ملک میں مون سون کا تباہ کن اسپیل جاری ہے، سندھ اور بلوچستان میں بارشوں نے تباہی مچا رکھی ہے۔ سکھر میں ستتر سالہ تاریخ کی سب سے زیادہ بارش ریکارڈ ہوئی، چوبیس گھنٹے کے دوران تین سو ملی میٹر بارش نے شہر ڈبو دیا۔ خیرپور، لاڑکانہ، موئن جو دڑو، روھڑی، جیکب آباد اور دادو بھی شدید بارش کی زد میں آئے۔ دوسری جانب بلوچستان میں سیلابی ریلوں نے مستونگ میں تباہی مچائی، تیز پانی سڑکوں کو بہا لے گیا، پل ٹوٹ گئے، سیب اور انگور کے باغات تباہ ہوگئے۔
سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں بارش کی شدت سے جہاں انفرا اسٹرکچرکو شدید نقصان پہنچا ہے، وہیں پورا شہر ایک جھیل کا منظر پیش کررہا ہے، نکاسی آب کے ناقص ترین نظام نے شہری اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، متاثرین دکھ اور بے بسی کی تصویر بن چکے ہیں۔ پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ شہری سیلاب کب آتا ہے؟ شہری سیلاب اس وقت آتا ہے، جب ایک مختصر مدت میں مسلسل اور تیز بارش سے شہر کی نکاسی آب کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔
اس کے پیچھے متعدد عوامل کار فرما ہوتے ہیں کیونکہ مختصر عرصے کے دوران شدید بارش کے باعث مٹی پانی سے لبریز ہوجاتی ہے اور اس کے اوپر پانی کا بہاؤ بڑھ جاتا ہے، جب کہ ندیوں کے کنارے اور سیلاب کے میدانی علاقوں پر آبادیاں یا دیگر تعمیرات بھی شہری سیلاب کے عوامل میں سے ہیں۔ اس کے علاوہ نالوں پر تجاوزات، نالوں میں کچرا اورگندگی پھینکنا اورکھلی جگہوں،کھیل کے میدان اور پارک کی عدم دستیابی بھی شہر میں سیلاب کا موجب ہوتی ہے۔ یہ کیفیت اس وقت بھی نظر آرہی ہے، سکھر ڈوب گیا ہے جب کہ اگرکراچی میں ایک زور دار اسپیل آگیا تو پھرکراچی بھی ماضی کی طرح ایک بار پھر اربن فلڈنگ کا شکار ہوسکتا ہے۔ صوبائی و شہری انتظامیہ کی جانب سے تاحال شہری سیلاب سمیت بارشوں کے اثرات سے بچاؤ کے کوئی واضح اقدامات نظر نہیں آرہے۔
پاکستان میں سیلاب ہر سال مون سون کے موسم میں آتے ہیں اور ماہرین کے مطابق تقریباً ہر پانچ سال بعد ایک تباہ کن سیلاب آتا ہے۔ جہاں متاثرین کے لیے حکومتی امدادی ناکافی ہے، وہیں عالمی ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں اس نوعیت کے سیلاب اور بارشوں سے نمٹنے کی جامع حکمت عملی کا فقدان واضح نظر آتا ہے۔ ماہرین خبردارکررہے ہیں کہ حکومت نے پانی ذخیرہ کرنے اور سیلاب سے بچاؤ کی مناسب حکمت عملی ترتیب نہیں دی ہے اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سیلاب کے ساتھ ساتھ شدید خشک سالی کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
دوسری جانب اس سب کا خمیازہ غریب کسان کو بھگتنا پڑتا ہے جو زمین سستی ہونے کی وجہ سے کچے کے علاقے میں رہنے اور ہر سال سیلاب کے نتیجے میں متاثر ہونے پر مجبور ہے۔ غریب کسان کو اس آفت سے بچانے کے لیے حکومت کے پاس بظاہر دعوؤں اور رپورٹوں کے علاوہ کوئی اور منصوبہ بندی نہیں ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے قدرتی آفات کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے مربوط پالیسی سازی میں مصروف ہے لیکن ہر سال لاکھوں کیوسک پانی، لاکھوں افراد کی روزی روٹی اور رہن سہن دریاؤں کی نذر ہو رہا ہے۔
