدادوشمار پورے ملے ہی نہ ہوں۔ بہرحال دنیا میں مفلسوں کی اتنی بڑی تعداد کا ہونا، اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ عالمی سطح پر طاقتور اقوام کا رویہ ترقی دوست نہیں ہے اور نہ ہی عالمی مالیاتی اداروں کے کنٹرولرز اور ہینڈلرز غریب ملکوں میں قیام امن اور ترقی کے بارے میں کوئی سنجیدہ فکر رکھتے ہیں۔
یو این ڈی پی میں شماریات کے اعلیٰ افسر یانچون ژانگ نے کہا ہے کہ یہ رپورٹ ایک سنگین تصویر پیش کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ تصادم سے متاثرہ ممالک میں رہنے والے غریب افراد کے لیے بنیادی ضروریات کے سلسلے میں جدوجہد کہیں زیادہ سخت اور مایوس کن ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 18سال سے کم عمر کے تقریباً 584 ملین بچے انتہائی غربت کا سامنا کر رہے ہیں جو دنیا بھر کے بچوں کا 27.9 فیصد ہیں، یہ بالغوں کی تعداد کے مقابلے 13.5فیصد زیادہ ہیں۔ دنیا کے غریب ترین افراد میں سے 83.2 فیصد سب صحارا افریقہ اور جنوبی ایشیا میں رہتے ہیں۔ او پی ایچ آئی کی ڈائریکٹر سبینا الکائر نے بتایا کہ تنازعات غربت میں کمی کی کوششوں میں رکاوٹ ہیں۔
عالمی معاشی نظام اور اس نظام کے اسٹیک ہولڈر ، عالمی سرمایہ دار، لینڈ ہولڈرز،مذہبی جائیدادوں مثلاً چرچز، سیناگوگز، مندروں، گوردواروں، درگاہوں ، مدارس و مساجد کی جائیدادوں کے اسٹیک ہولڈرز، عالمی سطح پر سرکاری جائیدادوں اور متروکہ املاک کے طاقتور الاٹیز اسٹیک ہولڈرز، چیریٹی اور عوامی فلاح کے نام پر قائم عالمی تنظیموں کے ٹرسٹیز اور انتظامیہ وغیرہ جو اصل میں انٹرنیشنل کیپٹل ازم کے اسٹیک ہولڈر ہیں، ان کے نظریے میں غریبوں، بے سہارا لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
البتہ غریب ملکوں میں گروہی نفرتیں پیدا کرانا، مذہبی فرقہ واریت کو قائم رکھنا، نسلی منافرت کو ہوا دینا اور غریب ملکوں میں خانہ جنگی کی فضا کو برقرار رکھنا ان گروہوں کا مفاد ہے۔ آج کی دنیا کا جائزہ لیا جائے تو خانہ جنگیاں غریب اور پسماندہ ملکوں میں نظر آتی ہیں۔ مذہبی، نسلی اور قبائلی نفرتیں اور تعصبات کی شرح بھی انھی ملکوں میں بلند ہے۔ پورا براعظم افریقہ انھی نفرتوں کی آگ میں جل رہا ہے۔ صومالیہ، لیبیا، سوڈان، ساؤتھ سوڈان، کیمرون، یوگنڈا اور ایتھوپیا جیسے ملکوں میں نفرت کے بیج انھی تعصبات نے بوئے ہیں۔
خانہ جنگی انھی بیجوں سے پیدا ہوئی ہے۔ ایتھوپیا میں خانہ جنگی اور قحط سب نے دیکھا ہے۔ یہ دنیا کے زرخیز ترین خطوں میں سے ایک ہے لیکن اس ملک میں قحط اور خانہ جنگی کی وجہ سے لاکھوں لوگ مارے گئے۔ بالآخر اس ملک کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہونا پڑا۔ ایریٹیریا میں مسلمان اکثریت میں تھے جب کہ باقی ایتھوپیا میں مسیحیت کا راج تھا۔ یوں ایتھوپیا دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ سوڈان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ آج سوڈان بھی دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک سوڈان کے نام سے قائم ہے جب کہ دوسرا ساؤتھ یا جنوبی سوڈان ہے جہاں عیسائی بھاری اکثریت میں ہیں۔ انڈونیشیا بھی تقسیم ہوا۔ جزیرۂ بالی جو انڈونیشیا کا حصہ ہوا کرتا تھا، وہ اب ایک آزاد اور خودمختار ملک بن گیا ہے۔ بنگلہ دیش کا قیام بھی لسانی اور نسلی تعصبات کی آگ میں جلنے کی وجہ سے عمل میں آیا۔ حالانکہ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان دونوں میں مسلمان بھاری اکثریت میں رہتے ہیں لیکن جب کوئی بھی تعصب حد سے بڑھ جاتا ہے تو اس کا نتیجہ جنگ اور خون کی شکل میں ہی نکلتا ہے۔
