ہم سب میں سے جو بھی صاحب حیثیت ہے، وہ اپنی دانست میں سخاوت کی کوشش کرتا ہے، جو صاحب نصاب ہیں، وہ زکوۃ دیتے ہیں۔ چند دن پہلے دوستو ں کی ایک محفل میں بیٹھے تھے کہ وہاں سخاوت اور چیریٹی کے موضوع پر بات چل نکلی تو ایک آواز آئی کہ میں پہلے بہت چیریٹی کرتی تھی مگراب کم کر دی ہے۔ کسی نے سوال کیا کہ ایسا کیوں ہوا ہے، کیا تمہیں لگتا ہے کہ چیریٹی کاکوئی فائدہ نہیں رہا یا تمہارے حالات خراب ہو گئے ہیں کہ اب چیریٹی نہیں کر سکتیں۔
’’ ایسا نہیں ہے، اصل میں پہلے میں اس لیے زیادہ چیریٹی کر پاتی تھی کہ جو کچھ میرے پاس گھر میں نیا اور پرانا میری ضرورت سے زائد ہوتا تھا، وہ میں چیریٹی میں نکال دیتی تھی۔کپڑے، جوتے، برتن، بچوں کے پرانے کھلونے یا ان تمام چیزوں میں کچھ نئی ہوتیں، وہ میں نے کبھی شوق سے خریدی ہوتی تھیں مگر استعمال ہی نہ ہوئیں یا مجھے وہ خرید کر اتنی پسند نہ رہیں جتنی کہ دکان پر پڑی لگی تھیں، اسی طرح بچوں کے کھلونے جو انھیں تحائف میں ملتے مگر انھیں پسند نہ ہوتے تھے، کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہ چند دن کھیلتے اور ان کا دل اس سے اکتا جاتا تھا۔
برتنوں کے کچھ نامکمل سیٹ یا جوتے جو ذرا سے گھس جاتے، تنگ ہوجاتے اور مجھے علم ہوتا کہ اب میں انھیں نہیں پہنوں گی تو ایسی چیزیں میں گھر میں ایک طرف جمع کر لیتی تھی، جوں جوں کوئی ضرورت مند نظر آتا تو میں اسے دے دیتی تھی،کبھی کبھار میں یہ سامان اکٹھا کر کے اپنے گاؤں بھجوا دیتی تھی۔‘‘ وہ سانس لینے کو رکیں ’’ پھر مجھے کسی نے کہا کہ یہ سب کچھ سخاوت یا صدقہ کے زمرے میں نہیں آتا ۔
چیریٹی صرف نئی چیز کی کی جا سکتی ہے۔’’ بس اس دن کے بعد سے میرا ہاتھ رک گیا‘‘ جب بھی گنجائش ہوتی ہے رقم ہی دے دیتی ہوں کیونکہ وہ ایسی چیزہے کہ جس کی ہر کسی کو ضرورت بھی ہوتی ہے اور پسند بھی، وہی رقم ہے جو ہم بھی خرچ کرتے ہیں اور وہی دوسروں کو بھی دے سکتے ہیں۔‘‘ اسی محفل میں ہم جیسی ہی ایک خاتون بیٹھی تھیں جنھوں نے مائیک سنبھالا، ( غائبانہ)-
’’ میں ایک بہت ہی عام عقل اور فہم کی مالک ہو۔ میں اتنا جانتی ہوں کہ صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے، میں نے یہ بھی پڑھا ہے کہ سڑک یا پتھر یا شیشے کا ٹکڑا ہٹا دینا بھی صدقہ ہے۔ ہمارے پاس جو کچھ ہماری ضرورت سے زائد ہے یا ہمارے پاس اس کا کوئی استعمال نہیں، حتی کہ ہمیں پسند بھی نہیں ہے تو بھی اسے گھر کے اسٹور روم میں سال ہا سال کے لیے رکھ کر برباد کرنے سے بہتر نہیں کہ ہم اسے کسی ضرورت مند کو دے دیں۔
اسے قبول کرنے کا اختیار فقط اﷲ تعالی کے پاس ہے اور وہ بہترین اجر عطا کرنے والا ہے۔ ‘‘ وہ رسان سے کہنے لگیں۔’’ بس شرط یہ ہے کہ آپ کو یہ فالتو ، پرانا یا زائد الضرورت سامان دینے میں بھی ذرا محنت کرنا پڑے گی۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھیں کہ جو سامان آپ کے پاس ہے وہ قابل استعمال ہے کہ نہیں۔
’نیکی کر دریا میں ڈال ‘ کا محاورہ تو آپ سب نے سنا ہوا ہے، آپ کی نیکی اس وقت ویسے ہی ضایع ہو جاتی ہے جب آپ کسی کو دیے ہوئے کو جتلائیں۔ ’’ ہمارا دیا کھا کر ہمارے ساتھ ہی… ہم اسے نہ دیتے تو فاقوں مر رہا ہوتا، ہم نے اس کا اتنا خیال رکھا اور اس نے اس کا یہ صلہ دیا… وغیرہ۔
اس طرح کے الفاظ ان لوگوں کے لیے بولنا جنھیں ہم اپنی زکوۃ اور صدقات دیتے ہیں ، بالکل غلط ہیں۔ ایسے کاموں میں نیت ہمیشہ یہ کریں کہ آپ اﷲ کی خوشنودی کے لیے اﷲ تعالی کے بندوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایسا کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا اور ہم سب کے دلوں پر سے چھائی ہوئی دھند جیسے چھٹنے لگی۔
دنیا اس وقت قائم ہی چند لوگوں کی اچھائی پر ہے اور اگر اچھائیوں کو بھی منفی پیمانوں پر تولا جائے گا، لوگوں کے دلوں میں بد گمانی پیدا کی جائے گی تو لوگ اچھائی کرنا بھی چھوڑ دیں گے۔
اس بات کابہت بڑا گنا ہ ہے کہ آپ ایسی بات کو گناہ کہہ دیں جسے قرآن اور سنت کے مطابق گناہ نہیں کہا گیا ہے۔ یہ صریح جھوٹ اور از خود بڑا گنا ہ ہے۔ اﷲ سب سے بہتر جاننے اور ہمارے اعمال کا حساب کرنے والے اور ان کا صلہ دینے والے ہیں۔