جاپان میں زلزلے بے تحاشا آتے ہیں اور امریکا میں ہر سال سمندری طوفان آتے ہیں لیکن پہلے سے کی گئی تیاریوں کی وجہ سے نہ تو وہاں جانی نقصان اتنا زیادہ ہوتا ہے اور نہ ہی مالی نقصان کہ ناقابلِ برداشت ہوجائے۔ ہمیں بھی ایسی ہی تیاریوں کی ضرورت ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم سیاسی معاملات میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ کسی دوسرے ایشو کی طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں۔ اللہ کبھی سیلاب نہ دکھائے، کسی غریب کی کل متاع اپنی ساری جمع پونجی اچانک سب کُچھ سیلاب میں بہہ جائے پھر غریب آدمی کُنبے کو بچاتے بچاتے اپنا سارا مال مویشی اپنی آنکھوں کے سامنے بہتا ہوا دیکھے اور کُھلے آسمان تلے اپنے کُنبے سمیت کھانے پینے سے بھی محروم ہو کر وقت کے حکمرانوں کی طرف دیکھے کہ شاید کسی خدا ترس کو رحم آ جائے اور وہ کھانے پینے کے لیے کچھ بھیجے جس سے وہ اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکے۔ بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے مواصلات متاثر ہوتے ہیں اور دور دراز علاقوں میں لوگوں کی حالت زار کے بارے میں جاننا یا ان کے لیے کسی قسم کی امداد کا سامان بہم پہنچانا ایک مشکل مرحلہ ہے۔
پاکستان میں بارشیں ہو رہی ہوں تو ظاہر ہے کہ بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی ہو رہی ہوتی ہیں کہ برسات کا موسم ہے، بھارت کی جانب سے اضافی پانی چھوڑے جانے کے بعد دریائے چناب میں اونچے درجے کے سیلاب کا خدشہ بھی رہا، کچھ علاقوں میں فلڈ ریلیف کیمپ قائم کیے جاتے رہے لیکن اس حوالے سے مزید اقدامات کی ضرورت تھی۔ پنجاب کی طرح بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے کچھ علاقے بھی بارشوں سے پیدا ہونے والے سیلابوں کی زد میں ہیں۔
بلوچستان کے علاقوں میں سیلابی ریلے آبادیوں میں داخل ہونے کی وجہ سے رابطہ سڑکیں بہہ گئیں اور متاثرہ علاقوں تک تاحال زمینی رسائی ممکن نہیں ہوئی، دیہی علاقوں سے بڑے شہروں کو جانے والے پھلوں اور سبزیوں کی ترسیل بھی معطل رہی جس کی وجہ سے زمینداروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
پاکستان ڈیزاسٹر مینجمنٹ اپنے افعال اور حکمت عملیوں کو بھرپور طریقہ سے سرانجام نہیں دے رہی ہے۔ قدرتی آفات میں بیماریاں پھیل جاتی ہیں اور خصوصی طور پر جلدی امراض میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اشیائے خورونوش کی فراہمی اور ترسیل ضروری ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں قدرتی آفات کے اثرات دیرپا رہتے ہیں اور بحالی کا عمل بھی سست روی کا شکار رہتا ہے۔ سیلاب، زلزلہ، قحط، آندھی اور غیر متوقع حادثات سے یقیناً نارمل زندگی متاثر ہوتی ہے۔ قدرتی آفات کی روک تھام تو ممکن نہیں لیکن ان کی بحالی کے لیے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر اقدامات کرنے ہوتے ہیں۔
