کراچی: لبنان میں حزب اللہ کے زیر استعمال پیجرز میں ایک گھنٹے تک ہونے والے دھماکوں میں قیمتی جانی نقصان اور ڈھائی ہزار سے زائد افراد کے زخمی ہونے کے واقعے نے پوری دنیا کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
ہر شخص مضطرب ہے کہ آخر کس طرح یہ بہ یک وقت یہ دھماکے ممکن ہوئے؟۔ حزب اللہ نے اس واقعے کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی ہے اور کہا جارہا ہے کہ اسرائیل نے مبینہ طور پر ہیکنگ کی مدد سے یہ کارروائی انجام دی ہے۔
یاد رہے کہ 80 اور 90 کی دہائیوں میں جب موبائل فون عام نہیں تب پیجرز ہی مختصر پیغامات یا الرٹس وصول کرنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ خاص طور پر وہ پیشہ ور افراد جنہیں ہر وقت رابطوں کی ضرورت ہوتی ہے جیسے ڈاکٹرز، ہنگامی عملہ اور کاروباری افراد میں یہ ڈیوائس کافی مقبول تھی۔
مزید پڑھیں: لبنان میں ایک گھنٹے تک پیجرز میں دھماکے، 9 افراد جاں بحق، 2750 زخمی
پیجرز ریڈیو فریکوئنسی کا استعمال کرتے ہوئے ایک وسیع علاقے میں سگنل وصول کرتے ہیں جو ایک سنٹرل ٹرانسمیٹر سے بھیجے جاتے ہیں، کمزور موبائل فون کوریج والے علاقوں میں اپنی قابل اعتمادی کے لیے مشہور تھے کیونکہ وہ مضبوط ریڈیو سگنل استعمال کرتے تھے، موبائل فونز کے مقابلے میں عام طور پر پیجرز کی بیٹری بہت زیادہ ہوتی ہے جو کبھی کبھی دنوں یا ہفتوں تک چلتی ہے۔
گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں موبائل فون کی آمد کے ساتھ پیجر کا استعمال کم ہونا شروع ہوگیا تاہم اب بھی اکثر ممالک میں ایمرجنسی سروس اور سکیورٹی اداروں کے اہکار استعمال کر رہے ہیں کیونکہ پیجرز موبائل فونز کے مقابلے میں زیادہ محفوظ تصور کیے جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں: شام میں بھی حزب اللہ کے زیر استعمال پیجرز پھٹنے سے 14 افراد زخمی
اگرچہ ان دھماکوں کی صحیح وجہ ابھی تک نامعلوم ہے لیکن قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ پیجرز کے اندر لیتھیم بیٹریوں کے زیادہ گرم ہونے کی وجہ سے یہ دھماکے ہوئے۔ تاہم کچھ رپورٹس بتاتی ہیں کہ دھماکہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بھی کیا جا سکتا ہے۔
لبنان کی حکومت نے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس طرح کے آلات استعمال کرنے سے گریز کریں جب تک کہ مزید تحقیقات سے خطرات واضح نہ ہوں۔