پالینا سائمنزکہتی ہے ’’ تمام عظیم چیزوں کے لیے قابل قدر قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ یہ اقتباس اس خیال سے بات کرتا ہے کہ حقیقی کامیابی اور تکمیل اکثر قیمت پر آتی ہے۔ پاؤلینا سائمنز تجویزکررہی ہیں کہ زندگی میں سب سے بڑے انعامات کسی سطح کی قربانی یا چھوڑے بغیر حاصل نہیں ہوتے۔ یہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے ایک مشکل سچائی ہوسکتی ہے،کیونکہ ہم اکثر اپنے آرام اور سہولت کو اصل اہمیت کی چیزوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ جملے ’’ عظیم چیزیں رکھنے کے قابل‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ کچھ اہداف یا خواہشات ہیں جو واقعی قابل قدر ہیں، یہاں تک کہ اگر انہیں حاصل کرنے کے لیے اہم کوشش یا مشقت کی ضرورت ہو۔
ان میں ذاتی ترقی، روحانی ترقی، تخلیقی اظہار، یا دنیا میں مثبت اثر ڈالنا شامل ہو سکتا ہے۔ اقتباس کا دوسرا حصہ، ’’عظیم قربانی دینے کی ضرورت ہے‘‘ ان عظیم چیزوں کو حاصل کرنے میں بے لوثی اور سخاوت کی اہمیت کو اجاگرکرتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حقیقی کامیابی صرف انفرادی کامیابی کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ اپنے سے بڑی چیز میں حصہ ڈالنے کے بارے میں بھی ہے۔
’’ کولمبس نے امریکا کو دریافت کیا ‘‘ چھ لفظ کے اس جملے کو آج ایک شخص چھ سیکنڈ سے بھی کم وقت میں اپنی زبان سے ادا کرسکتا ہے مگر اس واقعہ کو ظہور میں لانے کے لیے کولمبس کو 20 سال صرف کرنے پڑے، یہ ہی اس دنیا میں کامیابی کا طریقہ ہے، اس دنیا میں ہرکامیابی 20 سالہ محنت مانگتی ہے اس کے بغیر یہاں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔
نیل آرم اسٹرانگ پہلے شخص ہیں جنہوں نے چاند کا سفرکیا،21 جولائی1969 کو انہوں نے ایگل نامی چاندگاڑی سے اترکر چاند کی سطح پر اپنا قدم رکھا اس وقت زمین اور چاند کے درمیان برابر مواصلاتی رابطہ قائم تھا۔ چاند پر اترنے کے بعد اس نے زمین والوں کو جو پہلا پیغام دیا وہ یہ تھا کہ ’’ ایک شخص کے اعتبار سے یہ ایک چھوٹا قدم ہے مگر انسانیت کے لیے یہ ایک عظیم چھلانگ ہے‘‘ آرم اسٹرانگ کا مطلب یہ تھا کہ میرا اس وقت چاند پر اترنا بظاہر صرف ایک شخص کا چاند پر اترنا ہے مگر وہ ایک نئے کائناتی دور کا آغاز ہے۔
ایک شخص کے بحفاظت چاند پر اترنے سے یہ ثابت ہوگیا کہ وہ وقت آئے گا کہ جب عام لوگ ایک سیارے سے دوسرے سیارے تک اسی طرح سفر کرنے لگیں گے جس طرح وہ زمین پر کرتے ہیں ہر بڑا کام اسی طرح ہوتا ہے۔ ابتداء میں ایک فرد یا چند افراد قربانی دے کر ایک دریافت تک پہنچتے ہیں۔ اس طرح وہ دوسروں انسانوں کے لیے ایک نیا راستہ کھولتے ہیں۔ یہ ابتدائی کام بلاشبہ انتہائی مشکل ہے وہ پہاڑکو اپنی جگہ سے کھسکانے کے ہم معنیٰ ہیں مگر جب یہ ابتدائی کام ہوجاتا ہے تو اس کے بعد سارا معاملہ آسان ہو جاتا ہے، بس اس کے لیے زیادہ ہمت،جرأت، حوصلے، لگن، ولولہ کی ضرورت ہوتی ہے۔کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہوتا۔ بس ناممکن اور ممکن کے درمیانی فاصلے کو طے کر نے کے لیے آپ کو اپنے اندر دوسروں سے زیادہ ہمت اور جرأت پیدا کرنا ہوتی ہے۔
قیصر ولیم دوم 1888 سے لے کر 1918 تک جرمنی کا بادشاہ تھا، اس کا بایاں بازو پیدائشی طور پرناقص اور چھوٹا تھا۔ قیصر ولیم ہی کی غیر مدبرانہ سیاست کے نتیجے میں پہلی جنگ عظیم چھڑی، اس میں ایک طرف جرمنی اور اس کے ساتھی تھے اور دوسری طرف برطانیہ اور اس کے ساتھی۔ آخرکار جرمنی کو شکست ہوئی، اس کے ساتھ ہی قیصر ولیم کی حکومت بھی ختم ہوگئی قید اور قتل سے بچنے کے لیے اس نے اپنا ملک چھوڑدیا، وہ نیدر لینڈ چلا گیا وہ خاموشی سے زندگی کے بقیہ دن گزارتا رہا، یہاں تک کہ وہ 1941 میں مرگیا۔