اگر ایشیا کا جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی غربت سر کھولے ناچ رہی ہے۔ جنوبی ایشیا دنیا کے غریب ترین خطوں میں سے ایک ہے۔ حالانکہ اس خطے میں بے پناہ وسائل موجود ہیں، بے مثال اور بھاری افرادی قوت بھی جنوبی ایشیا میں رہتی ہے۔ بہترین ہنرمند اور کاریگریہاں موجود ہیں۔ اعلیٰ پائے کے انجینئرز، ڈاکٹرز، فنانشل ایکسپرٹس اور سائنس دان اس خطے میں موجود ہیں بلکہ ان خطوں کے ذہین سائنس دان امریکا اور برطانیہ وغیرہ میں آباد ہیں اور نوبل انعام حاصل کر چکے ہیں۔
جنوبی ایشیا کے پورے خطے کا جائزہ لیا جائے تو اس خطے میں تیل، گیس اور کوئلے کے وسیع ذخائر ہیں۔ اعلیٰ ترین معدنیات کے وسیع ذخائر بھی اس خطے میں ہیں۔ دنیا کا اعلیٰ ترین کوالٹی کا نمک صرف اسی خطے میں ہے۔ جنوبی ایشیا میں زیرزمین میٹھے پانی کے ریزروائر بھی بہت زیادہ ہیں۔ پورے خطے کے چشموں، ندیوں، جھیلوں اور دریاؤں کا شمار کیا جائے تو شاید دنیا بھر میں ان کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ اس کے باوجود جنوبی ایشیا کے نوے فیصد عوام غربت کا شکار ہیں، چاہے وہ مسلمان ہیں، ہندو ہیں، سکھ ہیں، عیسائی ہیں یا بدھ مت ہیں، غربت سب کا مقدر ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ اس سارے خطے کے طاقتور طبقے ہیں جن کے مفادات عالمی کیپٹلزم کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
انٹرنیشنل کیپٹلزم اپنے اندرونی تضادات کا شکار ہو چکا ہے۔ کیپٹلزم کے ماہرین معاشیات، ماہرین سماجیات اور سیاسیات سر جوڑ کر بیٹھے ہیں تاکہ انٹرنیشنل کیپٹلزم بچانے اور قائم رکھنے کی راہ نکالی جائے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ماہرین مالیاتی سسٹم کو بہتر بنانے کی اپنے طور پر بہت کوشش کر رہے ہیں لیکن معاملات حل نہیں ہو پا رہے۔ اگر دنیا کے غریب اور ترقی یافتہ ملکوں میں امن قائم کرا دیا جائے، غریب ملکوں میں رجعت پسند قوتوں کا ریاستی کنٹرول ختم کرایا جائے تو بھی انٹرنیشنل کیپٹلزم مسائل کا شکار ہوتا ہے کیونکہ اگر خانہ جنگیاں بند ہو جائیں تو ترقی یافتہ ممالک میں قائم ہتھیاروں کی صنعت زوال پذیر ہونے کے خطرات سے دوچار ہو سکتی ہے۔
اگر غریب ملکوں میں امن قائم ہو جائے اور وہاں پروگریسو نظریات فروغ پا جائیں تو ان ملکوں میں ترقی کا عمل حیران کن حد تک تیز ہو جائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ترقی یافتہ ممالک میں قائم صنعتوں اور کاروباروں کا حجم لازمی طور پر کم ہو جائے گا جس سے وہاں بے روزگاری بڑھ سکتی ہے۔ چین اور بھارت کی مثال سب کے سامنے ہے۔ آج چین اور بھارت کی معیشتیں ترقی کر رہی ہیں، امریکا اور یورپ کی چین کے ساتھ محاذآرائی شروع ہو چکی ہے جب کہ بھارت جو تاحال امریکا اور یورپ کے کیمپ میں ہے لیکن جیسے ہی بھارت کی معیشت نے بڑا جمپ لگایا اور حیران کن حد تک آگے بڑھی تو امریکا اور کینیڈا وغیرہ کے ساتھ بھارت کے بھی تنازعات شروع ہو گئے ہیں۔
یوں دیکھا جائے تو غریب اور کمزور ملکوں کی پسماندگی اور وہاں پنپنے والی نفرتوں اور عصبیتوں کا براہ راست تعلق انٹرنیشنل کیپٹلسٹ کنٹریز کے ساتھ جڑا ہوا نظر آتا ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ٹی ٹی پی اور اس جیسی دیگر عالمی تنظیمیں جدید ترین اور انتہائی مہنگا اسلحہ کہاں سے خریدتی ہیں۔ ان دہشت گرد گروپوں کے پاس اتنی زیادہ دولت کن ذرایع سے آتی ہے۔ ان دہشت گرد گروہوں کی فنانشل ٹرانزیکشنز کا حجم لازمی طور پر کئی ملکوں کی آمدنی سے زیادہ ہو گا۔ کیا یہ سب کچھ چوری چھپے ہو رہا ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے اس دور میں دنیا کے طاقتور ملکوں کی باوسائل اور تربیت یافتہ بیوروکریسی اور سیکیورٹی ایجنسیوں کی نگرانی سے بچنا انتہائی مشکل کام ہے۔ لہٰذا ترقی یافتہ اور طاقتور اقوام کو عالمی نظام کو بچانے کے لیے خود قربانی دینی ہو گی۔