آب وہوا اور ماحولیاتی تبدیلیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بارشوں اور سیلاب کے پیٹرنز پر ریسرچ اور اسٹڈی کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ پانی کو ذخیرہ کرنے اور اس کے بہاؤ کی سمت کو کنٹرول کرنے کے لیے فوری پلاننگ ہونی چاہیے۔ اس طرح ہمیں پانی کی وافر مقدار میں دستیابی کے دنوں میں اسے ذخیرہ کرنے اور خشک موسم میں اسے استعمال کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اب یہ انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ کوئی آفت آئے گی توہم اس کے بعد ہی سرگرم عمل ہوں گے۔ ہمیں متاثرہ افراد کی بروقت مدد کے لیے مطلوبہ وسائل اور منصوبہ بندی کے ساتھ ہر وقت کمر بستہ رہنا چاہیے۔
عام لوگوں کی تیاری و آگہی وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ وہ کسی بھی آفت کی صورت میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے آپ کو اور دوسروں کو بچانے میں معاون ثابت ہو سکیں۔ پیشگی اقدامات اور احتیاطی تدابیر اختیار کر کے آفات اور ناگہانی حادثات کے نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے اور اپنی منصوبہ سازی کے تحت اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تمام تر امدادی کارروائیوں میں عورتوں، بزرگوں، بچوں، معذور افراد اور انفرااسٹرکچر کو نقصان سے بچاؤ کا خاص خیال رکھا جائے۔
سیلابوں اوردوسری قدرتی آفات کے حوالے سے جامع منصوبہ بندی کی جائے۔ اگر ایک بڑا ڈیم سیلابوں سے بچانے میں مدد دے سکتا ہے تو اس بارے منصوبہ بندی کرنی چاہیے، جو لوگ اس مشکل میں ہم وطنوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں، وہ بھی بے یقینی کا شکار ہوکر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کہیں ان کا عطیہ یا فراہم کردہ وسائل ’غلط ہاتھوں‘ میں نہ چلا جائے۔ بدقسمتی سے عام شہریوں کی مشکل کو سیاسی مقصد حاصل کرنے کا رویہ اس وقت ہر سطح پر نمایاں ہے۔
ایسے موقعے پر قومی یکجہتی میں واضح طور سے محسوس ہوتی دراڑیں نہ صرف بحالی کے کاموں میں مشکلات کا سبب بن رہی ہیں بلکہ عوام کی پریشانی اور بے یقینی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت یہ ذمے داری صرف وفاقی حکمرانوں اور دیگر حکومتی اہلکاروں پر ہی عائد نہیں ہوتی بلکہ صوبائی اور مرکزی حکام کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر قوم کو اس مشکل سے نکالنے کی کوشش کرنا ہوگی۔
حکومت کو محکمہ موسمیات کو جدید بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ موسموں کے حوالے سے قبل از وقت ٹھیک ٹھیک پیش گوئی کر سکے، اگر شدید بارشوں کی پیش گوئی ہو تو جن علاقوں میں سیلاب آنے کا خطرہ ہو وہاں سے لوگوں اور ان کے مال مویشیوں کو نکالنے کے لیے بروقت کام ہونا چاہیے ان کے ڈوب جانے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔
حکومت کو سیلاب زدگان کے لیے ریلیف کیمپ لگانے چاہئیں تاکہ جو لوگ اپنی مصروفیات کی وجہ سے سیلاب زدگان تک نہیں پہنچ سکتے وہ اپنے فنڈز اور سامان ان کیمپوں میں پہنچا دیں اور وہاں سے پھر حکام کی نگرانی میں اکٹھا کیا گیا سامان سیلاب زدگان تک پہنچایا جاسکے، تاہم ضروری ہے کہ اس سارے عمل میں شفافیت کو برقرار رکھا جائے تاکہ حقیتاً حق بہ حق دار رسید والا معاملہ ہو سکے۔