پہلی جنگ عظیم سے کچھ پہلے کا واقعہ ہے قیصر ولیم ایک سرکاری دورے پر سوئٹزر لینڈ گیا، وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ سوئٹزر لینڈ اگرچہ چھوٹا ملک ہے مگر اس کی فوج بہت منظم ہے، اس نے ملاقات کے دوران سوئٹزر لینڈ کے ایک فوجی سے مزاحیہ انداز میں کہا کہ ’’ جرمنی کی زبردست فوج جس کی تعداد تمہاری فوج سے دگنی ہے، اگر تمہارے ملک پرحملہ کردے تو تم کیا کروگے؟‘‘ اعلیٰ تربیت یافتہ فوجی نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا ’’ سر ہمیں ایک کے بجائے دو فائرکرنے پڑیں گے۔‘‘
سوئس فوجی کا یہ چھوٹا سا جملہ ایک بہت بڑی حقیقت کا اعلان ہے وسائل اگرکم ہوں تو کارکردگی کی زیادتی سے آپ اس کی تلافی کر سکتے ہیں۔ آپ کی تعداد اگر فریق کی تعداد کا نصف ہے تو آپ دگنی محنت کرکے زندگی کے میدان میں اس کے برابر ہوسکتے ہیں۔ نفسیات کے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ انسان پیدائشی طور پر جن صلاحیتوں کا مالک ہے عام طور پر وہ ان کا صرف دس فیصد استعمال کرتا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ولیم جیمس نے کہا ہے ’’ جوکچھ ہمیں بننا چاہیے، وہ کچھ ہم بننے کے لیے تیار نہیں۔‘‘ ولیم جیمس کی کہی ہوئی بات سو فیصد ہم پر پوری اترتی ہے، خدا نے ہم کو ہر قسم کی نعمتوں سے نوازا ہے لیکن ہم ہیں کہ ناشکری پر ناشکری کرتے جا رہے ہیں۔ ہم سے زیادہ بدترین مسائل کا شکار لوگوں نے اپنے نصیب خود اپنے ہاتھوں بدل ڈالے، انہوں نے سب سے پہلے اپنے مسائل اور ان کی وجوہات کا تفصیلی جائزہ لیا ان کا حل ڈھونڈا اور ہمت، حوصلے کو اپنی ذاتوں میں جمع کیا اور ترقی اور خوشحالی کے راستے پر پہلا قدم رکھ دیا۔
اس راستے پر انہیں بے پناہ مسائل، پریشانیوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن انہوں نے نہ تو ہمت ہاری اور نہ اپنے حوصلے کو پست ہونے دیا اور آخرکار پریشانیوں، مسائل، مصیبتوں نے اپنی شکست تسلیم کر لی اور ان کے راستے سے ہٹ گئیں۔ کسی بھی منزل پر پہنچنے کے لیے پہلا قدم اٹھانا لازمی ہوتا ہے، صرف برا بھلا کہنے سے اپنی قسمت اور نصیب کوکوستے رہنے سے حالات تبدیل نہیں ہوتے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے قسمت اور نصیب کبھی بدلا نہیں کرتے صرف خواہشات کافی نہیں ہوتیں، اگر صرف خواہشات سے حالات تبدیل ہوسکتے تو ہمارے حالات نجانے کب کے بدل چکے ہوتے۔ دوسروں کو الزام دینا بزدلی کم ہمتی اور اعتراف شکست ہوتا ہے۔
دعائیں بھی اس وقت اثر کرتی ہیں جب دوا بھی ساتھ ساتھ جاری ہو، اگر آپ یہ سمجھیں بیٹھے ہیں کہ صرف خواہشات سے حالات تبدیل ہوجائیں گے تو بیٹھے رہیے، انتظار کرتے رہیے آخر وہ وقت آہی جائے گا جب آپ کے پیارے آپ کی ابدی زندگی کے لیے دعاگو ہو رہے ہونگے۔ یہ آپ پر خود منحصر ہے کہ آپ اپنی زندگی کن حالات میں گزارنا چاہتے ہیں اگر آپ اپنی بدحالی، غربت، افلاس، بے اختیار ی ، ذلت میں خوش و خرم ہیں تو کوئی بھی آپ کو اپنے حالات تبدیل کرنے کے لیے اصرار نہیں کرے گا۔
آپ اپنے ان ہی حالات میں مزے کیجیے خو ش وخرم رہیے، ذلت برداشت کرتے رہیے،کڑھتے رہیے، دوسروں کو برا بھلا کہتے رہیے اور دعا کرتے رہیے کہ جو خوشیاں عیش و آرام، نعمتیں ، سکون آپ کو دنیا میں نصیب نہ ہوسکا، وہ خدا آپ کو جنت الفردوس میں نوازے، لیکن اگر مرکے بھی چین نہ آیا تو پھرکیا کیجیے گا۔ ایک دوسرا راستہ اور ہے جو آپ کی موجودہ اور ابدی زندگی دونوں کو سنوار سکتا ہے اور وہ راستہ ہے ہمت، جرأت ، حوصلے کا۔
آئیں!کم ہمتی اور بزدلی کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیں اورغاصبوں، ظالموں، لٹیروں، سے اپنے حقوق، خوشحالی، چین، سکون اپنے لیے اور اپنے پیاروں کے لیے دوسرے مظلوموں کے لیے چھین لیں۔ اپنے بھی نصیب بدل ڈالیں اور ملک کے تمام بے کسوں، مجبوروں، مظلوموں کے نصیب بھی بدل ڈالیں کم ہمتی اور بزدلی جرم ہیں، اگر آپ مجرم بن کے جینا چاہتے ہیں تو پھر آپ کی مر ضی۔ اور اگر نہیں تو پھر دیر نہ کریں،اور اٹھ کھڑے ہوں،اور اٹھ کھڑے ہوں۔