5 سال میں 30 لاکھ سے زائد پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ لاکھوں پاسپورٹ بنوا کر فارن آفس کے باہر لائنوں میں لگے رہتے ہیں، جو عنقریب چلے جائیں گے۔ ملک سے باہر جانا نوجوانوں کا مشن بن چکا ہے۔ پڑھائی مکمل ہو یا نہ ہو، بس باہر کا ویزا لگنا چاہیے۔ جو قانونی راستے سے باہر نہیں جاسکتا وہ غیر قانونی طریقہ اختیار کرکے باہر جارہا ہے۔ مگر ہر شخص کی کوشش ہے کہ جلد از جلد اس ملک کو چھوڑ کر باہر نکلا جائے۔
گزشتہ روز کچھ میڈیکل اسٹوڈنٹس کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا، جب ان سے فیوچر پلان کے بارے میں سوال ہوا تو سب کا ایک ہی جواب تھا کہ باہر جانے کی تیاری کرنی ہے۔ مطلب مزید کھیپ تیار ہورہی ہے جو ملک چھوڑنے کےلیے پر تول رہی ہے۔ میرا ان سے اگلا سوال تھا کہ باہر کیوں؟ پاکستان میں بھی فیوچر پلان کیا جاسکتا ہے؟ جس پر جو جواب ملے وہ ملاحظ کیجیے۔
بقول عائشہ پاکستان رہنے کے قابل نہیں رہا۔ یہ ایک جنگل بن چکا ہے، جہاں کوئی قانون نہیں، اشرافیہ کی من مانیاں عروج پر ہیں، جنہیں کنٹرول کرنے کےلیے اس وقت ملک میں کوئی قانون نہیں۔ ہم ہر چیز کا ٹیکس دے کر بھی نان فائلر ہیں۔ ایک ماچس کی ڈبیا خریدیں یا پھر کسی اسٹور سے دھنیا، ہر چیز پر ہم سیلز ٹیکس دے رہے ہیں۔ اس کے بعد ہم بجلی کے بھاری بھرکم بلوں پر الگ ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ یوٹیلٹی سہولیات دستیاب نہیں مگر وہ ٹیکس بھی ہم دے رہے ہیں۔ اب کے ایم سی نے اپنا ایک نیا ٹیکس عائد کردیا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ بجلی کا بل نہیں بلکہ ٹیکس پیپر ہے جو ہر ماہ ہمیں لازم ادا کرنا ہے۔ ایک ادارے کی لوٹ مار کو روکنے کے بجائے اس کا ہر جائز ناجائز طریقے سے ساتھ دے کر ہمیں مزید لوٹا جارہا ہے۔
اسی طرح گیس کے بل دیکھیں تو اب وہ اسی کی روش پر چل پڑے ہیں۔ ایک عام آدمی کےلیے ملک میں کوئی سہولت میسر نہیں۔ لیکن اس کے برعکس اشرافیہ کےلیے ہر چیز پر رعایت دی جارہی ہے۔ آپ فیوچر پلان کی بات کررہے ہیں تو یہ بھی دیکھیں کہ یہاں فیوچر پلان کیسے ممکن ہے جب کہ فیوچر پر فل اسٹاپ لگا ہے۔
ایک شخص سولہ سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی خاکروب بنا ہوا ہے، اور ایک میٹرک پاس شخص کسی سیاسی پارٹی کی وفاداری کی بنیاد پر ادارے کا سربراہ لگ جاتا ہے۔ اداروں میں موجود لوگ کسی نہ کسی پارٹی سے منسلک ہیں، جو عوام کی خدمت کم پارٹی وفاداریاں زیادہ نبھا رہے ہیں۔ ایک جاہل کو کسی بھی ادارے میں بٹھا دیا جاتا ہے، اور پڑھے لکھے کو اس کے ماتحت کام کرنے کا کہا جاتا ہے۔ ایسے میں تعلیم کا مورال بلند ہونے کے بجائے گرنا ہی ہے۔
ان طالبات نے کافی کچھ کہا۔ ان کی تمام باتیں سو فیصد درست تھیں۔ ہر شخص باہر جانے کےلیے اس لیے پرعزم ہے کہ وہ دو پیسے کما کر اپنے خاندان کا پیٹ پال سکے۔ وہاں مزدوری کرکے بھی وہ آرام سے گھر چلا سکتا ہے، مگر یہاں وہ دن رات محنت کرکے بھی صرف ایک بجلی کا بل ہی بھر پائے گا۔ ٹیکس کی بھرمار، لوٹ مار اور مافیاز نے اس ملک کو کھوکھلا کردیا ہے۔ عائشہ سمیت تمام طالبا ت کی باتیں غلط نہیں تھیں۔
بقول ثمرین ہماری بہت سی اسٹوڈنٹس باہر مڈ وائف اور نرسنگ کررہی ہیں، لیکن پاکستان میں اس پیشے کو وہ عزت حاصل نہیں جو ہونی چاہیے۔ یہاں تو ایک استاد کی عزت نہیں جو نسل کو سنوارتے ہیں۔ آج اساتذہ سڑکوں کی خاک چھان رہے ہیں، اپنے حق کےلیے اگر سڑکوں پر آتے ہیں تو ایک میٹرک پاس پولیس والا بھی ان پر لاٹھی اٹھاتے دیر نہیں کرتا۔ ایسے میں ہم کیوں یہاں رہیں جہاں ہماری کوئی عزت کوئی وقار نہیں۔ ہماری یہاں کوئی اوقات نہیں۔ ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے ہم نے اس ملک کی اشرافیہ کو پالنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔
