باصلاحیت لوگ اپنی قابلیت سے پہچانے جاتے ہیں اور معاشرے میں عزت پاتے ہیں اور ہمیں فخر ہے، اپنی پاک دھرتی کے اُن باصلاحیت لوگوں پر جو اچھا دیکھتے، اچھا سوچتے، اچھا لکھتے، اچھا بولتے اور اپنے حُسنِ اخلاق سے معاشرے میں اپنا تعمیری کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے باصلاحیت لوگوں کی فہرست میں ایک نام خواجہ آفتاب عالم کا بھی ہے۔ ان کا شمار پاکستان کے بہترین مقرر اور اسٹیج سیکریٹری کی حیثیت سے سیاسی، سماجی، قانونی، تعلیمی، ادبی اور صحافتی حلقوں میں ہوتا ہے۔
وہ اپنی سدا بہار تحریروں، انقلابی تقریروں اور فکر انگیزگفتگوکی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ ڈاکٹر محمد اجمل نیازی (مرحوم) اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’خواجہ آفتاب عالم ایک جنونی آدمی ہے، جنون ایک بیماری بھی ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ ان کے اندر جو تلاطم ہے یہ انہی جذبوں کا تسلسل ہے،آفتاب کی شاعری بے حد و بے حساب ہے انہیں اس جنون میں کسی قاعدے قانون کی فکر نہیں ہوتی، وہ لکھتے ہیں تو لکھتے ہی چلے جاتے ہیں۔‘‘
کسی بھی شخص کی قابلیت یا اُس کی صلاحیتوں کا اعتراف کر لینا حقیقت میں اُسے عزت، مرتبہ اور اہمیت دینا ہی ہوتا ہے۔ خواجہ آفتاب عالم کی شخصیت اور قابلیت کا ہر پہلو ہی مجھے بہت خوبصورت لگتا ہے۔ ان کے تعلیمی سفرکا آغاز گورنمنٹ مڈل سکول کوٹلی نواب گاؤں سے 1987 ء میں مڈل کا امتحان پاس کرنے سے ہُوا، ایمن آباد ہائی اسکول نمبر2 میں نہم کلاس میں داخلہ لیا پھر 1989 ء میں میٹرک اور 1993 ء میں گریجویشن کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا، بعدازاں 2003 ء میں ایل ایل بی کی ڈگری بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے حاصل کی۔
2014 ء میں ایم ایس سی جنڈر اینڈ وویمن اسٹڈیزکا امتحان اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا۔ پروفیسر عاطفہ ناصرکے مطابق ’’ خواجہ آفتاب عالم اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں میرا طالب علم رہا ہے، جو انتہائی مودب، سلیقہ شعار اور گفتگو کا قرینہ رکھنے والا نوجوان ہے۔ اس نوجوان نے اپنی نیک نیتی، عقلی جہت اور بزلہ سنج سے حالات و احوال کے گرد و پیش کا تجزیہ اپنی شاعری میں بڑی صاف گوئی سے کیا ہے۔ اس کے کلام سے لگتا ہے کہ جیسے گلشن میں بہار آنے والی ہے اور خزاں کے سوکھے پتوں پر نکھار آنے والا ہے۔
خواجہ آفتاب عالم کی آئیڈیل شخصیت ان کے دادا غلام محمد کاشمیری مرحوم ہے، جو کم و بیش آٹھ زبانوں پر دسترس رکھتے تھے، وہ اپنے آبائی گاؤں میں پیشہ تجارت سے منسلک رہے، علاقہ بھر میں دونوں بھائی سردار محمد کاشمیری اور غلام محمد کاشمیری عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ امین خیال، جان کاشمیری، ڈاکٹر محمد اجمل نیازی، پروفیسر ماجد حمید المشرقی، میاں محمد صدیق کامیانہ، داؤد تاثیر، اکرم ملک،آصف صدیقی، ایم بی تبسم جیسے بڑے لوگوں کی صحبت ، شفقت اور محبت سے فیض یاب ہونے والا آفتاب آج پورے عالم میں اپنے قابلیت اور صلاحیتوں سے ادب ، صحافت، وکالت اور سیاست کے اُفق پر پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگا رہا ہے۔ خواجہ آفتاب عالم خود بھی جان کاشمیری کے اس شعرکی مانند جانتے ہیں۔
سب زمانے مری تصدیق پہ مامور ہوئے
میں حقیقت میں کسی ایک زمانے کا نہیں
