تجزیہ کار شہباز رانا کا کہنا ہے کہ ایف بی آر ٹیم صرف اتنا کام کرے کہ اپنے دفتر سے نکلے اور اسلام آباد کی مارگلہ روڈ کے ایک کونے سے شروع ہو کر دوسرے کونے پر چلی جائے، 120 افراد ان کو یہیں پر مل جائیں گے جن کی اتنی ورتھ ہے۔
اس کے بعد دوسرا کام کریں، چیئرمین ایف بی آر اور ٹاپ کے پانچ ممبرزایک ہی گاڑی میں بیٹھ جائیں اور یہاں سے موٹر وے پر چکر تک چلے جائیں ، ارد گرد میں ان کو جو ہاؤسنگ سوسائٹیاں نظر آئیں گی وہ بتائیں گی کہ ان کے مالکان کی ورتھ کتنی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام دی ریویو میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ الارمنگ اور شاکنگ نمبرز ہیں، 25کروڑ افراد کا یہ ملک ہے، جس کی جی ڈی پی کا سائز 375ارب ڈالر ہے اور وہاں پر صرف بارہ افراد ایسے ہیں ، جنہوں نے گوشواروں میں اپنی نیٹ ورتھ دس ارب روپے یا اس سے زیادہ ظاہر کی ہے۔
مزید پڑھیں: صرف 12 پاکستانیوں نے گوشواروں میں 10 ارب روپے سے زائد اثاثے ظاہر کیے، ایف بی آر
تجزیہ کار کامران یوسف نے کہا کہ پاکستان کی سب سے بڑی تشویش وہ جدید امریکی اسلحہ ہے جو امریکی افغانستان میں چھوڑ گئے، یہ اسلحہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دوسرے دہشت گرد گروہ پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بائیڈن ان خدشات کو رد کرتے رہے لیکن انٹرسٹنگلی نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے موقف کی کسی حد تک تائید اس طرح کی ہے کہ انھوں نے اس حوالے سے ایک بیان دیا ہے کہ افغان طالبان اگر چاہتے ہیں کہ ان کی مدد جاری رکھی جائے تو جو امریکی اسلحہ افغانستان میں رہ گیا تھا، وہ ان کو واپس کرنا ہوگا۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق آج بھی افغانستان میں رہ جانے والے امریکی اسلحہ کی مالیت سات ارب ڈالر بنتی ہے، ٹرمپ فیصلوں سے افغانستان میں ڈالر کا بحران پیدا ہوگیا ہے، مہنگائی بہت زیادہ ہوئی ہے، ہوسکتا ہے کہ ٹرمپ کی حکمت عملی ان ڈائریکٹلی پاکستان کو فائدہ دے جائے۔