ان طالبات کی باتیں بہت گہری ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان کی ذہن سازی کی گئی ہے، مگر درحقیقت ایسا نہیں، بلکہ یہ معاشرے کو ایک غلط راہ پر جاتا دیکھ رہے ہیں، جہاں ایک عام آدمی کیڑے مکوڑے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا خواب کب شرمندہ تعبیر ہوگا، اس کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں۔ کیوں کہ ملک کا نظام کمزور ہو بھی تو ایک مضبوط قانون اسے ٹوٹنے نہیں دیتا۔ مگر یہاں نظام اور قانون دونوں ہی بوسیدہ ہوچکے ہیں۔
اسمبلیاں طاقت کا سرچشمہ ہیں، جہاں ہر قسم کی قانون سازی کی جاتی ہے، مگر یہاں سوائے ذاتی مفادات کے آج تک عوام کےلیے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی، بلکہ جب بھی کوئی قانون بنا وہ عوام کو دبانے کےلیے بنایا گیا۔ اشرافیہ آج بھی قانون سے بالاتر ہے۔ کارساز ٹریفک حادثہ اس کی تازہ مثال ہے جہاں ایک امیر زادی نے دو افراد کی جان لے لی، لیکن ہمارا قانون فوراً حرکت میں آگیا اور اس امیر زادی کو شیلٹر فراہم کردیا۔ مرنے والے عام لوگ تھے اس لیے ان کے خاندان کی آہ و بکا کسی نے نہ سنی۔ چند گھنٹوں میں ہی اس کا میڈیکل ہوگیا، ایک دن کا ریمانڈ اسپتال میں منظور ہوگیا۔ سب کچھ ایسا ہورہا تھا جیسے پوری سرکاری مشینری اس امیر زادی کو بچانے کےلیے مصروف ہوچکی ہے۔
پاکستان کا معاشی ہب کراچی ہے جسے اندھیروں میں دھکیل دیا گیا۔ سیاسی مفادات کا یہ گیم برسوں سے کھیلا جارہا ہے جہاں اندھے اور بہروں کو حکمرانی تفویض کردی گئی ہے۔ جنہیں شہر کے خراب حالات سے کوئی سروکار نہیں، معیشت سے کوئی واسطہ نہیں۔ فیکٹریاں، کارخانے اور انڈسٹریاں بند ہورہی ہیں، مگر کسی کو اس کی پرواہ نہیں، شہر قائد کو گلوبل سٹی کا لقب دے دیا گیا مگر یہاں سڑکوں کا کوئی نظام نہیں، سیوریج کا نظام عرصہ دراز پہلے مفلوج ہوچکا ہے، عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، مگر واٹر بورڈ ٹینکر مافیا کے شکنجے سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ ٹرانسپورٹ کا نظام پرائیوٹ لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو اپنی مرضی کے کرایے طلب کرتے ہیں، اس پر بھی کسی کا کوئی دھیان نہیں۔ اشیائے خور و نوش کی لسٹیں جاری کرنے والا ادارہ روزانہ کاپی پیسٹ کرکے لسٹ جاری کردیتا ہے مگر اس پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔ ڈپٹی کمشنرز اپنے ٹھنڈے کمروں میں سے نکلنے کو تیار نہیں، یا پھر انہیں اس قسم کی ہدایت دی گئی ہیں کہ وہ عوام کا کوئی کام نہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ڈسٹرکٹ کا سب سے بڑا افسر اپنے روم سے نکل کر گھر جاتا ہے لیکن عوام کو دو منٹ دینے کو تیار نہیں۔ کسی اسسٹنٹ کمشنر نے رسمی کارروائی کے علاوہ کوئی پختہ کام نہیں کیا۔ سب آرٹیفیشل کام کرکے تصاویر بنوا کر چلتے بنتے ہیں۔ پھر ایسے میں کہا جائے کہ ہم ترقی کی شاہراہ پر قدم رکھ چکے ہیں تو یقین جانیے یہ اسٹوڈنٹس بے وقوف نہیں۔
تعلیم کا یہ حال ہے کہ ہر گلی میں دو چار اسکول نظر آئیں گے جو محض ایک دو کمروں پر مشتمل ہوں گے۔ یہ ایک پرکشش کاروبار بن چکا ہے، اور اس کاروبار میں صوبائی اور وفاقی ادارے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ چند روپے دے کر میٹرک پاس کرلیا جاتا ہے، چند روپے دے کر آپ کو کوئی بھی ڈگری آرام سے مل جاتی ہے۔ اسکول، کالج یا یونیورسٹیز میں تعلیم برائے نام ہوچکی ہے۔ طلبا کو سہولیات دینے کے بجائے انہیں دیگر کاموں پر لگادیا گیا ہے جو اپنی تعلیم اس طرح پوری کررہے ہیں جیسے یہ کوئی بوجھ ہو۔
ان سب میں حکومت کا قصور ہے۔ ہر حکومت کی کابینہ میں موجود لوگوں نے اپنے اپنے حصے کی تباہی پھیلائی ہے۔ آج اگر نوجوان باہر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو یہ غلط نہیں ہے۔ بلکہ یہ ان کا حق ہے کہ وہ باہر جاکر اپنا آپ منوائیں۔ یہاں ماسٹرز کرنے کے بعد بھی نوکری کےلیے دربدر ہونا پڑے گا، مگر باہر ایسا نہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ حالات پر قابو پایا جائے، ناکہ اسٹوڈنٹس کو پابند سلاسل کیا جائے۔ مسئلے کا حل نکالنا ہوگا، ورنہ پاکستان بھی سری لنکا اور بنگلادیش جیسی تحریک کا سامنا کرسکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