خواجہ آفتاب عالم کے سیاسی سفر پر ایک نظر ڈالیں تو وہ مسلم لیگ ن کے متحرک کارکن میں سے ایک ہیں، جنہوں نے اپنے محبوب قائد میاں محمد نواز شریف پر تین کتب لکھنے کا اعزاز اپنے نام کیا ہے۔ جن میں ’’ قومی سوچ کے حامل قومی رہنما، ہر دلعزیز قومی رہنما اور ایک بہادر شخص‘‘ جو میاں محمد نواز شریف کے ماضی حال اور مستقبل کے آئینے کی عکاس ہے۔ اس کتاب میں شامل سیکڑوں تصویروں کے البم سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ جب مسلم لیگ ن کے تمام اعلیٰ قیادت پرکڑا وقت آیا تو اُس وقت بھی خواجہ آفتاب عالم جیسا مخلص، ایماندار، نڈر اور صاف گوکارکن اپنے ذاتی اخراجات پر اپنی جان کی پروا کیے بغیر اپنے لیڈرکی محبت میں عدالتی کیسز میں کبھی گوجرانوالہ سے لاہور تو کبھی اسلام آباد سمیت دیگر شہروں میں ہونے والی پیشیوں میں باقاعدہ اپنے رہنماؤں کے ساتھ عدالتوں میں حاضری دیتے رہے۔
گزشتہ کئی برسوں سے وہ پاکستان مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم پر بطور اسٹیج سیکریٹری قومی، صوبائی اسمبلی کے ممبران ، مشیران اور وزارئے حکومت کے ساتھ جلسے اسٹیج سیکریٹری پرفارم کرتے رہے۔ شعبہ وکالت میں بھی وہ سنیئر قانون دان کی حیثیت سے ان کی خدمات قابلِ ستائش ہیں۔ اپنے محبوب قائد کی محبت میں کہے گئے ان کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
زخموں سے اب میرے پاؤں چھلنی ہیں
چہرے کا دیدارکرا فی الفور میاں
میں نے تیرے بارے برسوں سوچا ہے
میرے بارے تو بھی کرکچھ غور میاں
تحریکِ انصاف کی حکومت کا تختہ اُلٹتے ہی پی ڈی ایم کی صورت میں تمام سیاسی پارٹیوں کا مشترکہ حکومت بناکر اقتدار میں آنا اور ملک و قوم کو مہنگائی کی دلدل سے نکالنے کے عزم نے آج پہلے سے بھی زیادہ ملک و قوم کو قرضوں میں دھکیل دیا ہے۔ آج حکمران اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ملک کو معاشی، مالی طور پرکھنگال اور قوم کو خون کے آنسو رلا رہے ہیں۔ آج دنیا کے دیگر ممالک ہم سے آگے نکل گئے ہیں، ہمارا خود کا نقشہ بدل تو گیا لیکن کچھ نہیں بدلا تو مسائل نہیں بدلے۔ آج بھی چالیس سال قبل کے مسائل کے بارے میں ہمارے حکمران جواب میں جو کچھ کہتے تھے آج بھی وہی کہتے ہیں۔ پہلے بھی پاکستان مسائل کی زد میں تھا اور آج بھی۔ جانے کب ہونگے کم اس ملک و قوم کے غم ۔ بقول شاعر
غریبِ شہرکے بچوں سے روٹی چھین لی تو نے
تو ظالم ہے ترا ہر ظلم دنیا کو دکھاؤں گا
خدا کے لیے آج ہم سب کو اپنے گریباں میں جھانک کر اپنے ماضی میں ہونے والی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے اچھے فیصلے کرنے ہونگے۔ کیوں کہ اب ہمارے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے، ہمیں اپنی قائدانہ صفوں میں، اپنے چھوٹے بڑے ہر اہم اور اچھے اداروں میں تبدیلیاں لانا ہونگی تاکہ تجربے کار، اپنے کام کے ماہر، بے لوث اور محنتی لوگوں کو اس کے شایانِ شان کام دینا ہوگا۔
یہی ان کی قابلیت کا انعام ہوگا۔ خواجہ آفتاب عالم جیسے بے شمار لوگ اس کے حقیقی حق دار ہیں، جو قلم سے رشتہ استوار رکھے ہوئے اپنے قوم و ملک کی دکھ درد اپنی جھولی میں ڈال کر ان کی چہروں پر تبسم کے پھول کھلاتے ہیں اور انہیں مستقبل میں آگے بڑھنے اور ثابت قدم رہنے کا درس دیتے ہیں۔کیوں کہ لکھاری، ہنر مند ادیب ہو یا دانشور یہ سب معاشرے کا دماغ ہوتے ہیں۔ خواجہ آفتاب عالم جیسے ذہین اور قابل چہروں کا فورا انتخاب کیا جائیں۔ جو اپنی عمرکے اعتبار سے تجربات کی بھٹی میں تپ کرکندن بن چکے ہیں۔ حالانکہ ہنرمند، قابل یا دانشوروں کے لیے عمرکی کوئی قید نہیں ہونی چاہیے۔
موجودہ حالات کے پیشِ نظر خواجہ آفتاب عالم پاکستان ٹیلی وژن، الحمرا آرٹس کونسل، تعلقاتِ عامہ، پنجاب انسٹی ٹیوٹ اینڈ کلچر (پلاک) ، اُردو سائنس بورڈ جیسے ادبی ، ثقافتی اداروں میں ان کی تعیناتی ابرِ رحمت کا چمن میں خوشگوار موسم اور تازہ بہارکا جھونکا ثابت ہوگی۔ جس سے ہمارے ادب و ثقافت میں بہتری دیکھنے کو ملے گی۔ اس کے علاوہ ان کی وکالت کے تجربات کے مطابق بطور جج انسداد دہشت گردی ان کی خدمات حاصل کیے جا سکتی ہیں۔ موجودہ حکومت یقینا میرٹ پر ایسے چہروں کا انتخاب کرے۔